مَیں دھوپ میں بھی خنک بوستان جیسا ہوں- کلیات نعت

مَیں دھوپ میں بھی خنک بوستان جیسا ہوں
کہ آرزوئے مدینہ میں ڈوبا رہتا ہوں

ابھی جو ٹوٹنے والا ہے زندگی کا بھنور
دریدہ جاں لبِ ساحل اترنے آیا ہوں

ہوائے شہرِ مدینہ کے دوش اڑتے ہوئے
مَیں حشر تک اسی چوکھٹ پہ رہنے آیا ہوں

کھلے ہیں جود و کرم کے تمام دروازے
درِ حبیب پہ دامن بچھا کے بیٹھا ہوں

عطائے حق ہے کہ توفیقِ آرزو ہے مجھے
بہت کرم ہے، میں کوئے نبیؐ میں پہنچا ہوں

گناہگار ہوں اور لغزشوں پہ نادم ہوں
غمِ رضائے نبیؐ سے فگار رہتا ہوں

ہے آرزو کہ بٹھا لیں وہؐ اپنے قدموں میں
یہ التجا سرِ مژگاں سجائے رکھتا ہوں

حواس پاش بھنور میں ہے قوم کی ناؤ
یہ درد روح میں ہر دم بسائے رکھتا ہوں

ہر ایک پھول پہ لکھی ہو فصلِ گل کی بقا
حریمِ شب میں دعا کا دیا جلاتا ہوں

عزیزؔ لکھتی ہے خوشبو چمن میں حرفِ نجات
گلوں کا جب ہو چراغاں تو نعت کہتا ہوں

*

میں اشک بن کے شبِ التجا میں رہتا ہوں
گناہگار ہوں خوفِ خدا میں رہتا ہوں
مجھے سکوں ہے میسر مگر شفاعت کا
میں حرفِ مدحتِ خیرالوریٰ میں رہتا ہوں

*

کیف بخشا ہے مجھے جذبِ دروں بخشا ہے
نعتِ سرکارؐ نے جنت کا سکوں بخشا ہے
ساتھ بخشا مجھے پیرایۂ تسکینِ قلم
خوفِ محشر میں ستایش کا جنوں بخشا ہے

*