ریاض کی نعتیہ کتب پر اساتذۂ فن کی آراء- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن
زرِ معتبر (احمد ندیم قاسمی)
گذشتہ ربع صدی میں ہمارے ہاں نعت نگاری نے بہت فروغ پایا ہے۔ جن شعراء نے اس صنف سخن میں ہمیشہ زندہ رہنے والے اضافے کیے ہیں ان میں ریاض حسین چودھری کا نام بوجوہ روشن ہے۔ اس دور کے سب سے بڑے نعت نگار حفیظ تائب، نیز ایک اور اہم نعت نگار حافظ لدھیانوی کی طرح ریاض حسین چودھری نے بھی آغاز غزل سے کیا مگر اس کے بعد جب نعت نگاری شروع کی تو غزل کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا مگر یہ اپنی اپنی صوابد ید کا معاملہ ہے۔
ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری پڑھتے ہوئے میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ جب نعت کا آغاز کرتے ہیں تو ان پر وارفتگی اور سپردگی کی ایسی کیفیت چھاجاتی ہے جسے وہ ہر ممکن حد تک جاری رکھنا چاہتے ہیں اور نعت یا نعتیہ نظم یا نعتیہ قصیدے کو انجام تک پہنچانے کو ان کا جی نہیں چاہتا۔ یہ کیفیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کیساتھ انتہائی محبت اور انتہائی عقیدت کی غماز ہے اور اس حقیقت پر شاید ہی کسی کو شبہ ہو کہ ریاض چودھری اس دور کا ایک بھر پور نعت نگار ہے۔ بھر پور کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے، اس نعت نگار کے کلام میں محبت کی سر شاری بھی ہے، لفظ اور لہجے کی موسیقی بھی ہے اور پھر وہ حد ادب بھی ہے جو نعت نگاری کی اولین اور بنیادی شرط ہے۔
’’زر معتبر ‘‘ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری کے اس دور سے تعلق رکھتا ہے جو اس کی 1985ء تک کی تخلیقات پر محیط ہے بعدکے دس برس کی نعتوں کا مجموعہ الگ سے شائع ہو گا۔ زرِ معتبر کا مطالعہ نعتیہ شاعری کی دلآویزیوں کے علاوہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں شاعر کی ابتدائی کاوشوں سے لے کر اس زمانے تک کی نعتیں شامل ہیں جب اس کا فن عروج کی اس بلندی کی طرف رواں تھا جو اس نے کمال استقامت سے آخر کار پالی۔ میں اس کے فن کی مزید ترقی کیلئے دعا کرتا ہوں۔
رزقِ ثنا (حفیظ تائب)
جدید اردو نعت کا کوئی مختصر سے مختصر تذکرہ بھی ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری کا بھرپور حوالہ دئیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ اُن کا شمار عہدِ جدید کے صفِ اول کے نعت نگاروں میں ہوتا ہے۔ ریاض نے نہ صرف جدید نعت میں افکارِ تازہ کی نمود کے کئی مقفل دروازوں کو کھولنے کا اعزاز حاصل کیا ہے بلکہ مضامینِ نعت کو شعورِ عصر کے ساتھ ہم آہنگ کر کے ایک ایسا اجتہادی کارنامہ بھی سر انجام دیا ہے جو لمحہ موجود ہی میں نہیں دورِ آئندہ میں بھی تشکیک و ابہام کی گرد آلود فضا میں مینارہ نور ثابت ہو گا۔ 1995 میں زرِ معتبر کی پیشوائی کے وقت میں نے لکھا تھا کہ زرِ معتبر جدید نعت کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ رزقِ ثنا میں شامل نعتیہ کلام کا تنوع جو ہیئت تک ہی محدود نہیں بلکہ شاعر کی سوچ کے ہر زاویے پر بھی محیط نظر آتا ہے، میرے اس دعوے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ رزقِ ثنا کے ورق ورق پر اکیسویں صدی کی نعت کے خد و خال واضح ہوتے دکھائی سے رہے ہیں۔ ان خدوخال کے پیچھے روایت کا تسلسل بھی اپنی تمام تر تخلیقی توانائیوں کے ساتھ کار فرما ہے۔
جدید حسیت کے حوالے سے ریاض حسین چودھری کی نعت کے تہذیبی پس منظر کا ابلاغ اپنے ہم عصروں میں انہیں منفرد اور نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔ ان کی آواز آوازوں کے اس جنگل میں صاف پہچانی جا سکتی ہے۔ شاعر تخلیقی لمحے کے تعاقب میں رہتا ہے۔ جب یہ لمحہ گرفت میں آتا ہے تو کشتِ لوح و قلم میں بادِ بہاری چلنے لگتی ہے اور ریاض کی نعت میں اس بادِ بہاری کی نشان دہی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
1857 کی جنگِ آزادی کے بعد بے پناہ ریاستی جبر کے ردِ عمل کے طور پر اسلامیانِ ہند میں جو عصری اور ملی شعور پیدا ہوا تھا اس عصری اور ملی شعور کی تہہ در تہہ کئی پرتیں پیرایہ نعت میں بھی کھلنے لگی تھیں۔ جدید اردو تاریخ کے اسی آشوب کے مختلف پہلو سامنے لاتی ہے۔ اس پر آشوب فضا میں ریاض کے مزاحمتی رویے کا اظہار بڑے بھرپور انداز میں ہوا ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ اظہار جمالیاتی قدروں کی پائمالی کا باعث نہیں بنا۔ ریاض کی نعت کو جدید تر اسلوب کا ایک معتبر اور مستند حوالہ قرار دیتے وقت ان کا یہی احساس ِ جمال جو تغزل کی آبرو ہے میرے پیشِ نظر ہے۔
ریاض حسین چودھری کی اقلیمِ نعت تاجدارِ کائنات کی غلامی کے گہرے پانیوں میںڈوبی ہوئی ہے۔ سرشاری اور سپردگی کا کیفِ دوام اول سے آخر تک ان کی شعری فضا میں برقرار رہتا ہے۔ غلامی کا عمامہ باندھے وہ اپنے حضور کی بارگاہِ بیکس پناہ میں انفرادی اور اجتماعی تمام مسائل اور مصائب کو پیش کر کیدربارِ مصطفوی سے ہدایت کی روشنی کے منتظر رہتے ہیں۔ درِ حضور کو امید کا آخری مرکز قرار دے کر وہ پوری کائنات کے لئے حضور کے نعلینِ اقدس کو سائبانِ کرم سے تعبیر کرتے ہیں۔ طاقِ جاں کے ہر گوشے میں مدحتِ رسول کے چراغ جلانے کی سعی کرتے ہیں۔ ریاض کی نعت دراصل تحریکِ عشقِ مصطفیٰ کے نئے کاروان کا وہ پرچم ہے جو حلیفانِ حق کو ولولہ تازہ عطا کرتا ہے اور جسے دیکھ کر حریفانِ حق پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ محاذِ نعت پر متانت، سنجیدگی اور شائستگی کے مؤثر ہتھیاروں سیدادِ شجاعت دینا یقیناً ایک غیر معمولی بات ہے اور ریاض حسین چودھری کی نعت اس غیر معمولی مرحلے کو پورے اعتماد سے طے کر کے فتوحات پہ فتوحات حاصل کر رہی ہے۔
ڈاکٹر خورشید رضوی
جن معاصرشعرا نے خاص نعت کے حوالے سے شناخت پیدا کی ان میں جناب ریاض حسین چودھری کا نام ایک معتبر حیثیت رکھتا ہے۔ ذوقِ نعت اُن کے خمیر میں رچا ہوا ہے۔ چنانچہ خود انہی کے الفاظ میں مجھے نہیں خبر کہ کب منصبِ نعت گوئی کا زائچہ ہاتھ پر رقم ہوا۔ 1985 میں ریاض حسین چودھری آستانہ رسالت پر حاضری سے سرفراز ہوئیاور دس برس بعد 1995 میں جب اُن کا اولین مجموعہ نعت زرِ معتبر شائع ہوا تو انہوں نے اس کی حد بندی اسی شرفِ حاضری تک کے زمانے سے کی اور وہی نعتیں اس میں شامل کیں جو قریب قریب سبھی مواجہ شریف میں پیش کئے جانے کے شرف سے مشرف ہو چکی تھیں۔ حاضری کے بعد سے اب تک، انیس برس کے عرصے میں جو کچھ انہوں نے کہا اس کا ایک انتخاب دوسرے مجموعے رزقِ ثنا کی زینت ہے۔
