ابرِ فیضانِ کرم چھایا ہے- کلیات نعت
ابرِ فیضانِ کرم چھایا ہے
دل میں ہر گل پہ نکھار آیا ہے
اُنؐ کے قدموں میں رہوں حشر میں بھی
یہ تمنا مرا سرمایہ ہے
جو محبت مجھے قرآن سے ہے
اُنؐ کی رحمت کا گھنا سایہ ہے
اُنؐ کے در پر ہی جھکے رہنے سے
میں نے نسبت کا گہر پایا ہے
پھول کھلتے ہیں کہ ُانؐ کو دیکھیں
مجھکو خوشبو نے یہ بتلایا ہے
تیرے محبوبؐ کی امت مولا!
اِس نے اغیار کو اپنایا ہے
یہ ڈبو دیں گے وطن کی نیّا
رھنماؤں نے غضب ڈھایا ہے
پھول بھی سونگھ رہے ہیں بارود
ہر طرف غم کا دھواں چھایا ہے
پھر سے جنت سے نکلنا ہو گا
پھر سے شیطان نے بہکایا ہے
یہ تو آقاؐ کا کرم ہے ہم پر
پھر سے پیغامِ بہار آیا ہے
پھول کی آنکھ سے آؤ دیکھیں
جس نے ہر سانس کو مہکایا ہے
اُنؐ کی آمد کی خوشی میں ہر سو
دہر میں نور امڈ آیا ہے
ہے بہاروں نے سجائی دھرتی
رقص میں سارا جہاں آیا ہے
نام اُنؐ کا ہے زباں پر کَندہ
نور آنکھوں میں بھی تھرّایا ہے
ق
اُس کی ہر سانس میں مہکا ہے درود
پھول اُس شخص کا سرمایا ہے
ذکر کے نور سے روشن ہے عزیزؔ
وجد میں سارا جہاں آیا ہے
*