بھائی ریاض حسین سلطانِ نعت کیسے بنے - (محمد امجد چودھری - جنوری 2021)- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

[محمد امجد چودھری صاحب ریاض حسین چودھری صاحب ؒکے حقیقی برادر اصغر ہیں۔ ذہنی اورروحانی طور پر ان سے بہت قریب ہیں اور یہ قربت انہیں بچپن سے حاصل ہے۔ جب ان سے ریاض حسین چودھریؒ کے خاندانی پس منظر اور ابتدائی احوال اور شعری مزاج کی نشوونما کے بارے میں دریافت کیا تو ان سے کار آمد تفصیلات میسر آئیں جو انہوں نے اس تحریر میں بھی بیان کر دی ہیں۔]

ورق کو ذوقِ جمال دے گا قلم کو حسنِ مقال دے گا
اُسی کا ذکرِ جمیل شہرِ غزل کی گلیاں اجال دے گا

قلم بھائی ریاض حسین کا دیرینہ ساتھی تھا۔ گزشتہ تین دہائیوں سے ہمہ وقت مدحتِ رسول ﷺ میں اٹھا یہاں تک کہ بھائی کو موت نے آ لیا۔ 9نومبر 1941ء کو شہر اقبال میں طلوع ہونے والا آفتاب بالآخر وقتِ مقررہ پر 6 اگست 2017ء کو داتا کی نگری میں غروب ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ محبتِ رسول سے سرشار بھائی ریاض ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئے۔ ایک تاریخ ساز باب بند ہوگیا۔ آج بھی ان کے گھر کے درو دیوار پر اداسی چھائی ہوئی ہے جہاں کبھی چراغِ نعت جلتے تھے اور قلم ورق کے مصلے پر سجدہ ریز رہتا تھا۔ زندگی کی 76 بہاریں دیکھنے کے بعد آج مردِ درویش مرے کالج روڈ پر واقع آبائی قبرستان ’’سورج پور‘‘ میں آسودہ خاک ہیں۔

زیر گردوں موت ہی کا راج ہے
کس کہ سر پہ زندگی کا تاج ہے

محمد ریاض حسین چودھری 9 نومبر 1941ء کو شہرِ اقبال میں الحاج چودھری عبدالحمید کے گھر پیدا ہوئے ہمارے دادا حضور اور نانا حضور سگے بھائی تھے۔ یکے بعد دیگرے امیر ملت سید پیر جماعت علی شاہ صاحب سے بیعت ہوئے۔ ہمارے خاندان کے امیر ملت کے گھرانے سے جو روحانی رشتہ استوار ہوا وہ الحمدللہ آج بھی قائم ہے۔ چودھری صاحب کو والد صاحب کی اور امیر ملت کے گھرانے کی بے حد قربت ملی۔ جب میر ملت تشریف لاتے تو والد صاحب سب کام کاج چھوڑ ان کی خدمت میں حاضر رہتے۔ یعنی اترا فلک سے چاند ستارے چلے گئے۔ علی پور شریف سے اگرخادم بھی آجاتا تو وہ ہمارے لئے واجب الاحترام ہوتا تھا۔ ہماری دوکان کو علی پور والوں کے لئے ریسٹ ہاؤس کا درجہ حاصل تھا، مولانا نعیم الدین مراد آبادی تشریف لاتے تو ان کے لئے خصوصی استقبالیہ منظم کیا جاتا۔ جب جسٹس نذیر غازی نے سنا کہ ہمارے ماں باپ کو نکاح امیر ملت نے پڑھایا تھا ور اس تقریب میں سید نعیم الدین مراد آبادی بھی شامل تھے تو انہوں نے برجستہ کہا :’’پھر تو ریاض حسین چودھری‘‘ کو آپ کے گھر آنا ہی تھا۔ ریاض پیدا نہیں ہوتے بلکہ بھیجے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہر دور میں بھیجتا ہے۔

ہمارے لیے یہ امر باعث فخر ہے کہ علامہ اقبالؒ کے والد ماجد شیخ نور محمد اور دادا حضور چودھری عطا محمد یک جان و دو قالب تھے۔ دونوں احباب میں ایک قدرِ مشترک یہ تھی کہ وہ صوفیائے کرام سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔

دونوں درویش اور انتہائی متقی شخصیات ایک دوسرے کے لئے یک جان و دو قالب تھے۔ دونوں بھائی بنے ہوئے تھے۔ قریبی پڑوسی تھے اور روزانہ ملاقات میں بچوں کے حوالے سے خصوصی بات چیت ہوتی۔ جناب نور محمدؒ کہتے کہ ’’ عطا محمد! اقبال لاہور سے آتا ہے تو اشعار بڑے سناتا ہے۔ بہت شاعری کرتا ہے۔ اور پھر کچھ اشعار وہ سنا بھی دیتے۔ ان کے علاوہ علامہ اقبال کے بھانجے ادبی ذہن رکھتے تھے۔ دادا جی کے پاس آ کر بیٹھ جاتے اور اشعار سناتے۔ عالم اسلام کے حوالے سے بات ہوتی اور پھر محفل جم جاتی۔ یہ محفلیں ریاض بھائی کے لئے بہت پر اثر ثابت ہوئیں۔ وہ چھوٹے تھے، سنتے رہتے اور امت مسلمہ سے محبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور وطن سے محبت جیسے مضامین دھیرے دھیرے ان کی روح میں اترتے جاتے۔ وہ جو کچھ وہ سنتے اسے اپنے دل میں اتار لیتے۔ انہی جلوتوں سے ان کی خلوتیں وجود پانے لگیں حتیٰ کہ شبستانِ روح میں نبی محتشم ﷺ کی ذات منور کی کہکشائیں اترنے لگیں۔ یہ اثرات ان کی روح میں کچھ الگ ہی نقش و نگار بناتے جن کا ہمیں علم اس وقت ہوا جب وہ سب کچھ ان کی شخصیت کا حصہ بن چکا تھا۔ علامہ اقبال کے ساتھ عقیدت تو تھی ہی۔ ’’خون رگ جاں‘‘ کی منظومات خصوصاً نظم ’’دیدۂ بیدار‘‘ اور’’ استغاثہ اور جواب استغاثہ ‘‘ نظمیں انہوں نے اقبال کے رنگ میں ڈوب کر لکھیں۔ ایسی شاعری کی بنیاد بہت پہلے ان کی روحانی استعداد میں رکھ دی گئی تھی۔ یہی ان کا شعور نعت تھا جس کی کرنیں ان کے مجموعہ ہائے حمد و نعت میں ہر سو اظہار کی جنتیں سجاتی نظر آتی ہیں۔

ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہمارے والدین کا نکاح امیر ملت نے پڑھایا جبکہ امام احمد رضا خان کے دستِ راست سید نعیم الدین مراد آبادی بھی اس بابرکت تقریب میں موجود تھے۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ دونوں احباب نے 1925ء میں ’’آل انڈیا سنی کانفرنس‘‘ کی بنیاد رکھی۔ جس نے آگے چل کر ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے شانہ بشانہ تحریک پاکستان کو حیاتِ جاوداں بخشی۔ اسی صورت حال نے بھائی ریاض کے شعور نعت میں ملک و ملت کی محبت کا ایک بے پایاں سمندر موجزن کر دیا جا انکی مدحت نگاری کے نمایاں خد و خال میں والضحیٰ بن کر چمک رہا ہے۔

خوش کن امر یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جامعہ نعیمیہ لاہور کے بانی مفتی محمد حسین نعیمی۔ ممتاز مسلم لیگی رہنما علامہ عبدالغفور ہزاروی، علامہ محمود احمد رضوی، مولانا محمد عمر اچھروی، مولانا عارف اللہ شاہ قادری، مولانا ابودائود صادق، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستار خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری جیسی مقتدر ہستیوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔

گاہے بگاہے ہمارے گھر میں محفلِ میلاد کا انعقاد ہوتا۔ درود و سلام کے گجرے پیش کیے جاتے۔ یوں ریاض بھائی نے ہوش سنبھالا تو ان کی سماعتوں اور بصارتوں کی لاشعوری تہوں میںشعورِ نعت کی نغمگی اور نورانیت کی برسات اتر چکی تھی۔ گھر کا ماحول نعت کا ماحول تھا۔ ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے خود انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ

’’جب شعور ذرا پختہ ہوا تو معلوم ہوا کہ ہمارا تو سب کچھ حضور ہی ہیں اور اس وقت ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور ہمیں اپنی جان، مال، اولاد غرضیکہ ہر شے سے عزیز تر نہ ہوجائیں تو میں اپنی آنکھیں بند کرلیتا۔ درود شریف پڑھتا اور چشم تصور میں گنبدِ خضریٰ کی ٹھنڈی ٹھنڈی فضائوں میں پہنچ جاتا۔ ‘‘