ریاض حسین چودھری کی نعت بنیادی طور پر اس والہانہ جذبے سے عبارت ہے جو ان کے لئے زادِ سفر اور وسیلہ بخشش کی حیثیت رکھتا ہے اور انہیں حسّان و کعب و جامی و بوصیری و رضا کے قبیلے سے مربوط کرتا ہے تاہم اس جذبے میں عصری مسائل کے شعور اور آشوبِ ملت کے احساس کا وہ مؤثر امتزاج بھی شامل ہے جو انہیں آج کے ایوانِ نعت میں نمائندہ حیثیت عطا کرتا ہے۔
رزقِ ثنا کا خیر مقدم میرے قلم کے لئے باعثِ عزت ہے۔
خلدِ سخن (ڈاکٹر محمد طاہرالقادری)
حضور نبی اکرم ﷺ کے شمائل، فضائل، خصائل اور خصائص کے جمالیاتی ظہور کا نام نعت ہے۔ نعت کا اساسی رویہ درود و سلام کے حکم سے ترتیب پاتا ہے نعت امن و عافیت اور محبت کی پیام بر ہے اور امن ومحبت ہی ہر عہد کی بنیادی ضرورت ہے۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی بھی نعت کی خوشبو سے مہک رہی ہے اردو زبان و ادب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ عربی کے بعد دوسری زبان سے زیادہ تخلیقِ نعت کا کام اردو میںہو رہا ہے۔ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں دھنک کے تمام رنگوں سے ایوان نعت میں عقیدتوں، محبتوں اور آرزؤں کے نقش و نگار بنانے کی بھرپور سعی کی ہے ان میں ریاض حسین چوددھری کا نا بھی کئی حوالوں سے نمایا اور معتبر ہے۔
ریاض حسین چودھری تحریک منہاج القرآن کا تخلیقی اثاثہ ہیں، زرمعتبر، رزق ثنا، ثنائے حضوری، (بیسویں صدی کی آخری طویل نعتیہ نظم)، فناع قلم، کشکول آرزو، اور اسلام علیک، کے بعد خلد سخن، اکیسویں صدی کے نعتیہ ادب کا نصاب عشق ہے جو نعت میں جدید تر تخلیقی رویوں کی نشاندہی ہی نہیں کرتا بلکہ مضامین نو کا ایک قابل قدر ذخیرہ بھی فراہم کرتا ہے، خلد سخن، میں وضاحت اور مسائل کی آگ میں جلتے ہوئے انسان کا المیہ بھی بیان ہوا ہے۔ امتِ مسلمہ جس زبوں حالی کا شکار ہے اس کا پیش منظر بھی اپنی تمام تر سنگینی کے ساتھ موجود ہے۔ ریاض نے اس شعور کو اجاگر کیا ہے کہ مکینِ گنبدِ خضرا سے از سر نو رشتہ غلامی کو استوار کئے بغیر عظمتِ رفتہ کی بازیابی کا تصور ممکن نہیں ریاض حسین تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ (لاہور) میں تقریباً 13 سال تک مختلف عہدوں پر خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں آپ دس سال تک پندرہ روزہ، تحریک، کے چیف ایڈیٹر رہے فرید الدین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ صدر شعبہ ادبیات کی حیثیت میں کر کرتے رہے، سیرت الرسول، کی بعض جلدوں کی ترتیب و تزوین کے کام میں بھی شریک رہے میری دعا ہے کہ ریاض سر پر غلامی کا عمامہ باندھے مواجیہ اقدس میں محوِ التجا رہیں اور مرحئہ شوق کبھی طے نہ ہو۔
ابو الامتیاز، ع، س، مسلم
ریاض حسین چودھری اللہ کے محبوب، رسول اکرم ﷺ کی محل کے وہ طوطیء خوش مقال ہیں جن کی روایت حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے ہوتی اور علامہ محمد بن سعید بوصیریؒ کو ردائے رحمت للعالمین سے ڈھانپتی ہوئی، گزرتی صدیوں اور لمحوں کے ساتھ اکناف عالم میں عاشقان محمد ﷺ کے دلوں کی دھڑکنوں میں جاگزیں ہوتی جاتی ہے۔
شاید فاصلوں کی دوری سبب، ریاض حسین چودھری سے میری کبھی شنا سائی نہیں رہی، لیکن جب کبھی کسی اخبار یا جریدے میں اُن کی نعمت نظر سے گزری تو میرے قلب میں تازگی اور بیداری کا ایک نیا احساس پیدا ہوا، گویا فکر و نظر کے کچھ اور باب کھل گئے ہوں۔ بلکہ مجھے یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ بعض اوقات رشک آتا کہ کاش مجھے بھی وہ فراوانی، شوق، خود سپردگی کی وہ کیفیت، وہ ذخیرہ الفاظ اور ندرت بیان میسر ہو جن سے میں حضور پاک میں اپنی عرض نعت کو آراستہ کرسکوں۔
چنانچہ مجھے خوشی ہے کہ کچھ عرصہ قبل بعض احباب کی وساطت سے اُن کا پتا معلوم کرکے رابطے کی نوبت آئی، انہوں نے بکمال عنایت اپنے دو مجموعے عنایت فرمائے تو اطمینان ہوا کہ میری جستجو رائیگاں نہیں گئی۔
ریاض حسین صاحب کا ساتواں نعتیہ مجموعہ ’’خلد سخن‘‘ زیر ترتیب ہے اور مجھے اجنبی سے یہ فرمائش ہے کہ میں اس کے فلیپ کے لئے چند سطور تحریر کروں۔ میں حیران ہوں کہ ایسے دیوانہ رسول ﷺ اور قادر لفظ وبیاں کو میں چند سطروں میں کس طرح سمودوں۔
سرسری مطالعے سے اُن کے بارے میں تاثر اور مضبوط ہو جاتا ہے کہ آپ ﷺ کی محبت ہی ریاض کی فکر و نگاہ کا محور ہے۔ وہ اس میں ہمہ دم غرقاب ہیں۔ آپ ﷺ کی محبت ہی ریاض کی فکر و نگاہ کا محور ہے۔ وہ اس میں ہمہ دم غرقاب ہیں۔ آپ ﷺ ہی اُن کی محبت کی ابتدا اور آپ ﷺ ہی انتہا ہیں اور یہ خاص فضل خداوندی کے بغیر ممکن نہیں۔
اُن کے نعتیہ مجموعوں میں شاید ہی کوئی شعر ہوگا جس میں اُس والہانہ وابستگی بلکہ خود سپردگی کا اظہار نہ ہوگا جو آپ ﷺ کی قرب اور نگاہ کرم کی ضامن ہے۔ باب زندگی کی ہو ا زمانے کی، آشوب ذات کی یا موسموں کی۔ ۔ ۔ مرکز نگاہ اور مرکز محبت صرف رسول کریم کی ذات پاک ہے کہ وہ ﷺ ہمہ دم قریہ جاں میں بستے ہیں، بلکہ وہی ﷺ جان ہیں، ’’رزق ثنا‘‘ میں کہتے ہیں:
ارض و سما میں ایک بھی اُن کی نہیں مثال
دیکھیں کسی بھی زاویے سے، انتخاب وہ
ریاض حسین چودھری کی نعتیں آبشار نور کی طرح فکر و نظر کو منور، قلب و روح کو سیراب اور صریر کو نغمگی عطا کرتی ہوئی ایمان و یقین کو وہ تازگی بخشی جاتی ہیں جوحیات نو کی نوید ہے۔ وہ جب نعت لکھتے ہیں تو گویا کنول کے پھول کی طرح ہوتے ہیں، جو سطح آب پر بہار عقیدت و محبت کا پیامبر ہے، لیکن اس کی روح عشق رسول ﷺ کی جھیل کی گہرانیوں سے نمو کشید کر رہی ہے۔
نقش قدوم سید لولاک کا ہے عکس
تصویر کائنات کے حسن و جمال میں
یہ اُس کیفیت وارفنگی وخود سپردگی سے ظاہر ہے جو نعمت کے لفظ لفظ اور حرف سے خوشبو کی طرح اُٹھ کر قاری کے مشام جاں میں حلول کر جاتی ہے۔ وہ اپنی ذات ہی کے لئء رحمت و بخشائش اور خیر و برکت کے طلبگار نہیں بلکہ انہیں پوری ملت اسلامیہ اور ارض وطن کا درد بھی بیتاب رکھتا ہے اور یہ پورے اعتماد سے اُن فریادوں اور التجاؤں میں جھلکتا ہے، جن میں وہ آپ ﷺ کی رحمت کے سوالی ہیں۔ تحریک پاکستان کے نعرہ ’’پاکستان کا مطلب کیا۔ لا اللہ الا اللہ، اور نظریہ تحریک کے سیاق و سباق میں ’’رزق ثنائ‘‘، میں دست بستہ عرض گزار ہیں:
حصارِ طائف عصر جدیدہ کے مسلمانو!
