وہی بول میٹھے وہی حرفِ شفقت لبِ مصطفےٰؐ کی صدا ڈھونڈتے ہیں- رزق ثنا (1999)
وہی بول میٹھے، وہی حرفِ شفقت، لبِ مصطفی کی صدا ڈھونڈتے
ہیں
شریکِ سفر اب تجھے کیا بتائیں، مدینے کی گلیوں میں کیا ڈھونڈتے ہیں
اٹھائے ہوئے ہیں یہ ہاتھوں میں سورج، انہیں مضطرب رکھتی
ہے کون سی شے
اُسی نورِ آخرؐ کے تلووں کا دھوون، ازل سے یہ ارض و سما ڈھونڈتے ہیں
سفر میں حضر میں، جمالِ سحر میں، اُفق تا اُفق چاند تاروں
کے گھر میں
محیط اسمِ رحمت ہو جس پر مسلسل، کرم کا وہی سلسلہ ڈھونڈتے ہیں
شریک اس کا کوئی نہیں وہ خدا ہے وہی ہر مصیبت میں مشکل کشا
ہے
خدا کی قسم دامنِ مصطفیؐ میں خدا ڈھونڈتے ہیں، خدا ڈھونڈتے ہیں
سجا کے یہ نعتِ نبیؐ کی محافل، سیہ کار و عاصی، گنہ گار
ہم سے
ندامت کے آنسو ہوں تجسیم جس میں سرِ شب وہ اجلی ردا ڈھونڈتے ہیں
جو مضروبِ طائف کی باتیں سنائے، جو اشکوں کے گجرے لبوں پر
سجائے
غبارِ غمِ زندگی کے بھنور میں، کوئی ایسا درد آشنا ڈھونڈتے ہیں
نہیں جانتے کب سے محوِ سفر ہیں، تلاشِ نقوشِ کفِ پا میں
ہم بھی
جو ہر اک صحیفے کے اندر ملا ہے وہ خورشیدِ غارِ حرا ڈھونڈتے ہیں
تلاشِ بہاراں میں ہم سر پھرے بھی ہوائوں کے ہمراہ نکلے ہوئے
ہیں
حقیقت میں کشکولِ حرفِ دعا میں زرِ مدحتِ مصطفیؐ ڈھونڈتے ہیں
ہجومِ غلاماں میں ہم بھی کھڑے ہیں کہ سرکارؐ آکر گلے سے
لگائیں
برہنہ سروں پر شفاعت کی چادر سرِ حشر میرو گدا ڈھونڈتے ہیں
ابھی تک ہے چشمِ تصور میں روشن وہ اشکِ رواں کی سلامی کا
منظر
سمٹ آئے جس میں حضوری کی لذت وہی ساعتِ دلکشا ڈھونڈتے ہیں
جو انگلی پکڑ کر کہے چل مدینے، طلب تجھ کو سرکارؐ نے پھر
کیا ہے
اسی نامہ بر کی اسی مہرباں کی ریاضؔ آج بھی گردِ پا ڈھونڈتے ہیں