دعا ہے تا دمِ آخر رہوں جا کر مدینے میں- کلیات نعت
دعا ہے تا دمِ آخر رہوں جا کر مدینے میں
ثنائے پیکرِ رحمتؐ کروں جا کر مدینے میں
وہاں جنت کی نہروں میں یہی تو بہہ رہا ہو گا
جو ملتا ہے غلاموں کو سکوں جا کر مدینے میں
مدینے کی ہوائیں دل کے تالے توڑ دیتی ہیں
تمنا ہے ہوا بن کر چلوں جا کر مدینے میں
رموزِ حکمتِ خلاقِ عالم ہیں لکھے اس میں
کتابِ عشق پیغمبرِؐ پڑھوں جا کر مدینے میں
وہاں کا ذرہ ذرہ کہہ رہا ہے داستاں ان کی
ہے میری آرزو ان کو سنوں جا کر مدینے میں
ابھی تک ہے فسادِ رنگ و بو میرے تعاقب میں
بہت ہے آرزو میری، چھُپوں جا کر مدینے میں
پھر اس کے بعد جو صورت بنے انوارِ قربت کی
میں انؐ کے در پہ اپنا سر رکھوں جا کر مدینے میں
میں جب بھی آنکھ کھولوں گنبدِ خضریٰ نظر آئے
کبوتر روح کا بن کر اڑوں جا کر مدینے میں
خدا کے اور فرشتوں کے درودوں کا ترنم ہو
میں اُس محفل میں آنکھیں نم کروں جا کر مدینے میں
رسولِِؐ پاک کے اصحابؓ کی محفل بھی ہوتی ہے
رہوں میں اُنؐ کے قدموں میں نگوں جا کر مدینے میں
کلام اللہ اور نطقِ رسولِؐ پاک کے صدقے
ملے اسلاف کا جذب دروں جا کر مدینے میں
لگیں میرے تنے پر بھی کھجوریں یا رسول اللہ!
میں مدحت کی کھجوریں بانٹ دوں جا کر مدینے میں
مرے بچوں کے دکھ احباب کے غم ختم ہو جائیں
میں یوں شام و سحر روتا رہوں جا کر مدینے میں
عزیزؔ ان کی رضا کا غم ہے وہ راضی خدا راضی
میں توبہ کی دعا کرتا رہوں جا کر مدینے میں
*