سبق اُن کے عمل سے استقامت کا لیا جائے
ان چند سطور میں ریاض چودھری کی نعت سے انصاف کرنا ممکن نہیں، اور یہ سطور صرف، فلیپ کی حد سے بھی کچھ بڑھ گئی ہیں، لیکن لزیز بود حکایت دراز تر گفتم۔ میں اُن کے اس ساتویں مجموعۂ نعت، خلد سخن، کی اشاعت پر دعا گو ہوں کہ اللہ اور رسول ﷺ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت پائے اور اُن کے ساتھ میر بخشش کا وسیلہ بھی بنے۔
سلامٌ علیک (ڈاکٹر ریاض مجید)
یہ بات پہلے بھی کئی بار دہرائی گئی ہے کہ بیسویں صدی کے آخری ربع میں اردو نعتمقدار اور معیار دونوں حوالوں سے فن کی ایسی ارفع و اعلیٰ جہات سے آشنا ہوئی جو اپنی مثال آپ ہیں۔ نعت کی اس فنی ترقی میںوہ صنفِ سخن جو زیادہ تر زیرِ استعمال رہی وہ غزل ہی کی تھی۔ یوں اردو اصنافِ سخن میں فن کے طور پر غزل اور موضوع کے طور پر نعت اس ربع صدی کو ایسا میدان عطا کرتی ہیں جس نے آتی صدی کے سخن وروں کے لئے اظہار کا راستہ واضح کر دیا۔
اس دور کو جسے حفیظ تائب ’’بہارِ نعت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور حافظ لدھیانوی ’’نعت کا زمانہ کہتے ہیں بنانے میں جن شعرا نے نمایاں طور پر حصہ لیا ان میں ایک نام ریاض حسین چودھری کا ہے۔ اس عہد کے اکابرینِ نعت میں جاں سپاری، فدویت اور فریفتگی کے جذبات سے سرشار ان کے نعتیہ کلام نے نہ صرف ان کو معروف کیا بلکہ اردو نعت کوبھی ایک دلآویز رخ اور اعتبار بخشا۔
صنفِ نعت سے ان کی غیر متزلزل وابستگی قریب قریب ربع صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ زیرِ نظر مجموعے سے پہلے اُن کے کئی نعتیہ مجموعے قارئین سے داد ِ سخن وصول کر چکے ہیںجن میں’’زرِ معتبر‘‘ ’’رزقِ ثنا‘‘ ’’تمنائے حضوری‘‘ ’’متاعِ قلم‘‘ اور’’ کشکولِ آرزو‘‘ شامل ہیں۔
سلامٌ علیک ان کی نعتیہ کتابوں ہی میں نہیں معاصر نعتیہ شاعری میں ایک قابلِ اعتبار اور بابرکت اضافہ ہے۔
’’بحیثیت مجموعی ریاض حسین چودھری کی نعت حضور نبی اکرم ﷺ سے اپنی ارادت مندی کے سبب ایک خاص تاثیر کی حامل ہے۔ اس تاثیر کا سبب ان کی وہ تخلیقی صلاحیتیں ہیں جو انہوں نے نعت گوئی کے لئے وقف کر رکھی ہیں۔ ان کی نعت گوئی کا رجحان اور اسلوب رسمی عقیدت نگاری کی بجائے خالص شعری اور تخلیقی انداز کا حامل ہے اس کی وجہ فن شاعری سے ان کی دیرینہ اور مستحکم وابستگی ہے، جذبات کا بہاؤ اور روانی ان کی نعت گوئی کا خاص وصف ہے جس کی وجہ سے ان کے کلام میں اخلاص اور تاثیر کے اوصاف نمایاں ہیں۔ ‘‘
مظفر وارثی
نعت گوئی رسول اللہ ﷺ سے عشق کا دوسرا نام ہے۔ ایک عاشقِ حضور ﷺ جن کی نعت کے کئی مجموعے آ چکے ہیں اب ایک طویل نعتیہ نظم کتابی شکل میں پیش کر رہے ہیں۔ باب طویل کرنے میں کوئی خامی نہیں اگر طوالت اکتا دینے والی کیفیت کی مظہر نہ ہوجس کا شائبہ بھی ریاض حسین چودھری کی کاوش میں نہیں ملتا۔
آدمی اند رسے خوبصورت ہو تو آئینہ بھی گواہی دینے لگتا ہے۔ میں حسبِ دستور نظم کے کچھ اشعار دے کر پوری نظم کے تأثر میں خلل اندازی نہیں چاہتا لہٰذا نظم آپ کتاب میں پڑھیے اور تائید میری کیجیے۔ ریاض حسین چودھری واقعی دل کھول کر داد دینے کے لائق ہیں۔
کشکولِ آرزو (ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی)
مجھے تو ریاض حسین چودھری کا پورا وجود مصروفِ نعت گوئی نظر آتا ہے۔ اُن کا تخیل اور مشاہدہ ہر جلوۂ رنگ و نور میں نبی اکرم ﷺ کے خدوخال کو تلاش کرتا ہے۔ ان کے ہاں الفاظ اور ترکیبیں (پازیبِ زر، ارضِ شعور، ذرۂ ارضِ بدن) رقص کرتی اور دف بجاتی نظر آتی ہیں۔ ان کا شعورِ نغمہ ایک غیر اَرضی اِستعارہ بن گیا ہے۔
ریاض حسین چودھری عہدِ حاضر کے منظر نامے اور خرابے میں اپنی ملت کا اِستغاثہ کس آبلہ صفتی کے ساتھ حضورِ سرورِ کون و مکاں ﷺ پیش کر رہے ہیں۔ اقبال نے تو طرابلس کے شہیدوں کا لہو اپنے جام فن میں اپنے آقا ﷺ کے حضور پیش کیا تھا، اور ریاض حسین چودھری تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم۔ چنار کی آگ، لہو لہو ارضِ اقصیٰ، سربرہنہ اُمت کی بیٹیاں، پیکرِ ایشیا کے قلب… افغانستان کے شعلے… ریاض کی نعت سرورِ دل و جاں ﷺ کے نقوش کی تابانیوں کے ساتھ ان تمام حقائق کا آئینہ خانہ بھی ہے۔ اُس کی نعت حدیثِ دل بھی ہے، مرثیۂ ملت بھی اور مجاہد کی یلغار بھی، وہ بڑے اعتماد کے ساتھ دھیمے لہجہ میں سرکار ﷺ سے کہتا ہے:
حضور! جبرِ مسلسل کے باجود اب تک
گرا نہیں ہے غلاموں کے ہاتھ سے پرچم
اور اِن شاء اللہ! ربِ محمد ﷺ اکیسویں صدی عیسوی کو اسلام کی صدی بنا دے گا اور آنے والی صدیوں کو بھی سبز رنگ عطا کرے گا… اور اس میں دوسرے عناصر کے ساتھ ریاض حسین چودھری کی آواز کا بھی دخل ہو گا۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری
’’زرِ معتبر‘‘، ’’رزقِ ثناء‘‘ (صدارتی و صوبائی ایوارڈ یافتہ)، ’’تمنائے حضوری‘‘ اور ’’متاعِ قلم‘‘ کے بعد ’’کشکولِ آرزو‘‘ ریاض حسین چودھری کا پانچواں نعتیہ مجموعہ ہے۔ نعت گوئی کے حوالے سے میں نے ریاض حسین چودھری کے دل نشیں اسلوب سے گہرا اثر لیا ہے اور اس اثر کے تحت وجدانی طور پر جو کلماتِ نقد سامنے آگئے ہیں انہیں سپردِ قلم کر رہا ہوں۔
ریاض حسین چودھری کو شرفِ نعت گوئی منجانب اللہ ملا ہے، یہ عطیۂ خداوندی اور توفیق الٰہی ہے، کسب و ریاضت سے کیا کچھ حاصل نہیں ہوسکتا، مگر شرفِ نعت گوئی نہیں، یہ صرف اور صرف حضور اکرم ﷺ سے والہانہ اور مجذوبانہ عشق کرنے والوں کو ملتا ہے۔ یہ انہیں وافر مقدار میں میسر ہے اور اس دولت بیدار پر ریاض حسین چودھری جس قدر ناز کریں کم ہے۔ وجدان و عشق کی کار کشائی …شعر گوئی… خصوصاً نعت گوئی کے باب میں مسلم ہے اور ریاض کے ہاں نعت گوئی کا یہی وصفِ جمیل دامنِ دل کو کھینچتا ہے۔
ریاض کے موضوع، خیال اور اسلوب سب کے سب دلکش و روح پروَر ہیں، خاص کر ان کی نعتیہ منظومات قلب و روح کے ساتھ ذہن کو بھی خوشگوار حیرت سے ہمکنار کرتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے انہیں موضوع نعت کو سماجی و سیاسی اور تاریخی و تمدنی حالات سے منسلک کر کے قومی و بین الاقوامی تناظر میں دیکھنے اور دکھانے کا غیر معمولی ملکہ عطا فرمایا ہے۔ اس نعمتِ وہبی پر میں شاعرِ ’’کشکولِ آرزو‘‘ کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ‘‘
’’ریاض حسین چودھری بھی کئی دوسرے شاعروں کی طرح غزل سے نعت کی دنیا میں آئے۔ میں نے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح ضوفشاں دیکھی ہے کہ غزل سے نعت کی طرف آنے والے کا رنگ ہی جدا ہوتا ہے۔ لوگوں نے انہیں الگ تھلگ خانوں میں بانٹ رکھا ہے حالانکہ غزل تو پیرایۂ سخن ہے جس میں دیگر مضامینِ رنگ و بو کی طرح نعت کی لامحدود وسعتیں بھی سمٹ آتی ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ غزل جب باوضو ہوجاتی ہے تو جان نعت کہلاتی ہے۔ مترنم بحریں، حسنِ گویائی بخشتے ہوئے مصرعے، رعنائی تغزل لٹاتے ہوئے اشعار، حسیں تر قوافی، طویل اور مختصر بحروں کا انتخاب کہیں ایجاز و اختصار کہیں بلاغت کی جہاں افروزیاں، مضمون آفرینی کی رفعتیں، سمندر کو کوزے میں سمیٹتے ہوئے مضامین، ندرتِ خیال، جدتِ زبان و بیان، غرض انہوں نے ثابت کردیا ہے کہ ان کی غزل گوئی نے گلستانِ نعت کی نکہتوں کا لبادہ اوڑھ کر دامانِ توصیفِ رسول ﷺ کو زر نگار بنانے کے لیے اپنے شب و روز کی تمام تجلیات فکر نذر کردی ہیں۔ ‘‘
غزل کاسہ بکف (حفیظ تائب)