برستی رہتی ہیں ساون کے بادلوں کی طرح
حضور میری بھی آنکھیں مرے بڑوں کی طرح

ابھی ریاض بھائی کی عمر سات یا آٹھ سال ہوگی کہ اللہ عزوجل نے ان کو نئی زندگی عطا کی۔ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر حسان و کعب و بوصیری و رضا کے قبیلے کا ایک فرد ہوگا۔ ہوا یوں کہ پتنگ اڑاتے ہوئے چھت سے گر کر فرش پر آگئے۔ ان پر مسلسل غشی کا دورہ طاری تھا۔ والد ماجد کی حالت غیر تھی مگر والدہ محترمہ سب کو تلقین کررہی تھیں کہ میرے ریاض کو کچھ نہ ہوگا۔ رات میں نے دیکھاکہ مسجد ہیر وادیہ کے صحن میں ایک نورانی بزرگ نے بچہ میری گود میں ڈال دیا ہے۔ اسی اثناء میں کسی نے کہا کہ ایک ڈاکٹر صاحب اتفاق سے ادھر ہی آرہے ہیں۔ وہ ڈاکٹر محمد شریف تھے۔ عطائے رب جلیل سے ریاض بھائی ہوش میں آگئے۔ بالآخر والد محترم اور ڈاکٹر صاحب کی قابل رشک دوستی قرابت داری میں تبدیل ہوگئی۔ اس حادثے کا اثر عمر بھر ان کی ذہنی کیفیات پر اثر انداز رہا کیونکہ آپ کا بایاں بازو صحت مند فعال بازو نہ رہا۔

قلم ریاض بھائی کے بچپن کا ساتھی انہیں بے حد عزیز تھا۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ عہد جوانی میں بھی انہوںنے قلم کی حرمت کو پامال نہ کیا۔ عمر بھر دعا گو رہے کہ :

دل کے ورق پہ جھکتا چلا جائے حشر تک
میرے قلم کو ایسی عبادت نصیب ہو

دونوں جہاں میں میرا تعارف ہو نعت سے
دونوں جہاں میں بزمِ رسالت نصیب ہو

ریاض بھائی ایک درویش صفت انسان تھے۔ دنیا میں رہتے ہوئے بھی ایک رہے۔ خلوت میں بھی ایک اور جلوت میں بھی ایک تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ’’ میں زہرِ سلاسل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔ ‘‘ ایسا نہیں کہ بندے کو خدا لکھوں۔ وہی لکھا جو محسوس کیا۔ ممتاز دانشور اشفاق احمد کی اس بات پر عمل پیرا رہے کہ کبھی کسی طرف نہ دیکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں زنگ آلود ہوں۔

ریاض بھائی نے گورنمنٹ ہائی سکول سے میٹرک کرکے1958ء میں مرے کالج میں داخلہ لے لیا۔ یہ دور مشاعروں کا دور تھا۔ بہار کا موسم تھا مرے کالج کی گرائونڈ میں مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ رات دھیرے دھیرے بیت رہی تھی۔ کھلے آسمان تلے مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کرسیٔ صدارت پر جلوہ افروز تھے۔ کچھ ہی دیر بعد عبدالحمید عدم نے مائیک کو تھام لیا۔ اپنا کلام سناتے سناتے حضور نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کر بیٹھے۔ اس پر مجاہد ملت بھلا کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ جلال میں آگئے۔ عدم کو آڑے ہاتھوں لیا۔ یقینا مولانا کی تاجدار ختم نبوت سے والہانہ محبت نے ریاض بھائی کی شخصیت پر انتہائی مثبت نتائج مرتب کیے۔ ایسی محفلوں اور ایسے ہی واقعات ان کے اندر حسِ نعت کی تشکیل و تزئین کرتے رہے۔

جب وہ مرے کالج میں سیکنڈ ایئر کے طالب علم تھے تب سے استاد محترم آسی ضیائی صاحب سے جو تعلق پیدا ہوا وہ تادم آخر قائم رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کو ہمارے گھر میں فیملی ممبر کی حیثیت حاصل تھی۔ بھائی ریاض کی زندگی کا ایک خوشگوار پہلو یہ بھی ہے کہ وہ مسلسل تین سال تک ’’مرے کالج میگزین کے ایڈیٹر رہے۔ جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ بعد ازاں انہیں ’’المیزان‘‘ (لا کالج لاہور) کا مدیر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب کسی سٹوڈنٹ کا ایڈیٹر ہونا بڑے فخر کی بات تھی۔

ریاض بھائی کو اس بات کا بڑا قلق تھا کہ لا کالج میں کیونکر داخلہ لیا۔ ظاہر ہے وہ ایم اے اردو کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ دو سال تک شہر اقبال کے نامور وکیل محترم جلیل جاوید کی رفاقت میں رہے۔ اس دوران دونوں احباب نے ایم اردو کا امتحان دیا اور نمایاں کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں ہفت روزہ ’’ادراک‘‘ آپ کی ادارت میں ایک عرصہ تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔

