نعتیہ گیت- رزق ثنا (1999)
شہرِ طیبہ کو جاتی ہوائو! میرے سینے سے بھی لگ کے جانا
پیش کرکے سلاموں کی ڈالی، میرا سب حال اُنؐ کو بتانا
یہ بھی کہنا کہ رو رو کے کوئی داستاں درد کی کہہ رہا ہے
شب کے جنگل میں مدت سے آقاؐ ہجر کی سختیاں سہہ رہا ہے
بن کے اشکوں کا گہرا سمندر اپنے الفاظ میں بہہ رہا ہے
وہ ریاضؔ آپؐ کا جو ہے شاعر، اپنے در پر اُسے بھی بلانا
شہرِ طیبہ کو جاتی ہوائو! میرے سینے بھی لگ کے جانا
پیش کرکے سلاموں کی ڈالی، میرا سب حال اُنؐ کو بتانا
یہ بھی کہنا کہ گردابِ غم میں دھوپ دشتِ بلا کی کڑی ہے
کشتیٔ ملتِ بے وسیلہ یا سیت کے بھنور میں کھڑی ہے
درد بدر آپؐ کی ساری امت، غیر کی ٹھوکروں پر پڑی ہے
عظمتِ عہدِ رفتہ کا مژدہ زخم خوردہ قلم کو سنانا
شہرِ طیبہ کو جاتی ہوائو! میرے سینے سے بھی لگ کے جانا
پیش کرکے سلاموں کی ڈالی، میرا سب حال اُنؐ کو بتانا
یہ بھی کہنا کہ تشنہ زمینیں آپؐ کی دے رہی ہیں دہائی
حرفِ مبہم سے لپٹی ہوئی ہے عہدِ بے نور کی نارسائی
کب ملے گی غلاموں کو آقاؐ اس گرفتِ قضا سے رہائی
گنبدِ سبز کے زیرِ سایہ، رتجگا عمر بھر کا منانا
شہرِ طیبہ کو جاتی ہوائو! میرے سینے سے بھی لگ کے جانا
پیش کرکے سلاموں کی ڈالی، میرا سب حال اُنؐ کو بتانا