آتا ہے کون چھوڑ کے محبوبؐ کی گلی- کلیات نعت

آتا ہے کون چھوڑ کے محبوبؐ کی گلی

بے چارگی کہوں یا اسے اپنی بے بسی
آتا ہے کون چھوڑ کے محبوبؐ کی گلی

آقاؐ کچھ اس طرح سے کرم ہو غلام پر
راحت رسا رہے شبِ ہجراں کی بے کلی

اترا ہے دل میں نقشِ کفِ پا حضور کا
رفتار کہہ رہی ہے مسلسل نبیؐ نبیؐ

پلکوں پہ رات نور کا میلہ لگا رہا
جلوہ فگن تھی آپؐ کے دیدار کی گھڑی

مہکا ہوا ہوں عنبرِ قربِ رسولؐ سے
مجھ کو ردائے کربِ احد ہے عطا ہوئی

خاموش و باادب ہیں پہاڑ اور راستے
ہے سب کو انتظار کہ گذریں گے آپؐ ابھی

عطر و گلاب، عنبر و لوبان و عود سب
کرتی ہیں ساری خوشبوئیں مدحت رسولؐ کی

چھایا ہوا ہے نعت کا موسم کچھ اس طرح
اتری ہو جیسے وادیٔ بطحا پہ چاندنی

آقاؐ! حضورؐ کیجئے رخصت غلام کو
کہتے ہیں لوٹ جانے کی تاریخ آ گئی

ہے آرزو کہ آپؐ کی چوکھٹ پہ جان دوں
آقاؐ عطا کریں دمِ رحلت بھی حاضری

کل تک تو بارگاہِ پیمبرؐ میں تھا عزیزؔ
قربان میرے کل پہ مری ساری زندگی

*

جمالِ حرف کہ دیکھا نہیں ہے مَیں نے ابھی
ورق پہ لکھنا بھی سیکھا نہیں ہے مَیں نے ابھی
جہانِ نعت میں لایا ہے مجھکو ذوقِ ثنا
میں کیا کروں گا یہ سوچا نہیں ہے مَیں نے ابھی

*

اہلِ انا سے میرا کوئی رابطہ نہیں
کارِ جہاں سے میرا کوئی واسطہ نہیں
مدت سے ہوں مشقتِ توبہ کے خول میں
سرکارؐ کی گلی کے سوا کچھ پتہ نہیں

*