1967ء میں ریاض بھائی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار سے کیا۔ یہ وہ دور تھا جب ڈھاکہ اور کراچی میں بسنے والوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے۔ چٹا گانگ کی بنی ہوئی مصنوعات پر ’’میڈ ان پاکستان‘‘ لکھا ہوتا تھا۔ بھائی ریاض کی دلی خواہش تھی کہ کیوں نہ ہم اپنے کاروبار کو مشرقی پاکستان تک پھیلائیں۔ چنانچہ نئے کاروبار کا نام ’’ایسٹ ویسٹ کارپوریشن‘‘ تجویز ہوا، ابھی فیکس مشین کا تصور محال تھا۔ تاہم لیٹر ہیڈ اور ٹائپ رائٹر کی اہمیت مسلمہ تھی۔ بھائی ارشد کا مشورہ حقیقت پر مبنی تھا کہ لیٹر ہیڈ انگریزی اور بنگلہ زبان میں چھپوایا جائے۔ قدرتی امر ہے کہ اپنی مادری زبان سب کو پیاری ہوتی ہے۔ چنانچہ اگلے ہی روز کینٹ پہنچے کہ ایک بنگالی کرنل صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جوں ہی اپنا مدعا بیان کیا۔ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوکر ہاتھ ملایا اور بیٹھنے کے لیے کہا۔ ان کی آنکھوں میں جو چمک پیدا ہوئی وہ کبھی بھی بھلا نہ پائوں گا۔ بڑے خلوص سے چائے پی لی اور ترجمہ کرکے لیٹر ہیڈ کی کاپی ہاتھ میں تھمادی۔ شکریہ ادا کرکے جب واپس ہونے لگا تو دروازے تک چھوڑنے آئے۔

1969ء کا سال تھا۔ ریاض بھائی بیان کرتے ہیں کہ میں اکثر سوچتا کہ ہم عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقع پر عزیز و اقارب اور دوست احباب کو عید کارڈ روانہ کرتے ہیں۔ عید میلاد النبیؐ پر ایسا کیوں نہیں کرتے۔ چنانچہ انہوں نے اسد بھائی کے آرٹسٹ دوست ڈاکٹر شاہد رضا کے تعاون سے پہلی بار میلاد کارڈ چھپوائے۔ اسد بھائی نے جب علامہ کوکب نورانی کے والد ماجد کو میلاد کارڈ پیش کیا تو بے حد خوش ہوئے، اسے چوما اور پھر پڑھنے لگے۔ بے اعتبار ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ جواباً انہوں نے نہ صرف اسد بھائی بلکہ محفل کے شرکاء کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے عید مبارک دی۔ دمِ رخصت انہوں نے ہم سب کو ڈھیروں دعائیں دیں۔

ریاض چودھری رقمطراز ہیں کہ

’’خون رگ جاں‘‘ کا اعزازی نسخہ اور میلاد کارڈ روزنامہ جنگ کے قطعہ نگار اور ممتاز شاعر جناب رئیس امروہوی کی خدمت میں ارسال کیا۔ جواباً انہوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے موضوع پر لکھنے کی ترغیب دی۔ چنانچہ میں نے ’’عظیم المیہ‘‘ کے نام سے ایک طویل نظم لکھی۔ 1970ء میں سقوط مشرقی پاکستان سے قبل میرا پہلا مجموعہ کلام ’’خون رگ جاں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اگرچہ اس میں ملی نظمیں شامل تھیں اور سقوط ڈھاکہ کے آثار لاشعوری طور پر شعر کے قالب میں ڈھل گئے‘‘۔

اس بات میں رتی بھر شک نہیں کہ پاکستان کی محبت بھی ریاض بھائی کو وراثت میں ملی۔ ان کے نزدیک جو پاکستان کا دشمن ہے وہ میرے وجود کا بھی دشمن ہے۔ وہ سراپا پاکستان تھے اور وطن کی محبت کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے تھے۔ انہوں نے ملی شاعری بھی کیا خوب کہی۔

آؤ اپنے جسم چن دیں اینٹ پتھر کی جگہ
بے درو دیوار ہے لیکن یہ گھر اپنا تو ہے

پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کے حوالے سے ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔

کون دیکھے گا سرابوں میں سفر جاری ریاضؔ
ایک ویرانہ ہی آجاتا ہے ویرانے کے بعد

بلا مبالغہ بھائی ریاض خطرناک حد تک حساس طبیعت کے مالک تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سقوط ڈھاکہ کا المناک واقعہ رونما ہوا۔ بھائی بھائی سے جدا ہوگیا۔ زمیندار ایک انچ زمین پر مر مٹتا ہے۔ ہم نے آدھا ملک دشمن کی جھولی میں ڈال دیا۔ تب وہ بہت روئے۔

ایک ایک مرے باغ کی پتی بکھر گئی
اہلِ وطن پہ آج قیامت گزر گئی

برسوں بعد بھی وہ اس سانحے کو بھول نہ پائے جب بھی کوئی ڈھاکہ کا ذکر چھیڑ دیتا، وہ دکھ کی چادر اوڑھ لیتے۔

