آج بھی یارب برستی یاد کی برکھا رہے- کلیات نعت
آج بھی یارب برستی یاد کی برکھا رہے
آج بھی آنکھوں میں بھیگا گنبدِ خضریٰ رہے
آج بھی اُنؐ کی رضا کا غم مجھے کر دے نڈھال
آج بھی دل میں ندامت کا بھنور پڑتا رہے
آج بھی جھونکا کرم کا بن کے آ جائے طبیب
آج بھی طوفاں بداماں درد کا دریا رہے
آج بھی دل کی رگیں کاٹے فشارِ آرزو
آج بھی من میں پریشاں خون کا دھارا رہے
آج بھی ٹوٹیں وفورِ ہجر میں آنکھوںکے بند
آج بھی عشقِ نبیؐ دل کو لہو کرتا رہے
آج بھی توبہ کی شبنم سے رہیں صبحیں خنک
آج بھی دل کی کسک میں وادیٔ بطحا رہے
آج بھی آئے کسی بھی پل نہ توبہ کو قرار
آج بھی آنگن میں لطفِ مصطفیٰؐ ٹھہرا رہے
آج بھی ہو زر فشاں ہونٹوں پہ مدحت کا گلاب
آج بھی لہجے کی خوشبو سے دہن مہکا رہے
آج بھی پُر نم رہے در پر حضوری میں قلم
آج بھی دل پر یہ منظر دید کا لکھتا رہے
آج بھی صِدقِ تمنّا میں تپے میرا وجود
آج بھی سینے میں موسم آس کا ٹھنڈا رہے
آج بھی موجِ قلم لے جائے بابِ وصل تک
آج بھی بابِ کرم عجزِ دعا پر وا رہے
آج بھی ہر شاخ پر جاگے ستایش کی بہار
آج بھی آفاق میں فصلِ ثنا برپا رہے
آج بھی پتوں، ہواؤں کی زباں پر ہو درود
آج بھی ہر پھول میں شہدِ سلام اترا رہے
آج بھی ہر بوئے گُل پڑھتی رہے نعتِ رسولؐ
آج بھی گلشن پہ مدحت کا سماں چھایا رہے
آج بھی مدحت کی جوئے شیر ہو محوِ خرام
آج بھی اس سبز جنت میں جنوں بہتا رہے
آج بھی افلاک میں برپا ہو جشنِ مصطفیٰؐ
آج بھی روئے زمیں پر آپؐ کا چرچا رہے
آج بھی ہر لشکرِ بوجہل پر ٹوٹے غضب
آج بھی امن و محبت کا عَلَم اونچا رہے
آج بھی امت پہ ہو صبحِ سکینت کا نزول
آج بھی جوبن پہ دریائے سخا بہتا رہے
آج بھی ٹکرائے ایقاں کی سپر سے ہر گماں
آج بھی باطل شکن ایمان کا دھاوا رہے
آج بھی شیطان کی لشکر کشی ہو نامراد
آج بھی حُبِّ نبیؐ کے خوف سے پسپا رہے
آج بھی غرقِ ملامت، کُشتۂ غم ہے عزیزؔ
آج بھی سرکارؐ کے در پر پڑا روتا رہے
o
*