گنبدِ خضرا ہے میرے سامنے لاہور میں- خلد سخن (2009)
ہے مشامِ جاں کسی کا نکہتوں میں آج بھی
نعت کا گلشن کھِلا ہے رَتجگوں میں آج بھی
کس کا دامانِ کرم ہے ہر کہانی پر محیط
ہو رہا ہے کس کا چرچا قدسیوں میں آج بھی
آپؐ ہیں ہر دور کے انسان کے آقاؐ، حضورؐ!
آپؐ کا چہرہ ہے روشن آیتوں میں آج بھی
حوصلہ دیتا ہے دل کو زندہ رہنے کے لیے
آپؐ کا اسمِ گرامی دھڑکنوں میں آج بھی
ہر بلندی آپؐ کے نقشِ قدم کو چوم کر
مفتخر ہے آسماں کی وُسعتوں میں آج بھی
یا نبیؐ! اس پر کھُلے تفہیم کا بابِ ہُنر
آدمی اُلجھا ہوا ہے دائروں میں آج بھی
اپنا کشکولِ گدائی ساتھ لے لوں تو چلوں
نور کا باڑا بٹے گا سائلوں میں آج بھی
آج بھی سورج سوا نیزے پہ آیا ہے، مگر
ہے رواں آبِ خنک تشنہ لبوں میں آج بھی
گنبدِ خضرا ہے میرے سامنے لاہور میں
آنکھ ہے شہرِ نبیؐ کے روزنوں میں آج بھی
مرکزِ الطافِ پیہم ہے سرِ کون و مکاں
خلدِ طیبہ روشنی کے جمگھٹوں میں آج بھی
بارشِ سنگِ حوادث میں کھلے کرنوں کے پھول
ہے کرم اُنؐ کا دعا کے سلسلوں میں آج بھی
وہ ازل کے بھی پیمبرؐ، وہ ابد کے بھی رسولؐ
ہے رقم بابِ ثنا کے حاشیوں میں آج بھی
نعت کے دامن میں زخموں کے سجاتا ہوں گلاب
تلخیاں بکھری ہوئی ہیں منظروں میں آج بھی
دخترِ حوّا ردائے عافیت مانگے حضورؐ!
ابنِ آدم ہے ہوس کے جنگلوں میں آج بھی
یہ عطا ہے آپؐ کے نقشِ کفِ پا کے حضورؐ!
سر اُٹھا کر میں کھڑا ہوں دشمنوں میں آج بھی
نسبتِ شہرِ نبیؐ سے ہے ملا اذنِ قیام
درج، ورنہ، انخلا ہے زائچوں میں آج بھی
خوف کی چادر میں ہے لپٹا ہوا میرا بدن
راہزن کب سے کھڑے ہیں راستوں میں آج بھی
لب مقفل ہیں سرِ مقتل مرے، آقا حضورؐ
حشر برپا ہے خدا کی بستیوں میں آج بھی
مت اُلجھنا ہم غلامانِ پیمبرؐ سے، ریاضؔ
تاجِ شاہی ہے ہماری ٹھوکروں میں آج بھی