مادر وطن کو اجڑے ہوئے ایک زمانہ بیت چکا تھا کہ شہر قائد میں سقوط ڈھاکہ کی المناک کہانی دہرائی گئی۔ دو قومی نظریئے کو کراچی کے سمندر میں ڈبو دیا گیا۔ حقوق کے نام پر نفرت کی آگ بھڑکائی گئی۔ جس نے آناً فاناً پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ شہری موت کی وادی میں اتر گئے۔ ہر شخص ایک انجانے خوف میں مبتلا تھا۔ عدم تحفظ کا یہ عالم تھا کہ بقول ریاض حسین چودھری

ہوا ہے حکم پڑوسی کی چیخ کو سن کر
کواڑ بند رکھو، خامشی سے سو جائو

یہ وہ دور تھا جب چنگیز خاں کے ایک اشارے پر اللہ کی امانت اللہ کے سپرد کردی جاتی تھی۔ اس پُر آشوب دور میں اگر کسی شخص نے وقت کے یزیدوں اور فرعونوں کو للکارا تو وہ مولانا شاہ احمد نورانی تھے۔ ان پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے مگر ان کے پائے استقلال میں رتی بھر بھی لغزش نہ آئی۔

ریاض بھائی جنہوں نے ساری عمر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش نہ کہا تھا نوحہ کناں تھے کہ

کربلائے عصر کا منظر ہے میرے سامنے
ہر طرف شامِ غریباں کا دھواں نوحہ کناں
زندہ انسانوں میں بھی تقسیم ہوتے ہیں کفن
خون سے لکھی گئیں ہیں سرخیاں اخبار کی
خونِ ناحق بہہ رہا ہے کوچہ و بازار میں

المیہ کراچی کو گزرے ہوئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ سانحہ پشاور نے بھائی ریاض کو دکھی کردیا انہوں نے برملا کہا کہ دشمن نے ایک بار پھر ہماری نظریاتی سرحدوں پر بھرپور حملہ کیا ہے اور یہ کہ دو قومی نظریئے کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دی ہیں۔

مکتب شہر پشاور کے شہیدوں کو سلام
جو یقینا تھے مرے کل کی بلندی کے مکیں

عظمتِ رفتہ کو آواز نہ دوں تو کیا کروں
کھو گیا کیسے خرابے میں مسلسل گردوں

ریاض بھائی جامع الصفات شخصیت کے مالک تھے۔ جن کی سحر کا آغاز مدحت رسول سے ہو اور نصف شب کو اختتام بھی تقدیسی کلام کی تخلیق سے ہو، دن بھر جن کا قلم اللہ کے محبوب کی تعریف و توصیف میں گزرا ہو، یقینا ایسے بندے کا ظرف بھی اعلیٰ ہوتا ہے وہ سب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ جب بھی اپنے خالق سے مانگتا ہے تو نعتِ رسول کے فروغ کا صلہ مانگتا ہے:

اے خدا!

میں تجھ سے تیرے محبوب کی نعت کا صلہ مانگتا

وہ یہ کہ

میرے پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت فرما

اور

علم و حکمت اور دانائی جو مومن کی گمشدہ میراث ہے اسے پھر سے امت مسلمہ کا مقدر بنادے‘‘۔

صوفیائے کرام کی تعلیمات کا اثر تھا کہ وہ بلا امتیاز رنگ و نسل، مذہب و ملت دنیا بھر کے پسے ہوئے اور دبے ہوئے لوگوں کے لیے بھی دعا گو رہے کہ ان کی عزت نفس بحال ہو اور ہمیشہ سر اٹھا کر چلیں۔

ریاض حسین چودھری کی انسان دوستی کا یہ عالم تھا کہ ان کے حلقہ احباب میں تمام مکاتب فکر کے لوگ شامل تھے مگر وہ کبھی بھی کسی کے مسلک پر ’’حملہ آور‘‘ نہ ہوتے جب کہ اپنے مسلک پر مضبوطی سے قائم رہے۔

آپس میں جاں نثارو، تفرقہ نہ ڈالنا
کتنی عظیم ہے یہ وصیت حضورؑ کی

ریاض بھائی اکثر کہا کرتے تھے کہ

’’جب کوئی بھی شخص مجھے نعت سناتا ہے یا حضور کی شان بیان کرتا ہے کہ ریاض خوش ہوجائے تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ سارے جہاں کی خوشیاں میری جھولی میں ڈال دی گئی ہوں‘‘۔

