ملتی ہے جو غلام کو شفقت نہ پوچھئے- کلیات نعت
ملتی ہے جو غلام کو شفقت نہ پوچھئے
مجھ سے درِ رسولؐ کی جنت نہ پوچھئے
جولانگہِ حیات میں، اِس کائنات میں
بہتی ہے کس طرح سے وہ رحمت نہ پوچھئے
اُس در پہ اشکبار نگاہوں میں رات دن
بٹتی ہے جو سکون کی دولت نہ پوچھئے
اٹھتے ہیں واں سے ہو کے توانا ضعیف بھی
کرتے ہیں جو عطا انہیں ہمت نہ پوچھئے
کرتی ہے زیر دہر میں ناممکنات کو
اُنؐ کے کرم سے جو ملے قوت نہ پوچھئے
اُن پر درود پڑھتے ہیں ربِ کریم جب
اُس کیفِ بے پناہ کی لذّت نہ پوچھئے
آقائے دوجہاںؐ نے دیا حرفِ لاالٰہ
توحید کا مقامِ شہادت نہ پوچھئے
کہتے ہیں جب کہ آپؐ خدا کے رسولؐ ہیں
اِس کلمۂ وفا کی حلاوت نہ پوچھئے
اُمت پہ ہو گا سایۂ رحمت حضورؐ کا
محشر میں انؐ کی شانِ شفاعت نہ پوچھئے
جاتے ہوئے جہاں سے جو نوکِ زبان ہو
اُس لمحۂ درود کی برکت نہ پوچھئے
کوشش سے جس کی راہِ خدا میں جلیں چراغ
اُس نفسِ خوش نصیب کی حُرمت نہ پوچھئے
روشن ہیں جس کے قلب و جگر اُنؐ کی یاد سے
اُس جانِ محترم کی کرامت نہ پوچھئے
آنکھوں میں جس کی عشقِ نبیؐ تیرتا رہے
اُس کی بصارتوں کی حقیقت نہ پوچھئے
جھیلی ہے جس نے صبر و محبت سے جانکنی
اس کے لئے بشارتِ رفعت نہ پوچھئے
ہو گی قبول عرضِ غلامی عزیزؔ کی
اخلاص و عجزِ جاں کی اجابت نہ پوچھئے
*