’’ریاض حسین چودھری بھی کئی دوسرے شاعروں کی طرح غزل سے نعت کی دنیا میں آئے۔ میں نے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح ضوفشاں دیکھی ہے کہ غزل سے نعت کی طرف آنے والے کا رنگ ہی جدا ہوتا ہے۔ لوگوں نے انہیں الگ تھلگ خانوں میں بانٹ رکھا ہے حالانکہ غزل تو پیرایۂ سخن ہے جس میں دیگر مضامینِ رنگ و بو کی طرح نعت کی لامحدود وسعتیں بھی سمٹ آتی ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ غزل جب باوضو ہوجاتی ہے تو جان نعت کہلاتی ہے۔ مترنم بحریں، حسنِ گویائی بخشتے ہوئے مصرعے، رعنائی تغزل لٹاتے ہوئے اشعار، حسیں تر قوافی، طویل اور مختصر بحروں کا انتخاب کہیں ایجاز و اختصار کہیں بلاغت کی جہاں افروزیاں، مضمون آفرینی کی رفعتیں، سمندر کو کوزے میں سمیٹتے ہوئے مضامین، ندرتِ خیال، جدتِ زبان و بیان، غرض انہوں نے ثابت کردیا ہے کہ ان کی غزل گوئی نے گلستانِ نعت کی نکہتوں کا لبادہ اوڑھ کر دامانِ توصیفِ رسول ﷺ کو زر نگار بنانے کے لیے اپنے شب و روز کی تمام تجلیات فکر نذر کردی ہیں۔ ‘‘
متاعِ قلم (ڈاکٹر سلیم اختر)
’’ پاکستان میں نعتیہ شاعری کے فروغ میں جو سیاسی، عمرانی اور اقتصادی عوامل کار فرما ہیں ان کا تجزیاتی مطالعہ دلچسپ نتائج کا حامل ہو سکتا ہے لیکن میں اتنے گہرے پانیوں میں نہیں جاؤں گا۔ تاہم اس امر سے صرفِ نظر بھی ممکن نہیں کہ قیام پاکستان سے قبل صرف گنتی کے چند ہی ایسے معروف شعرا نظر آتے ہیں جنہوں نے مولانا ظفر علی خان یا علامہ اقبال کی مانند عشقِ رسولؐ کا تخلیقی سطح پر اظہار کیا ہو جبکہ اب گلشنِ شعر میں ایسی دلکش ہوا چلی ہے کہ ہر قابلِ ذکر شاعر ثنائے رسولؐ کو باعث سعادت جانتا ہے، یہ الگ بات کہ سب کچھ سن کر بھی بعض اوقات نعت ریڈیو اور ٹیل ویژن تک ہی محدود رہتی ہے۔ لیکن ریاض حسین چودھری نام و نمود کے سراب کے لئے سرگرداں نہیں۔ انہوں نے تو نعت گوئی داخلی کیفیات کے زیر اثر اختیار کی ہے۔ اسی لیے وہ مدحتِ رسول ﷺ کو مقصودِ فن اور ثنائے رسولؐ ہی کو قبلۂ فن جانتے ہیں۔ ریاض حسین چودھری دنیا داری کے تقاضوں والے دنیا دار شاعر نہیں ہیں اسی لیے انہوں نے خود کو صرف نعت گوئی کے لیے وقف کر رکھا ہے، وہ نعت کو توشۂ آخرت تسلیم کرتے ہیں جبھی تو ایسا شعر کہہ سکے
ریاض اپنی لحد میں نعت کے روشن دیے رکھنا
چمک اٹھے گی قسمت شامِ رخصت کے دریچوں کی
متعدد نعتیہ مجموعوں کے خالق ریاض حسین چودھری اپنے دوسرے نعتیہ مجموعے ’’رزقِ ثنا‘‘ پر صدارتی ایوارڈ 2000ء اور حکومتِ پنجاب کی طرف سے سیرت ایوارڈ 2000ء بھی حاصل کرچکے ہیں، تازہ مجموعہ ’’متاع قلم‘‘ ان کی نعت گوئی کے سفر میں سنگِ میل قرار پائے گا۔ عشقِ رسول ؐ نے تخلیق کا سبز جامہ پہنا تو ریاض حسین چودھری نے مہکتے الفاظ سے گل کاری کی، اس تمنا کے ساتھ
اے ذوقِ نعت آج بھی اشکوں میں ڈھل ذرا
قندیل بن کے دل کے جھروکوں میں جل ذرا
ریاض کی نعتوں میں عشقِ رسولؐ نے جذباتیت کا اسلوب پیدا نہیں کیا جو بعض اوقات نعت میں غلو پیدا کردیتا ہے اس ضمن میں انہوں نے کیا اچھی بات کی ہے۔
مدحت نگار اوّل و آخر ہے اس کی ذات
مفہوم آیتوں کا بھی اے دیدہ ور سمجھ
طلوعِ فجر (پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی)
نعت ایک توفیق ہے جس کو بھی مل گئی محترم قرار پایا، ہاں یہ ضرور ہوا کہ کسی کو یہ توفیق جزواً حاصل ہوئی کہ وہ دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ نعت کا حق بھی ادا کرتا رہا۔ تو کسی کو اس توفیق نے کلیۃً اپنے دامنِ کرم میںلے لیا اور وہ سراپا مداح رسول ﷺ بن گیا۔ ایسے خوش قسمت شاعر ہر لمحہ نعت کے ذوق سے مسرور رہتے ہیں، اُن کے افکار پر نعت یوں چھا جاتی ہے کہ اُن کے شعور کا ہر گوشہ نعت گزار ہو جاتا ہے۔ کس قدر خوش قسمت ہے وہ انسان جو ہر وقت حسنِ تمام کے حصار میں رہے! ایسے شاعر تقدیس کا نشان اور خرد افروزی کا حوالہ ہوتے ہیں۔ مقامِ مسرت ہے کہ ہمارا ممدوح شاعر جسے لوگ ریاض حسین چودھری کہتے ہیں مگر میں تو اُنہیں ’’نقشِ حسان‘‘ کہنا پسند کرتا ہوں، ہر لمحہ حاضر دربار رہتا ہے۔ ہیت کوئی بھی ہو، بحر کیسی بھی ہو، ردیف و قافیہ کسی قدر مختلف بھی ہو ہمارا شاعر ایک ہی خیال کا اسیر رہتا ہے کہ اُس کے کلمات، تراکیب اور نظمِ شعر کا ہررُخ غلامی کی سند پائے۔ یہ خواہش صرف ذات کی حد تک نہیں ہے، ذات کے ہر حوالے کے بارے میں بھی ہے۔
صد شکر میرا سارا قبیلہ غلام ہے
میری ہے اُنؐ کی سایہ رحمت میں سلطنت
یہ سایۂ رحمت جو سحرِ نور بن کر شاعر کے موجِِ خیال پر محیط ہے، ایک دو برس کی بات نہیں اور نہ ہی یہ شعورِ زندگی کے ساتھ پروان چڑھا ہے بلکہ یہ تو شاعر کے وجود کا جزوِ لازم ہے جو انہیں فکر و خیال کے حصار میں لیے ہوئے ہے۔
تاریخِ کائنات کی روشن تریں سحر
کب سے محیط ہے مری موجِ خیال پر
یہ یقین اس قدر پختہ ہے کہ ہر شعوری کاوش جو اس حقیقت سے مستنیر نہیں ہے حرفِ غلط ہے۔ شاعر کا یہ شعور اس قدر وجد آفریں ہے کہ کسی اور دانش و عقل کا وہاں گزر نہیں۔ اس لیے شاعر پوری شعوری قوتوں کے ساتھ اعلان کرتا ہے۔
ہر فلسفہ غلط ہے جہانِ شعور کا
اک معتبر فقط ہے حوالہ حضورؐ کا
یہی وجہ ہے کہ ریاض حسین چودھری بہر رنگ اپنی غلامی پر نازاں ہے اور اُس نے اپنی زندگی کے ہر رُخ کو وصفِ رسالت کے گداز میں ڈھال لیا ہے۔ اُس کا یقین بھی یہی ہے، اُس کا ارادہ بھی یہی ہے اور اُس کی خواہش بھی یہی ہے کہ زندگی کا کوئی لمحہ مدحت سے خالی نہ ہو۔ ہاں یہ تمنا بھی قوی ہے کہ اُس کی مدحت سرائی قبولیت کا شرف پالے، تمنا اور یقین کا یہ حسین ربط ریاض حسین چودھری کی نعت نگاری کا وہ حسین سنگم ہے جو ایک با وفا مدح نگار کی خواہش کی معراج ہے۔
آقاؐ مرے قلم کی سلامی کریں قبول
لوحِ ادب پہ حرفِ غلامی کریں قبول
زاہد بخاری
ریاض حسین چودھری کا شمار جدید اُردو نعت کے نمائندہ شعرا میں ہوتا ہے۔ نصف صدی کے تخلیقی سفر کے بعد آپ کسی رسمی تعارف کے محتاج نہیں۔ ’’زرِ معتبر‘‘ سے ’’طلوعِ فجر‘‘ تک کا سفر دل نواز مدحت رسولؐ کی خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔ منفرد اسلوب ان کی تخلیقی پہچان کی بنیاد بنا ہے۔ حرف پذیرائی انہی دلکش موسموں کی عطا ہے۔ ہر لمحہ در حضور ﷺ پر عالم وجد میں گزرتا ہے۔ تصور مدینے کی معطر گلیوں میں نقوشِ پاکی تلاش میں رہتا ہے … اور یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
وجہِ تخلیق کائنات ؐ کا دنیا میں ظہورِ خالق کون و مکاں کا اپنی مخلوقات پر احسان عظیم ہے۔ حضور ﷺ کو تمام عالمین کے لیے رحمت بنایا گیا ہے۔ آپ ؐ کی آمد پر عرش و فرش برسات نور میں نہا گئے۔ گلشن ہستی کی ڈالی ڈالی خوشی سے جھوم اٹھی اور موجودات کا ذرہ ذرہ وجد آفریں کیفیت سے سرشار ہوگیا۔ نبی آخر الزماں کے میلاد کی مناسبت سے بہت سے شعرا نے آپ ؐ کی بارگاہِ اقدس میں عقیدت و محبت اور درود و سلام کے نذرانے پیش کیے ہیں جن میں جناب ریاض حسین چودھری کو خاص مقام حاصل ہے۔ انہوں نے میلاد حضور ؐ کے سلسلہ میں اپنی طویل نظم ’’طلوعِ فجر‘‘ کے نام سے قلمبند کر کے بے مثال و لازوال کام کیا ہے جس کا صلہ انہیں بارگاہ رسالت مآب ﷺ سے ضرور ملے گا۔ اس مجموعہ کلام میں دلی جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ ترکیب لفظی، فصاحت و بلاغت اور خیالات کی تازگی نے حسن شعری کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔
’’طلوعِ فجر‘‘ ریاض حسین چودھری کا 9 واں مجموعہ نعت ہے جس کا موضوع 12 ربیع الاوّل کی صحیح سعادت ہے۔ ولادت پاک کے حوالے سے سیرت مطہرہ کی دل آویزیوں کا بیان ہے۔ ریاض نے 500 بنود پر مشتمل اس طویل نظم کے لیے نظم معریٰ کا انتخاب کیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ اکیسویں صدی میں انہوں نے نطم معریٰ کو دوبارہ زندہ کیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ نظم کے ہر بند میں 12 ربیع الاوّل کی مناسبت سے 12 مصرعے ہیں۔ ہر بند کا آغاز اس مصرع سے ہوتا ہے:
’’افلاک پر ہے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ‘‘
کون رسولؐ؟ آقائے مکرم ﷺ کی سیرت مقدسہ سے روشنی کشید کی گئی ہے۔ ریاض نے نظم معریٰ کی تکنیک میں تھوڑی سی تبدیلی کی ہے۔ یعنی آخری دو مصرعونںکو ہم قافیہ اور ہم ردیف بنا کر انہیں ایک مکمل شعر کی صورت دی ہے اور کوشش کی ہے کہ بند کے نفس مضمون کو اس شعر میں سمیٹ لیا جائے۔
’’طلوع فجر‘‘ عشق سرکار ؐ کی ایک لازوال شعری دستاویز ہے جس کا ایک ایک مصرع محبت رسول ﷺ کی خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔ شاعر نے کہیں بھی ابلاغ کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اللہ کرے ان کا خوبصورت شعری سفر تادیر جاری و ساری رہے اور ان کے گلہائے سخن جہان شعر و ادب کو مہکاتے رہیں۔ آمین‘‘
آبروئے ما (صبیح رحمانی)
اردو نعت میں اسلوب کی یکسانیت بہت نمایاں ہے جبکہ عصرِ حاض کا جدید ذہن رکھنے والا قاری کچھ نیاپن چاہتا ہے اور طرز بیاں کے لئے آفاق کا متلاشی ہے۔ وہ رسمیات کی سطح سے اوپر اٹھ کر آج کے انسان کی حسیات اور جدید شاعری کی لفظیات سے آراستہ ایک ایسی نعت کا ماحول چاہتا ہے جو عقیدت کی روحانی فضا میں رہتے ہوئے عصری مسائل کا شعور بھی رکھتی ہو اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے سیرت سرور کونین کی روشنی میں عملی قوت کو بھی بیدار کر سکے اور ان مسائل کے حل کی طرف بھی رہنمائی کرے۔ ساتھ ہی ساتھ امت واحدہ کے تصور کو قوی کرتے ہوئے ملت میں زندگی کی حرارت اور اسلام اور بانء اسلام کے پیغام کی حقانیت کو عام کرنے کی دعوتی ضرورت کو بھی پورا کرتی ہو۔
اس تناظر میں جب ہم ریاض حسین چودھری کی نعتیہ تخلیقات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری ان معیارات پر پورا اترتی ہے۔ ان کے کلام میں بے کراں وارفتگی، والہانہ پن، سرشاری، تازکاری اور گہری ارادت کا سمندر موجزن ہے اور ان کا قومی و ملی احساسات سے لے کر انسانی اور آفاقی تصورات اور نظریات پیش کرنے کا سلیقہ بھی خاصا مختلف ہے۔ ریاض حسین چودھری کی زندگی اور تخلیقات دونوں اس بات کی آئینہ دار ہیں کہ وہ کبھی تشکیک کی زد میں نہیں آئے۔ انہیں کبھی خرد کو رہنما بنانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ انہوں نے زندگی کے ناہموار راستوں سیگزرتے ہوئے کسی نئی صداقت کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ غارِ حرا سے ابھرنے والی صداقت پر ان کا ایمان پختہ ہے اور اسی روشنی کو وہ ہر صداقت کا ماخذ تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے پورے کلام میں ان کے یقین کی یہ روشنی جابجا پھلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
آبروئے ما بھی انہی سرمدی روشنیوں کا مرقع ہے۔ یہ ان کا 10واں نعتیہ مجموعہ ہے۔ ان کے ہاں ایک اور چیز جو قاری کی توجہ کو جذب کرلیتی ہے وہ مکالمہ ہے جو کبھی انہیں دربار رسالت مآب میں استغاثہ، استمداد اور التجا و التماس اور اظہار تمنا پر اکساتا ہے اور کبھی خود کلامی کی فضا میں لے جاتا ہے جہاں ان کی شکرگذاری اور ایک امتی کا احساس ذمہ داری ان کی فکر کے دوش بدوش ہوتے ہیں :
چومتا رہتا ہوں اپنے ہاتھ کو میں اس لئے
ہاتھ کی ساری لکیریں راستے طیبہ کے ہیں
آندھیوں کو سرکشی سے باز رکھنا ہے ریاض
یہ چراغِ آرزو جلتے ہوئے طیبہ کے ہیں
نئی اردو نعت کو لہجے کی تازگی، ہنرمندی، جبر اندروں کی تپش کے اثرات اور اظہار کی سچائیوں سے ہمکنار کرنے والے شعرا میں ریاض حسین چودھری کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
زم زم عشق (راجا رشید محمود)
زم زمِ عشق میں گدازِ محبت نے ندرتِ تخلیق کو جنم دیا ہے اور سخن گستری فکر و نظر کی تازگی کی غماز ہے۔ یہاں ذہن وقلب کا متوازن امتزاج مشاہدات و تجربات کی فکر انگیز آمیزش لیے شعر کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔
ارتباطِ جذب و تخیل اور روایت و جدّت کے درمیان توازن کی جو صورت ریاض حسین چودھری کے ہاں نظرآتی ہے، نعت کے ماحول میں انفرادیت رکھتی ہے۔ قرآنی لفظیات واصطلاحات اس سفر میں ان کی رہنما ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ خالق کریم ہے تو حضور ﷺ بھی کریم ہیں (الحاقہ) وہ حق ہے (طہ) تو یہ بھی حق ہیں(آل عمران) ریاض حسین چودھری اللھم ایدہ بروح القدس کے زیر سایہ قدم اٹھاتے اور قدم بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ یہاں مدیح سرکار (علیہ الصلوۃ والسلام) میں کہا گیا ہر لفظ تخصص معنویت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے جس سے ہر مہملیت ہزیمت آشنا نظر آتی ہے۔
شاعر کا قلم قرطاس عقیدت پر یوں سربہ خم ہے کہ سر اُٹھانے کو معصیت شعاری پر محمول کرتا ہے۔ وہ نعت کے معیار اور وقار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے دل کے بے داغ کینوس پر ولاد و اخلاص کی سکینت مآب تصویریں بناتے اور انہیں مجموعہ بائے نعت کی صورت دیتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں رافت اور رحیمی کے طلبگار محسوس ہوتے اور ہمہ اوقات دربار مصطفوی کی طرف اٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کی نعت کا ہر مصرع عقیدت کی کوکھ سے جنم لیتا اور توجہ محبوب کبریا (علیہ التحیۃ والثناء ) کی گود کے لیے ہمکتادکھائی دیتاہے۔
وہ کوئے سرکار ﷺ سے دریوزہ گری کا رشتہ جوڑے رکھنے پر مصر ہیں کہ’’جاؤک‘‘ کا الوہی حکم اسی کا متقاضی ہے۔ یہاں دل کی زبان میں خون جگر کی روشنائی سے داستان ولامر قوم نظر آتی ہے۔
زمزم عشق نعت کے حوالے سے قرآن کے بیان کردہ حقائق کے انجزلت کی مفکرانہ کاوش ہے۔
شیخ عبدالعزیز دباغ
زمِ زمِ عشق جہانِ نعت کے مہر نیم راز ریاض حسین چودھری کا 11 واں نعتیہ مجموعہ ’’زم زمِ عشق‘‘ سب سے پہلے مجھے ملا اور میں رندِ بلا نوش کی طرح جام پر جام پینے لگا۔ خوش نصیبی تھی کہ اشاعت سے پہلے ہی میں اس کی PDF File حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا جسے میں نے بارگاہ پیمبر ﷺ میں پیش کرنے کے لیے اپنے IPhone میں محفوظ کر لیا اور قدمین مبارک میں حاضری کے دوران، مواجہہ شریف کے روبرو اور گنبد خضرا کے روح پرور منظر کے مابین ریاض کے زم زمِ عشق کی جرعہ نوشی کرتا رہا۔ تب محسوس ہوا کہ مدینہ منورہ دراصل ریاض کا وطن ہے۔ وہ وہیں رہتے ہیں اور شب و روز مختلف مقامات پر حاضر ہو کر اپنی کیفیات نعت بارگاہِ رسالت میں پیش کرتے رہتے ہیں۔ یوں پھر لگا جیسے وہ ہر لمحہ میرے ساتھ تھے بلکہ ہر لمحہ میں ان کے ساتھ تھا۔ حرم نبوی میں میں جہاں بھی گیا وہ وہیں ہوتے، پھر ہم اکٹھے زمزم عشق پی رہے ہوتے، اس کا ہر شعر کیفیات بے خودی میں ڈوبا ہوتا۔ جب میں نے یہ شعر پڑھا:
نعت لکھنے کا مجھ کو سلیقہ ملے، چاک دامان حرف، صدا کا سلے