بھائی ریاض کا ہم پر احسان ہے کہ انہوں نے اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ صرف ہمارے دلوں میں عشق محمدی کے چراغ جلائے بلکہ پاکستان کی محبت بھی اجاگر کی بلکہ ہمیں ایک صاف ستھرا ادبی ماحول بھی دیا۔ سکول ہی کے زمانے سے لکھنا پڑھنا ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ ہمارے ڈرائنگ روم کی میز پر ’’بچوں کی دنیا‘‘ اور دیگر وسائل ہمہ وقت موجود ہوتے۔ جب شعور پختہ ہوا تو ’’لیل و نہار‘‘، ’’ادبی دنیا‘‘ اور ’’فنون‘‘ جیسے جرائد پڑھنے کا موقع ملتا۔

کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ برخوردار محمد بلال امجد نے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے ایک روز انکشاف کیا کہ جب میں آرمی پبلک سکول میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میرے اردو کے استاد ہمیشہ مجھ پر شفقت فرماتے۔ کلاس میں کھڑے کرکے دو تین سو اشعار سنتے اور حیران ہوتے۔ مری عادت تھی کہ گھر پہنچ کر تایا ابو ریاض حسین چودھری کو بھیجی ہوئی کتابوں سے شعر منتخب کرکے کلاس میں سنا دیتا۔ اس پر سر واجد عش عش کر اٹھتے۔ دو شعر ابھی تک یاد ہیں جو آج بھی مجھے بے حد پسند ہیں۔

ارتعاش آگاہی کو اک نظر مطلوب سے
جھیل کے ٹھہرے ہوئے پانی کو کنکر چاہیے

اک اور

پھر سجائی گئی کھلونوں کی دکاں
پھر کوئی بچہ غم و یاس کی تصویر ہوا

آرمی پبلک سکول سے میٹرک کرنے کے بعد محمد بلال نے فیڈرل کالج میں داخلہ لے لیا۔ ایف ایس سی (پری انجینئرنگ) میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ گولڈ میڈل کا مستحق ٹھہرا۔ خود مجھے اس بات کی حیرت ہوئی ہے کہ سائنس کا طالب علم ہوتے ہوئے اس کا شعری ذوق نہایت عمدہ ہے۔ آج جب بھی انکل ریاض کے مشکل ترین نعتیہ اشعار سناتے سناتے اس کی پلکیں بھیگ جاتی ہیں۔ بسا اوقات ان کی تشریح بھی کردیتا ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ حلقہ ارباب ذوق اور دیگر ادبی تنظیموں میں ریاض حسین چودھری کا کردار فعال رہا جبکہ ڈپٹی کمشنر کی صدارت میں دفتری زبان اردو کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں باقاعدگی سے شرکت کرتے۔ یہ دور مشاعروں کا دور تھا۔ خصوصاً میونسپل کارپوریشن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مشاعروں میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتے۔ بلاشبہ شہر اقبال کی ’’ادبی دنیا‘‘ میں انہیں خصوصی مقام حاصل رہا ہے۔ یوں ریاض بھائی کے حواس خمسہ کی تربیت اور تصورات اور تخیلات کی آبیاری نعت رسول کی رم جھم میں ہوتی رہی۔ ادبی اور تخلیقی ذوق سانت پر سہاگا۔ خوب لکھتے، غزلیں، نظمیں، گیت ترانے اور امت کے درد کو سینے میں چھپا کر اسے لفظوں کی بنت دیتے رہتے۔

مختلف ادوار میں بالعموم اور 1976ء سے 1980ء کے دوران بالخصوص جناب احمد ندیم قاسمی، محترم حفیظ تائب، عارف عبدالمتین، عبدالعزیز خالد، خالد احمد، عطاء الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، دلدار بھٹی، حافظ لدھیانوی، راجہ رشید محمود، منیر قصوری، آثم مرزا، اصغر سودائی، ارشد طہرانی، پروفیسر اکرم رضا، گلزار بخاری، اعزاز احمد آذر، رفیق ارشد، عباس اثر، ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی اور دیگر کئی ایک ادبی شخصیتوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔

ادبی محاذ پر ریاض بھائی محترم احمد ندیم قاسمی کے زبردست مداح تھے۔ دونوں احباب جوہر شناس تھے۔ ایک دوسرے کو خوب پہچانا اورجانا۔ جس کا بخوبی اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کم و بیش تیس سال تک رابطے میں رہے۔ ان میں محبت، اخوت اور بھائی چارے کا جو تعلق پیدا ہوا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

آغا صادق صاحب ملتان کی ’’ادبی دنیا‘‘ کے بے تاج بادشاہ تھے۔ ریاض بھائی ان سے رہنمائی حاصل کرتے۔ دونوں حضرات میں خط و خطابت کا سلسلہ تقریباً پندرہ سال پر محیط ہے۔ اور یہ یقینا ایک ایسا انمول رابطہ ہے جس سے آدھی ملاقات ہوجاتی ہے۔ بسا اوقات گمان ہوتا کہ آغا صاحب ہمارے درمیان موجود ہیں۔

