سر مژگاں رہی خطا اب تک- کلیات نعت
سر مژگاں رہی خطا اب تک
گھاؤ دل کا نہ بھر سکا اب تک
شبِ تیرہ میں دے رہا ہے لَو
اک چراغِ غمِ رضا اب تک
دردِ توبہ ہے، اُنؐ کی چوکھٹ ہے
جانا جاتا ہوں اِس طرح اب تک
چشمِ نمناک ہے عجب دریا
فیض جاری ہے آپؐ کا اب تک
٭
(ریاض حسین چودھری کے لئے)
محوِ مدحت، فنائے نعت ریاضؔ
سن رہا تھا انہیں خدا اب تک
ان کے رزقِ ثنا کی افرازی
سرخوشی کی ہے انتہا اب تک
اُن کا محوِ سخن رہا برسوں
اُن سے ہے میرا واسطہ اب تک
اُن کو منصب ملا ستایش کا
ڈھونڈتی ہے انہیں صبا اب تک
شاعرِ مصطفیٰؐ کی شان، کہ ہے
دَور میں ساغرِ ثنا اب تک
ایک ان کے بلاغ کی خاطر
مجھ کو اذن سخن نہ تھا اب تک
٭
لفظ شاخوں پہ پھر مہکنے لگے
جن کی تھی منتظر ہوا اب تک
نعت سے عشق میرا مسلک ہے
دل میں محفل ہے اک بپا اب تک
خاکِ شہرِ نبیؐ کا لمسِ نور
جسم و جاں میں ہے سب بسا اب تک
ہے مدینے کے چاند تاروں سے
دل کا آنگن سجا سجا اب تک
اُن کی قُربت بھی گنبدِ خضرا
بُعد بھی ہے ہرا بھرا اب تک
اُن کی ناموس پر عزیزؔ فدا
مجھ پہ سایہ ہے نور کا اب تک
o