لے کے آیا ہوں ور پر کتاب ثناء آپ خیر البشر ﷺ آپ خیرالوری
تو حضوری کی کیفیت کے عمق کا ادراک ہونے لگااور یوں یہ خطا کار پیکر عجزبن کر بارگا ہ رسالت ﷺ میں ریاض کی یہ کتاب ثنا پیش کرنے کا شرف حاصل کرتا رہا۔ وہ کیا بھیگے ہوئے لمحے تھے، کوئی میری آنکھوں سے پوچھے جو آج بھی نم رہتی ہیں۔ مطالعہ فرمائیں۔ جب آپ ریاض کے لفظوں میں جھانکیں گے تو تجلیات حضوری آپ کے قلب و نگاہ کو لذت نظارہ سے سر شار کرتی نظر آئیں گی۔ ادبِ عشق کی ترشحاتِ نور کی رم جھم شعر شعر ترنگ بجاتی ملے گی اور آپ میری طرح ریاض کی معیت میں در مصطفی ﷺ پر کتابِ ثنا پیش کر رہے ہوں گے۔
پروفیسر محمد ریاض احمد شیخ
جناب ریاض حسین چودھری کا شمار اُن نعت گوشعرامیں ہوتا ہے جنہوں نے اپنا الگ اسلوب متعارف کرایاجوبعد میں اُن کی پہچان بن گیا۔ جناب حافظ مظہرالدین اور جناب حفیظ تائب کی طرح ریاض حسین چودھری بھی غزل کی دنیا سے نعت کی طرف آئے لیکن جب نعت گوئی کی طرف راغب ہوئے تو تقریبا دیگر تمام اصناف سخن کو خیر باد کہہ دیا۔ ریاض صاحب کی نعت کی سب سے بڑی خوبی ان کی بے ساختگی اور والہانہ پن ہے۔ ان کے دل میں ایک اضطراب ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی کسی آرزو کے پورانہ ہونے پر صدیوں سے بے چین ہیں۔ ایک عاشق رسول ﷺ کی آرزو دیدار مصطفی کے علاوہ اور کیاہو سکتی ہے۔ ریاض صاحب جب بارگاہ رسالت مآب میں امت کی زبوں حالی کی فریاد کرتے ہیں تو اس رقت سے کرتے ہیں کہ ان کی ندا بادِ صبا سے پہلے دربار مصطفی ﷺ میں پہنچ جاتی ہے۔ یہ شعر دیکھئے۔
پڑے ہوئے ہیں غربیوں کے بے کفن لاشے
امیر شہر کے ور پر سوالیوں کی طرح
زم زمِ عشق چودھری صاحب کا گیا رہواں نعتیہ مجمویہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مجموعہ نعت اُردو گوئی میں مزید امکانات پیدا کرے گا۔ کئی نئے باب روشن ہوں گے۔
دبستانِ نو (جلیل عالی)
نعت گوئی کارِ ثواب ہونے کے ساتھ ایک ادبی و تخلیقی سرگرمی بھی ہے۔ چنانچہ جب رسول ﷺ کے حوالے سے جذبہ و احساس کی وارفتگی اور نعت پارے کا ادبی و تخلیقی معیار دو مختلف مظہر ہیں۔ ضروری نہیں کہ کسی نعت پارے کی ادبی و فنی قدر و نعمت نگار کی سطحِ عقیدت و محبت کے حسبِ حال ہو۔ ایک طرف اگر عشقِ رسول ﷺ میں ڈوبا ہوا شاعر بہتر تخلیقی معیار کی نعت لکھنے کی توفیق سے محروم رہ سکتا ہے تو دوسری طرف حُبِ رسول ﷺ کی تھوڑی سی جذب و مستی کے ساتھ بھی کوئی نعت نویس ادبی و فنی لحاظ سے اعلیٰ پائے کی نعت کہہ جانے کی سعادت حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم میرا اپنا خیال یہ ہے کہ اگر ایک شاعر نظم یا غزل کہتے ہوئے فنی و تکنیکی لطافتوں کا خاص خیال رکھتا ہے تو اسے نعت کہتے ہوئے اور بھی زیادہ توجہ سے کام لینا چاہیے کہ وہ کائنات کی عظیم ترین بارگاہِ جمال میں اپنا نذرانہ عقیدت پیش کرنے جا رہا ہوتاہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ نظم و غزل کے منجھے ہوئے تخلیقی شاعر جب نعت کہتے ہیں تو ان کے اظہار میں نئے اور نادر فکری زاویے جگمگانے لگتے ہیں۔
ریاض حسین چوہدری نظم و غزل کے ایک کہنہ مشق شاعر ہیں۔ چنانچہ ان کے نعتیہ سرمائے میں بھی بہت سے مقامات پر اندر سے بے اختیارانہ یہ آواز ابھرتی ہے کہ
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جا است
انہوں نے نعتوں کے اس مجموعے کا نام (دبستانِ نو) بھی ایسا نیا اور مختلف رکھا ہے کہ جو تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح احساس کے تار ہلا دیتا ہے۔ موضوعات و مضامین کے حوالے سے عقیدت و محبت کے سرمستانہ جذبات و احساسات کے اظہار کا موسم ہو یا ابتر قومی و اجتماعی اور تہذیبی و معاشرتی احوال سے نجات کے لیے دربارِتوحید و رسالت میں فریاد کناں ہونے کے لمحات، معریٰ ہیت میں کہی گئی ان نظموں میں جذبوں کی روانی اور زبان و بیان کے بہاؤ کا یہ عالم ہے کہ وفورِ جذبات کی سرمستیوں میں کسی جگہ نفسِ مضمون کے قرینوں کی کمی بیشی کا کوئی شائبہ ہو تو ہو قافیہ و ردیف کی عدم موجودگی کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ قدم قدم پر شدتِ احساس اور شعریت سے بھر پور مصرعوں کی جلوہ گری شاعر کے خیال و فن کی ثروت مندی کا پتہ دیتی ہے۔ چند نمونہ دیکھئے۔
٭ سر برہنہ ہے ہوائے مکتبِ علم و ہنر
٭ غبارِ خوف وراثت میں دیں گے بچوں کو
٭ مرے مرقد پہ خیمہ تان دینا حرفِ مدحت کا
٭ ہم بے بسی کے قعرِ مذلت کا رزق ہیں
٭ آپ ﷺ ہی شفاف لمحوں کے امانت دار ہیں
٭ حصارِ خوفِ مسلسل میں دے رہا ہوں اذاں
٭ قلم ورق کے مصلے پہ سجدہ ریز رہے
٭ قلم ضمیر کے ہاتھوں میں روشنی کا چراغ
٭ تمام کھول دے گرہیں مری ہواؤں کی
برستی آنکھو خیال رکھنا (صاحبزادہ سلطان ناصر)
ریاض حسین چودھری ؒ کا نعتیہ کلام پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ نعت بیک وقت علم بھی ہے، فن بھی اور جمالیاتی خزینہ بھی۔ اُن کی نعت اِستغاثہ، بیانِ شمائل، اظہارِ محبت اور تمنّائے حاضری و حضوری کا اظہار تو ہے ہی مگر ساتھ ساتھ علم و حکمت کا وہ خزانہ بھی ہے جو جذبہ و خیال کی دبیز تہوں میں ملفوف ہے۔ فنی بلندی اپنی جگہ مگر اُن کی نعت میں عقائد و اعمال کے مسائل کا نقلی و عقلی استدلال استعارات و تشبیہات اور لغوی رعایتوں کے زرِ درخشاں میں مزیّن دل میں اترنے والا نغمہ نور ہے۔ علمیّت اور کمالِ فن کے ساتھ جمالیاتی کمال کا وفور اُن کی نعت کا نقطۂ عرفان ہے۔ عالمانہ دانش اور فنکارانہ مہارت کی خاک جب جمالیاتی پانی میںگُندھی جاتی ہے، تو اُن کی کوزہ گری مکمّل ہوتی ہے۔ اَللہُ جَمِیْلٌ وَّ یُحِبُّ الْجَمَال۔ اور پھر جسے صَاحِبُ الْجَمَال ﷺ کی محبّت نصیب ہو جائے اُس پر حُسن و جمال کے خزانے کیوں نہ کھل جائیں۔ اُن کی عقیدت و محبّت گویا علمیّت میں گُندھی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی نعت کمالِ مؤدّت میں بھی حزم و احتیاط کا دامن نہیں چھوڑتی۔
اُن کے نزدیک ریاضِ نعت میں داخل ہونے سے قبل خود کو خوشبوئے فنِ شعر سے معطر کر لینا لازم ہے۔ جب شاعر بارگاہِ حضور ﷺ میں دل کے آبگینوں کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرے تو اس کا تخلیقی وجود بھی ادب و احترام اور شعری وژن کے احرامِ مقدسہ میں لپٹا ہُوا ہو۔ ’’برستی آنکھو! خیال رکھنا‘‘ چودھری صاحب کا سو لہواں مجموعۂ نعت ہے۔ ہم اس کمالِ مدحت نگاری پر ریاض حسین چودھریؒ کے احسان مندہیں۔ ربِ مدحت اُنہیں عمر بھر کی اِس ریاضت کا وہ صلہ عطا فرمائے جو وہ اپنے ہر مجموعۂ کلام کے آغاز میں لکھتے رہے ہیں اوربرزخ میں نوریوں کے ساتھ اُن کی یہ بزمِ نعت تاحشر جاری رہے۔ آمین۔
ڈاکٹر شہزاد احمد
جدید اُردو نعت کا جب بھی تذکرہ ہوگا۔ ریاضؔ حسین چودھری کے نام کو بھی اوّلیت حاصل رہے گی۔ موصوف کا شمار عہدِ جدید کے معروف اور قابلِ ذکرنعت نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری کا ورق ورق اکیسویں صدی کی جدید نعت کے پس منظر اور پیش منظر کو واضح کر رہا ہے۔ ان کے ہاں تخلیقی توانائیوں میں روایت کا تسلسل بھی کارفرما ہے اور ان کی طاقِ جاں میں شہرِ مدحت کے ابدی و جدید چراغ روشن ہیں۔ اُن کا دل نشیں اسلوب وجدانی و عرفانی کیفیات سے ہم رشتہ ہے۔ ان کے ہاں موضوع، خیال اور اسلوب کی رنگارنگی متاثر کن ہے۔ ان کے کلام میں جدید لفظیات اور تازہ تراکیب وجد کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کا تخیل اور مشاہدہ جلوۂ صد رنگ سے آشنا ہے۔ ریاض کی نعتیہ شاعری ایک دلِ بیدار اور حاضرباش شاعر کی شاعری ہے جس کی مسلسل ستائش اور ہرگام پر حوصلہ افزائی ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر طاہر حمید تنولی