جس دور میں ریاض بھائی ’’مرے کالج میگزین‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ان کی شناسائی اقبال منہاس سے ہوئی۔ پھر رفتہ رفتہ اس حد تک قریب ہوگئے کہ اٹھنا بیٹھنا ایک ساتھ رہا۔ اقبال منہاس اچھے افسانہ نگار تھے۔ ہم پر بے پناہ شفقت فرماتے۔ وقت گزرتا گیا۔ ایک معلم کی حیثیت سے یمن کے دارالحکومت صنعا جاپہنچے۔ جہاں موت ان کی منتظر تھی۔ حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے۔ ان کی ناگہانی موت نے ریاض بھائی کو دکھی کردیا۔ جب بھی مرحوم کا ذکر خیر ہوتا ریاض بھائی آنکھیں بند کرلیتے اور گہری سوچ میں ڈوب جاتے۔

ریاض بھائی اور پروفیسر آفتاب احمد نقوی کی سوچ اور فکر میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ وطن سے غیر مشروط محبت اور تاجدار دو عالم سے والہانہ عشق کی دولت سے مالا مال تھے۔ جب بھی ایک ساتھ مل بیٹھتے عموماً ان کا موضوع نعت ہی ہوتا۔ نقوی صاحب شہر اقبال میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے۔ ہم پر بے پناہ شفقت فرماتے پھر لاہور چلے گئے۔ جہاں وہ ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی کے نام سے معروف ہوئے۔ موصوف ریاض بھائی کی نعت گوئی کے حوالے سے اہم کام کرنے جارہے تھے کہ موت نے مہلت نہ دی۔ اس روز علم بانٹنے کے لیے گھر سے نکلے ہی تھے کہ دہشت گردی کا شکار ہوگئے۔ دہشت گردوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کرکے انہیں شہید کردیا۔ ان کی شہادت کی خبر ہم پر بجلی بن کر گری۔ بھائی ریاض سکتے میں آگئے۔ جب سنبھلے تو پھوٹ پھوٹ کر روئے۔

ٹوٹ کر برسا نہ تھا کب میری آنکھوں کا لہو
کب میرے اندر کا انساں رات بھر رویا نہ تھا

ریاض حسین چودھری اور محترم حفیظ تائب یک جان و دو قالب تھے۔ نعت کے حوالے سے ان میں جو تعلق پیدا ہوا وہ خلوص نیت پر مبنی تھا۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ دونوں حضرات ایک دوسرے کے مرید تھے۔ حفیظ تائب ریاض بھائی ہی نہیں ہم سب کے آئیڈیل تھے۔ انہیں ہمارے گھر میں فیملی ممبر کی حیثیت حاصل تھی۔ آج جب انکل حفیظ کا ذکر خیر ہوتا ہے ان کے نعتیہ اشعار ہونٹوں پہ مچل جاتے ہیں۔

قدموں میں شہنشاہ دو عالم کے پڑا ہوں
میں ذرّہ ناچیز ہوں یا بختِ رسا ہوں

اب کون سی نعمت کی طلب رب سے کروں میں
دہلیز پہ سلطانِ مدینہ کے کھڑا ہوں

شروع میں ریاض حسین چودھری ریاض عارفی کے نام سے معروف ہوئے پھر خیال آیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میرا نام نام حسین سے جدا ہو۔ مجھے تو زندگی میں جتنی پذیرائی ملی وہ حسین کے نانا کے صدقے میں ملی۔ وہیں عارفی کے تخلص کو خیرباد کہہ دیا۔ اہل بیتؓ سے ان کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ

ہر سال محرم میں چھلک پڑتی ہیں خود ہی
یہ آل پیمبر کی وفادار ہیں آنکھیں

حسن اتفاق سے امام احمد رضا خاں کا ایک شاگرد استاد داغ کا بھی شاگرد تھا۔ ایک موقع پر مرید خاص نے استاد داغ کے روبرو جب اپنے پیرو مرشد کا ایک نعتیہ شعر:

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں

نہایت پُرسوز انداز میں پڑا تو حیران ہوئے۔ کہنے لگے کہ عالم دین ہو کہ اتنا عمدہ شعر کہتے ہو۔ اکثر سوچتا ہوں کہ اگر استاد داغ ریاض حسین چودھری کی ایک نعت کا مندرجہ ذیل شعر سن لیتے:

