کوئی بھی آس پاس سے شکوہ نہیں مجھے- کلیات نعت
کوئی بھی آس پاس سے شکوہ نہیں مجھے
عقبیٰ نے اِس جہان کا چھوڑا نہیں مجھے
کارِ جہان مجھ سے نبھایا نہ جا سکا
یہ زندگی کہ فن تھا، وہ آیا نہیں مجھے
میں لغزشوں کا ایک پلندہ ہوں یا نبیؐ
پر آپؐ سے تو کوئی بھی پیارا نہیں مجھے
پیتا ہوں شہد اُنؐ پہ درود و سلام کا
اس کے سوا تو کوئی مداوا نہیں مجھے
مجھ پر ہوائے طیبہ ہوئی یوں بھی مہرباں
برگِ خزاں تھا اور اڑایا نہیں مجھے
عفو و کرم کی بھیک ہے آنکھوں میں تیرتی
توبہ برس رہی ہے یہ، گریہ نہیں مجھے
کر دیجئے عطا مجھے دارِ بقاء کا کام
آقاؐ یہاں تو اب بہت رہنا نہیں مجھے
ق
یوں ہی پڑا رہوں قدَمَینِ حضورؐ میں
جُز آپؐ کی رضا کے، تمنّا نہیں مجھے
رکھ لیجے اپنے پاس ہی آقاؐ غلام کو
دنیا میں کچھ بھی اور تو کرنا نہیں مجھے
چٹکی ہے شاخِ لب پہ مدینے کی التجا
مہکی دعا تو غم نے ستایا نہیں مجھے
ق
زادِ سفر کی، سیرت و قرآں کی التجا
اِس کے سوا خیال بھی آتا نہیں مجھے
دنیا سے ساتھ جائے مرے، چشمِ التفات
ورنہ لقائے حق کا سلیقہ نہیں مجھے
ہاتھوں میں آج ساغرِ کیف و حضور ہے
اب جھومنے لگوں تو سنبھلنا نہیں مجھے
ویراں ہے گرچہ راہ، نہیں ہمسفر کوئی
منزل ہے سامنے تو بھٹکنا نہیں مجھے
دنیا سے انتقال ہو محشر میں یوں عزیزؔ
جینا ہے اُنؐ کے نام پہ، مرنا نہیں مجھے
o
*