پلٹ کے لائے ثمر حرفِ التجا میرا- رزق ثنا (1999)
پلٹ کے لائے ثمر حرفِ التجا میرا
الہٰی! پھولے پھلے گلشنِ ثنا میرا
کبھی تو تشنہ لبی کے عذاب سے نکلوں
زمینِ کرب و بلا سے ہو انخلا میرا
نشاطِ نعمتِ پیمبرؐ میں روح ہے میری
مگر وجود سرِ شاخِ غم کھِلا میرا
نزولِ آیتِ عشقِ نبیؐ مبارک ہو
کئی دنوں سے قلم تھا بجھا بجھا میرا
کسی کے حرفِ تشفی سے کیا مجھے مطلب
وہی ہیں عہدِ ملامت میں آسرا میرا
ہوائے شہرِ محمدؐ سے ہمکلام ہوں میں
عجیب کیف میں گزرے گا رتجگا میرا
شفیق منظرِ شب ہے برستی آنکھوں میں
انہیں پسند ہے اشکوں سے جھانکنا میرا
سگانِ کوئے مدینہ میں ہو شمار، غلط
تمام جھوٹ بتاتا ہے آئنہ میرا
مرا حوالہ بڑا معتبر حوالہ ہے
غمِ اویسؓ سے ملتا ہے سلسلہ میرا
اُسی گلی سے روابط ہیں استوار مرے
اُسی دیار کو جاتا ہے راستہ میرا
مجھے یہ خوف مسلسل جگائے رکھتا ہے
حضورؐ روک نہ دے وقت ارتقا میرا
سوال بن کے مچلنے لگا ہے ہونٹوں پر
یہی حضورؐ یہی حرفِ مدعا میرا
ہوا کے ہاتھ پہ سورج بجھے ہوئے ہیں حضورؐ
یہ کس سراب میں ٹھہرا ہے قافلہ میرا
ندا یہ آئی مبارک ہو منصبِ مدحت
ازل نے ہاتھ پہ رکھا جو زائچہ میرا
بیاضِ نعت لئے چھپ کے میں کھڑا تھا ریاضؔ
کسی نے نام سرِ حشر لے لیا میرا
سمٹ رہے ہیں ستارے فلک کی بانہوں میں
غبارِ نور ہے پھیلا ہوا نگاہوں میں
یہ کس رسول کی آمد ہے بزمِ ہستی میں
سحر ازل سے مؤدب کھڑی ہے راہوں میں