نعت احساساتِ قلب و روح، عشق و محبت اور اطاعت و عقیدت کے اِظہار کا وہ پیرایہ ہے جو قال سے زیادہ حال کا متقاضی ہے۔ گو نعت گو صاحبِ فن کبھی بھی عقیدت اورعشق و محبت سے خالی ہو کر نعت نہیں لکھتا مگر یہ بات کہ جو کچھ لکھا جارہا ہے وہ لکھنے والے کا ظاہر و باطن، اس کے قلب و روح کا ماحول اور اس کے احساسات و افکار کی کائنات بھی ہو جس سے الگ ہو کر اس کی ہستی کاوجود نہ رہ سکے ایک استثنا ہے۔ یہ ادا نعت کو وہ تازگی اور واقعیت دیتی ہے کہ نعت اپنے لکھنے والے کے حال و مقام کا پتہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ ریاض حسین چودھری صاحب کی نعت اور ان کے اشعار و افکار، اُسلوب اور لفظیات بھی ان کے حال کے غماز ہیں۔ نعت گوئی میں محویت نے ان کے شعور کو یوں اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے کہ ان کی ساری پہچان یہیں سے کشید ہوتی ہے۔ وہ اگرچہ اب ہمارے درمیان نہیں مگر وہ اپنی حال افروز نعت کے ساتھ بدرجہ اتم ہم میں موجود ہیں۔
ریاض حمد و نعت (ڈاکٹر عزیز احسن)
ریاض حسین چودھری نے زندگی بھر تقدیسی شاعری کی۔ تقدیسی اصنافِ حمد و نعت ان کی شعری دانش اور فکروفن کا ہمیشہ ہی جزوِ لاینفک رہیں۔ انہوں نے اپنے ستھرے شعری مذاق اور عشقِ نبوی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے پُر اخلاص اظہاریئے کا سہارا لیتے ہوئے عمر بھر حمدیہ ونعتیہ متون کے گلاب کھلائے۔ وہ مقلد شاعر نہیں تھے۔ انھوں نے مجتہد شاعر ہونے کا ثبوت دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لہجے میں اظہارات کی دھنک پورے جوبن پر نظر آتی ہے۔ انھوں نے حمدیہ و نعتیہ غزلوں میں عصری حسیت کے ساتھ لہجے کی تازگی کے نقوش بنائے ہیں۔ آزادنظم میں شدتِ احساس کے رنگ بکھیرے ہیں اور اپنی طرف سے ایک نئی صنف ایجاد کرکے اپنی تخلیقی جبلت (Cre ﷺ tive instict)کے جوہر دکھائے ہیں۔ اکائی میں ان کی نظمیں ویسے تونظمِ معریٰ کی ہیئت میں لکھی معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن ان نظموں کا ہر مصرع کسی ایک ’’عنوان‘‘ کے تابع کسی خیال کا شعری متن بناہے۔ اس طرح وہ نظمیں مروجہ اصناف میں نئے تخلیقی پیکر کی صورت میں جزوِ فن بنی ہیں۔
شیخ عبدالعزیز دباغ
احباب کو بخوبی علم ہے کہ 2017 میں ریاض حسین چودھریؒ صاحب کی وفات تک ان کے پندرہ مجموعے زیور طباعت سے آراستہ ہو چکے تھے اور راقم کوباقی ابھی آٹھ مجموعوں کی اشاعت کا اہتمام کرنا تھا۔ میری اولین ترجیح یہ تھی کہ جلد از جلد ریاض کے مسودات کی شکل میں پڑے ہوئے جملہ نعتیہ مجموعوں کو محفوظ کیا جائے اورقارئین تک پہنچایا جائے۔ اس کے لئے کتابوں کی طباعت و اشاعت کا راستہ طویل تھا جس کے لئے مالی وسائل کا انتظام ایک اہم مرحلہ تھا۔ لہٰذا پہلا قدم یہ اٹھایا کہ ریاض صاحب کی ویب سائیٹ پر کام کیا گیا اور ان کے سارے مجموعے اپ لوڈ کر دئیے۔ احباب نے اس کاوش کی بہت پذیرائی کی اور ان کی دعاؤں سے ویب سائیٹ کوقبول عام حاصل ہوا۔ اس کے ساتھ ہی bazm-e-riazکے نام سے Android App بنائی جس سے ان کے کلام سے مدح خوانوں کو سہولت فراہم ہو گئی۔ ریاض کے باقی آٹھ مجموعہ ہائے کلام میں سے ’’برستی آنکھو خیال رکھنا‘‘ 2018 میں شائع ہو گیا جو آپ نے بستر علالت سے ہمیں عطا کیا تھا۔ ان کے نعتیہ کلام کا جو گلدستہ اب آپ کو پیش کیا جا رہا ہے ریاض حسین چودھری صاحب کے تین مجموعوں ’’ تاجِ مدینہ، کتابِ التجا اور اکائی ‘‘پر مشتمل ہے۔
نصابِ غلامی (ڈاکٹر صاحبزادہ ندیم)
نعت تعلق بالرسالت کا شعری اظہار ہے اس اعتبار سے اس کے دو بنیادی پہلو ہیں: فکری اور جمالیاتی فکری پہلو تعلق بالرسالت کا اعتقادی متن ہے جس میں عرفانی، اعتقادی ایمانی جہات کے ساتھ ساتھ محبت و وابستگی، تعظیم و توقیر اور اتباع و سیرت کے پہلو شامل ہیں ناعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دینی و ایمانی وابستگی کے ساتھ ساتھ اپنی روحانی و جذباتی وابستگی کا اظہار بھی نعت کے ذریعے کرتا ہے ریاض حسین چویدری کا اکیسواں مجموعہ نعت ’’نصاب غلامی‘‘ تعلق بالرسالت کے ان تمام پہلوؤں کا جامع ہے والہانہ تعلق اور اس کا والہانہ اظہار، عرفانی تصور رسالت، کلامی و اعتقادی پختگی، گہری وابستگی، سیرت و اسوہ کی جامعیت، ختم رسالت، اور عصر رواں کے مصائب، مسائل اور آلام کا حل بارگاہ رسالت میں عرض گزارنا ’’نصاب غلامی‘‘ کے اہم مضامین ہیں۔
فکری اظہار کے ساتھ ساتھ نعت ایک جمالیاتی اظہار بھی ہے اس اعتبار سے نعت کی اپنی لفظیات ہیں اس کا مخصوص تشیبیہی اور استعاراتی نظام ہے جو شعریات نعت کو جمالیاتی تقدیس سے ہم کنار کرتا ہے ریاض حسین چوہدری اس باب میں خاص انفرادیت کے حامل ہیں ان کی تشبیہیں اور استعارے تروتازہ ہیں اور وہ اپنے گرد و پیش میں پھیلی کائنات جمال میں جمال رسالت کی جھلکیاں تلاش کر لیتے ہیں
’’رنگ، خوشبو، پھول، شبنم، روشنی‘‘ ہر دل نشیں چیز ان کے ہاں مدحت مصطفی کا حوالہ ہے بایں ہمہ نئے ذائقے اور تازہ مضامین کی شاعری ہونے باجود ان کا سارا کلام شعریات نعت کی تقدیسی روایت میں پیوست ہے اور کہیں بھی ان کی جدت طرازی ان کے شعر میں عامیانہ پن پیدا نہیں ہونے دیتی۔ ریاض حسین چوہدری کی شاعری نعت میں طرز نو تلاش کرنے والوں کے ’’نصاب غلامی‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ نصاب نعت گوئی بھی ہے۔
نعت کے تخلیقی زاویے (ڈاکٹر طارق ہاشمی)
تخلیق کار کا تنقید و تبصرہ کی طرف خود مائل ہونا کئی اعتبار سے مبارک ثابت ہوتا ہے۔ وہ امور جن کا اظہار شعری سطح پر ممکن نہیں ہوتا یا شعری اظہار کی بعض حدود کے باعث اظہار کے تقاضے پورے نہیں ہوپاتے تو نثر کے ذریعے اپنا مافی الضمیر پیش کر کے فکری تشفی کے مختلف اسباب پیدا کیے جاتے ہیں۔
ریاض حسین چودھری کی شناخت کا بنیادی حوالہ ان کی شاعری ہے اور ان کا زیادہ تر تخلیقی اثاثہ مدحِ رسول پر مشتمل ہے۔ ان کی زندگی میں نعت ایک مقصدِ حیات کا درجہ رکھتی ہے اور اس کی تکمیل کے لیے وہ تاحیات کوشاں رہے۔ ان کے بائیس کے قریب نعت کے مجموعے شائع ہوئے جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نعت کا تخلیقی رجحان ان کا کل وقتی میلان تھا۔
معاصر نعت کی تخلیقی جہتیں ان کی نثر کی ایسی دستاویز ہے جو نعت، تخلیقِ نعت اور تخلیق کارانِ نعت کے بارے میں ان کی متنوع تحریروں پر مشتمل ہیاور اس میں ان کے نعتیہ مجموعوں کے پیش لفظ اور انٹرویوز بھی شامل کیے گئے ہیں۔
اس کتاب کا یہ جمالیاتی وصف ہے کہ یہ مضامین نعت کے مباحث کے تناظر میں بعض فکری پہلوؤں پر ایسے جامع مواد کی حامل ہے جو ایک انسان کے درست طرزِ حیات سے لے کر قومی سطح کے مسائل تک کو محیط ہے۔ ان کی بحث میں مستقبل کی جہت نمائی بھی ہے اور وہ درد و سوز بھی جو ایک سماج کے معاشرتی ارتقا کے لیے اہلِ فکر کے باطن میں تاباں ہوتا ہے۔ وہ اپنی نعت میں جس طرح سماج کے حوالے سے اپنی فکرودانش کا اظہار کرتے ہیں، ان کی نثر میں بھی اس حوالے سے ایک واضح دردمندانہ میلان نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سیا ن مضامین کا تنوع اپنے حلقہ قارئین کے لیے حیرت انگیز بھی ہے اور اثرانگیز بھی۔ ان کا اسلوبِ بیان اپنے اندر ایک خاص جاذبیت کا حامل ہے۔ ان کے شعری اوصاف کا عکس ان کی نثر میں بھی نمایاں ہے۔
