جو چاہتا ہوں، مری بات میں اثر بھی نہیں- کلیات نعت

جو چاہتا ہوں، مری بات میں اثر بھی نہیں
زرِ سخن بھی نہیں، مصرعِ ہنر بھی نہیں

مگر یہ حرفِ دعا، آرزوئے شہرِ نبیؐ
زباں پہ جس کے سوا نطق کا گذر بھی نہیں

عطا کریں وہ مجھے بھی جہانِ لوح و قلم
جہانِ فن کہ جو تخلیقِ ہر بشر بھی نہیں

عطا مجھے بھی کریں رزقِ حرف کی خیرات
کہ مجھ پہ وا ہوا بیتِ ثناء کا در بھی نہیں

ہوں ناتواں، ہے بہت بار مجھ پہ عصیاں کا
سوائے عفو و کرم کے کوئی مفر بھی نہیں

مجھے بھی در پہ بٹھا لیجے یا رسول اللہؐ!
نہیں ٹھکانا مرا کوئی، اور گھر بھی نہیں

ازل سے آپ کا پروردۂ کرم ہی تو ہوں
امیرِ فقر ہوں، مجھ کو خیالِ زر بھی نہیں

میں جی رہا ہوں فقط آپ کے بھروسے پر
ہوں سوئے حشر رواں، زادِ رھگذر بھی نہیں

جلو میں رہتا ہے اک یاد مصطفیٰؐ کا چمن
ہے اور بات، مرا کوئی ہمسفر بھی نہیں

مرا شمار غلاموں میں ہو گیا ہے تو بس
پھر اس کے بعد کوئی حاجتِ خبر بھی نہیں

جو کوئی غم ہے تو بس ہے غم رضائے رسولؐ
ہزار خوف ہوں لیکن کوئی خطر بھی نہیں

اگر میں عشقِ محمدؐ میں غرق رہتا ہوں
قسم خدا کی مجھے قبر کا وہ ڈر بھی نہیں

غلام ہی تو سگِ اہلِ بیت ہوتا ہے
عزیز ان کے غلاموں میں مستتر بھی نہیں

نغمۂ ندامت

مری چشمِ تر سے روشن شبِ زندگی کی قامت
ہے یہ چشمۂ محبت، مرا غم رہے سلامت
مرے دل کی خامشی کی ہے صدا ندائے توبہ
مری روح کا ترنم، مرا نغمۂ ندامت

*