کفن فروش جنازے اٹھا کے لائے ہیں- رزق ثنا (1999)
حضورؐ خون کے چھینٹے ہیں جس کے آنچل پر
ہتھیلیوں پہ وہی خاک لے کے آیا ہوں
حضورؐ آپ کی چوکھٹ پہ سر کے بل چل کر
مَیں اپنا دامنِ صد چاک لے کے آیا ہوں
مَیں عرض، حالِ، دلِ زار کیا کروں آقاؐ
نگاہ و دل میں پشیمانیوں کا طوفاں ہے
مرا تو شرم و ندامت سے سر نہیں اٹھتا
کہ اپنے ہاتھوں میں اپنا لہو فروزاں ہے
یہ خون و خاک میں لپٹے ہوئے مناظر سے
سکون دامن کی کوئی صدا نہیں آتی
مرے وطن کے گلستاں سے آپؐ کو آقاؐ
مجھے یقین ہے ٹھنڈی ہوا نہیں آتی
چراغِ راہ بجھائے ہیں آندھیوں نے حضورؐ
ہر ایک سمت شبِ غم کی حکمرانی ہے
ہر ایک سمت قیامت کے گھپ اندھیروں میں
نفاقِ امتِ مرحوم کی کہانی ہے
حضورؐ خون میں ڈوبے ہوئے ہیں شام و سحر
نشان عظمت و رفعت کے خود مٹائے ہیں
اب اعتبار کرے بھی کوئی تو کس کا کرے
کفن فروش جنازے اٹھا کے لائے ہیں
دعا یہ خوفِ مسلسل میں لب سے نکلی ہے
قدم قدم پہ نئی رُت کا سبز منظر ہو
سلگتی دھوپ کے اس بے اماں جزیرے میں
غبارِ وادیٔ بطحا کی سر پہ چادر ہو
یہ جورو جبر کا موسم بدل نہیں سکتا
مجھے تو کوئی بھی صورت نظر نہیں آتی
حضورؐ آپ ہی چارہ گری کریں اب تو
ادھر عروسِ بہارِ سحر نہیں آتی