شیخ عبدالعزیز دباغ کی مرتبہ نعت کی تخلیقی جہتیں کے عنوان سے یہ نثری دستاویز ریاض حسین چودھری کے افکار کا مجموعہ ہی نہیں، معاصر نعت کی بعض تخلیقی جہتوں کی تفہیم میں ایک اہم سنگِ میل بھی ہے۔
ریاض کی نعت نگاری (ڈاکٹر شبیر احمد قادری)
تخلیق نعت کے عمل میں منتخب الفاظ و تراکیب کے ساتھ ساتھ اظہار عقیدت کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اور اس نخل عقیدت کی نمود، محبان رسول کی اشک باری ہی سے ممکن ہے۔ عقیدت اس ذات والا صفات سے، صدر المصادر جس کی یاد میں ہر دم دھڑکتا ہے۔ ریاض حسین چودھری کا دل بھی اسی مقدس و معتبر ہستی کی حسین و جمیل یادوں کے عنبر سے معنبر تھا، جو ہر کلمہ گو کا حاصل ایمان ہے۔ نعت کی فوز و سعادت سے بہرہ مند ہونے والے عشاق میں انھیں ممتاز مقام حاصل تھا۔ یہ صنف ان کے نزدیک زر معتبر کا درجہ رکھتی تھی۔
زیر نظر کتاب شیخ عبدالعزیز دباغ کی سرور کائنات علیہ الصلوۃ والسلام سے قلبی مؤدت اور محب رسول ریاض حسین چودھری سے دیرینہ رفاقت اور نیاز مندی کی ترجمان ہے۔ اس کتاب کی روشنی میں ریاض حسین چودھری کے طرز احساس، حسن کلام، ندرت فکر و نظر اور شعور نعت کی تشکیل و تزئین کے ذیل میں خدمات کے فہم میں سہولت پیدا ہو گء ہے۔ حمدیہ مجموعے ’’لامحدود‘‘ کے مشمولات پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے۔ شیخ عبد العزیز دباغ اس سے پہلے ’’ریاض حمد و نعت‘‘ کے زیرعنوان ریاض کے تین مجموعوں پر مشتمل جزوی کلیات کی صورت میں ایک زربفت تیار کر چکے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران میں مدیر ’’نعت رنگ‘‘ سید صبیح رحمانی اردو کے ابتداء اہم ناعتین کے پر مغز مطالعات پر مبنی ضخیم و حجیم کتب سے بساط ادب کو مالا مال کر چکے ہیں، دامان نعت کو اپنے افکار گوہر نثار سے با ثروت بنانے والے ما بعد و معاصر سخن وروں، ناقدین و محققین کی خدمات پر مربوط و منضبط انداز میں کتابیں شایع کرنے کا کام جاری ہے۔ شیخ عبد العزیز دباغ کی زیر نظر کتاب اسی سلسلے کی ایک توانا کڑی ہے۔ موصوف کی یہ مساعی قابل قدر اور لایق صد ستائش ہے۔ مصنف نے ریاض حسین چودھری مرحوم کی تقدیسی شاعری کا بہت عمدہ تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔ اس نوع کی کتب کی ترتیب و اشاعت سے معاصر اور مستقبل کے مؤرخوں کو تاریخ نعت مرتب کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ کتاب تنقید نعت کے اس سفر کا ایک اہم نشان ثابت ہو گی، جس کی ابتدا 1995ء میں ’’نعت رنگ‘‘ کراچی کے شمارہ اول تنقید نمبر کی صورت میں ہوء تھی۔ اور ریاض حسین چودھری مرحوم اس قافلے کے بہت فعال فرد تھے۔ اور انھوں نے نعت میں تازہ کاری کے عمل کو آگے بڑھانے کے علاوہ بہت وقیع مقالات بھی قلم بند کیے۔ وہ بجا طور پر اس بات کا استحقاق رکھتے ہیں کہ ان کی غیر مطبوعہ منظوم و منثور نگارشات کی جمع آوری اور اشاعت کے ساتھ ساتھ اس نوع کے مزید مطالعات بھی سامنے آئیں۔
آفریں باد، بر ایں ہمت مردانہ۔
وردِ مسلسل (ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد)
ریاض حسین چودھری اُن خوش نہاد اور پاک طینت عارفانِ جذب وشوق میں سے ایک ہیںجن کی زندگی کا ایک بڑا حصّہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توصیف وثنا میں بسر ہوا۔ مبد ء فیاض نے انھیں شعر وادب کے جس پاکیزہ ذوق اور تخلیقی شادابی سے بہرۂ وافر عطا کیا تھاوہ انھوں نے پورے وفور کے ساتھ توصیفِ رسولﷺ میں صَرف کر دیا۔ اُن کا کشکولِ ثنا ہمیشہ بھرا رہا۔ انھوں نے عشق ومحبت کی سرشاری، عقیدت ومؤدت کی تابانی اور فکر وفن کی دل آویزی سے جدید اُردو نعت کو نئے امکانات کی بشارت دی۔ نعت کے منظر نامے کو اچھوتے رنگوں سے زیب وزینت دینے کے لیے ان کے سَیلِ فکر کو عقیدت وارادت کے بسیط سمندروں سے کم یاب موتیوں کی تلاش رہی۔ اُن کا دستِ ہُنرلفظوں کے بطون میں جھانکنے اور مدح وثنا کے نئے زاویوں کی جستجو میں رہا۔ ان کی قادر الکلامی اور پُرگوئی بحور وقوافی کے ہر چمنستاں سے عقیدت کے پھول چُننے میں مصروف رہی۔ اُن کے اس پُرشوق تخلیقی سفر میں کئی نعتیہ مجموعے مطلعِ ادب پر جلوہ گر ہوئے جنھیں صاحبانِ ذوق وشوق نے انھیں عزت وتکریم کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کے سرمدی بول خلقِ خدا کے کانوں میں رس گھولتے رہے اور ان کا ذوقِ ثنا شعر وادب کی فضا کو مشک بار اور مستنیر کرتا رہا۔
یہ کتنے اعزاز اورسعادت کی بات ہے کہ اُن کے وصال کے بعد بھی اُن کاسفرِ ثنا جاری وساری ہے۔ ان کے نیاز مند اور اخلاص کیش محب شیخ عبدالعزیز دباغ صاحب کی سعی وکوشش سے ریاض حسین چودھری کے دورِ آخر کا کلام ’’وردِ مسلسل‘‘ کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ میں اس خوش آثار مجموعے کی ترتیب اور پیش کش پر انھیں تہنیت پیش کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ عشق ومحبت کی یہ خوش رنگ دستاویز دیر تک عاشقان وواصفانِ رسولﷺ کے قلب ونگاہ کو روشن رکھے گی۔ ان شاء اللہ
روشنی یا نبیؐ (صبیح رحمانی)
نعت گوئی ریاض حسین چودھری کے لیے محض شعری اظہار نہ تھی بلکہ طرزِ حیات کا درجہ رکھتی تھی۔ علاوہ ازیں اصنافِ سخن کی جداگانہ فنی ضرورتوں کے شعور کے باوجود ان کے نزدیک تخلیقی عمل میں بنیادی حیثیت اُس فکر و احساس کی تھی جو تخلیقی اظہار کا موجب ہوتا ہے۔ انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں کثیر نعتیہ سرمایہ پیش کیا جو اپنے جذبہ و آہنگ اور اسلوب کی تازگی کے باعث اپنی ایک انفرادی شناخت رکھتا ہے۔
’’روشنی یانبی‘‘ ریاض حسین چودھری کی نعتیہ نظموں کا مجموعہ ہے جو زبان و بیاں کی نفاست، جذبوں کی گہرائی، عصری احوال و مسائل میں سیرت سے استفادے کے شعور کے ساتھ اُن رموز سے آراستہ ہے جو جدید نعت کی پہچان ہیں۔ یہ نظمیں ایک طرف تخلیق کار کی انفرادی عقیدت و محبت، جذبوں، اُمنگوں اور آرزوئوں کی ترجمان ہیں تو دوسری طرف ہماری دینی و تہذیبی اقدار اور اجتماعی شعور کی حامل بھی ہیں۔
اردو کے نظم نگار شعرا نے جو نعتیہ نظمیں تخلیق کی ہیں ان میں زیادہ توجہ ایجاز و اختصار پر رہی ہے مگر بعض تخلیق کاروں نے طویل، یعنی پوری ایک کتاب کے حجم میں بھی نعتیہ نظمیں تخلیق کی ہیں۔ ان میں سے بعض نظمیں اپنی جگہ شاہکار بھی مانی گئی ہیں مگر یہ آسان کام نہیں ہے۔ ایسی نظموں میں یہ ہوتا ہے کہ اکثر جذبے کا وفور اس درجہ غالب آجاتا ہے کہ نظم کی فکری جہت اور فنی لوازم پر شاعر کی گرفت کم زور پڑجاتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ریاض حسین چودھری اس جادئہ دشوار سے سلامت روی کے ساتھ گزرے ہیں۔ اس کتاب میں شامل نظموں سے پہلے بھی میری نظر سے ان کی کئی طویل نظمیں مثلاً ’’طلوعِ فجر‘‘، ’’سلام علیک‘‘ اور ’’دبستانِ نو‘‘ میں شامل کئی نظمیں گزری ہیں۔ یہ نظمیں کامیابی سے اپنا فکری و فنی دائرہ مکمل کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ مجھے یقین ہے ’’روشنی یانبی‘‘ بھی اُن کی دوسری نعتیہ تخلیقات کی طرح معاصر ادبی منظرنامے پر نظم میں نعت نگاری کی تخلیقی جہتوں کو نمایاں کرنے کا سبب بنے گی۔ اس بابرکت مجموعے کی پذیرائی میرے لیے ذاتی طور پر طمانیت کا باعث ہے۔