غبار شہرِ مدینہ سے التجا کر کے
چلو بہار کے خاکے میں رنگ بھرتے ہیں

تب ان کا ردعمل بھی وہی ہوتا کہ چودھری ہو کر اتنا اچھا شعر کہتے ہو۔

حفیظ تائب اس بات کے راوی ہیں کہ ڈاکٹر آفتاب نقوی شہید کے سوال: آپ نعت گوئی کی طرف کب مائل ہوئے؟ بنیادی حرکات کیا ہیں؟ جواب میں ریاض حسین چودھری نے لکھا۔

’’یوں لگتا ہے ازل سے میری روح حصار عشق محمد میں پناہ گزیں ہے۔ ازل سے انہی قدوم مبارک میں جبین نیاز سربسجود ہے۔ شعور کی آنکھ کھولی تو گھر میں اللہ اور اس کے محبوب کے ذکر اطہر سے فضا کو مسحور پایا۔ میں شعوری طور پر نعت کی طرف مائل نہیں ہوا۔ اس لیے بنیادی محرکات کی توجیہہ کرنے سے قاصر ہوں۔ ‘‘

ڈاکٹر فرمان فتح پوری رقمطراز ہیں کہ ’’ریاض حسین چودھری کو شرف نعت منجانب اللہ ملا ہے یہ عطیہ خداوندی ہے۔‘‘

ممکن نہ تھا کہ زیست میں کھلتے ثناء کے پھول
روزِ ازل الست نعت لبوں پر اگر نہ تھی

محترم شیخ عبدالعزیز رقمطراز ہیں کہ ریاض ہمیں آگہی عطا کرتے ہیں کہ فنِ تخلیق کا شاہکار نعت ہے کیا۔

نعت کیا ہے رات کے پچھلے پہر کا انکسار
نعت کیا ہے اک عطائے رحمتِ پروردگار

دل کی ہر دھڑکن کہے یا مصطفی تو نعت ہو
حکم دے میرے قلم کو جب خدا تو نعت ہو

ڈاکٹر خورشید رضوی کی اس بات میں رتی بھر شک نہیں کہ ریاض حسین چودھری کی نعت میں ہمارے دور کے سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی آشوب کا درد و سوز رچ بس گیا ہے۔

مسند ازل پر فائز ہے ہوس مرے حضور
ایک محشر ہے بپا روزِ جزا سے پہلے

یہ عطائے رب جلیل ہے کہ ریاض بھائی کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ شعری مجموعوں کی تعداد 25 کے لگ بھگ ہے تاہم یہاں اختصار سے کام لیتے ہوئے ان کے دو نعتیہ مجموعوں کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔

ڈاکٹر اسحاق قریشی بیان کرتے ہیں کہ ’’طلوع فجر‘‘ ایک مسلسل نظم ہے۔ چھ ہزار مصرعوں پر محیط ہے۔ ہر بند کا سرنامہ ایک خبر یہ مصرع ہے۔

افلاک پہ دھوم ہے آتے ہیں وہ رسول

سلطان ناصر کے الفاظ میں ’’یہ نظم کیا ہے گویا جشن ولادتِ حبیب کا ترانہ ہے۔

ڈاکٹر شبیر احمد قادری رقمطراز ہیں کہ ’’تمنائے حضوری‘‘ بیسویں صدی کی آخری طویل نظم ہے۔ اس کی اساس مندرجہ ذیل مصرع پر رکھی گئی ہے:

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے رب کریم
دست بوسی سے کبھی مجھ کو نہ ملتی فرصت
شہرِ سرکار کے بچوں کا کھلونا ہوتا

ہمارے ہاں عموماً ہر کام میں کوانٹٹی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ رب العزت کی عطا سے بھائی ریاض کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے کوالٹی اور کوانٹٹی کو اس انداز میں یکجا کیا کہ ان کے پورے کلام کو وہ پذیرائی ملی کہ بس۔

نعت گوئی کے میدان میں ریاض حسین چودھری کی خدمات کا اعتراف قومی سطح پر کیا جاچکا ہے۔ ان کی زندگی میں انہیں چھ نعتیہ مجموعوں پر صدارتی ایوارڈ دیئے گئے۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت کی طرف سے سیرت ایوارڈ بھی حصے میں آئے مگر قربان جایئے ان کی عظمت پر کبھی بھی ان کی طبیعت میں غرور اور تکبر کا شائبہ تک پیدا نہ ہوا۔ ہمیشہ عاجزی میں رہے۔ جھکے تو خدائے بزرگ و برتر کے حضور، بکے تو بازارِ مصطفی میں۔

یہ امر باعث اطمینان ہے کہ بعد از مرگ ریاض بھائی کے تین نعتیہ مجموعے ’’کائنات محوِ درود‘‘، ’’لامحدود‘‘ اور ’’برستی آنکھوں خیال رکھنا‘‘ ہمارے ہاتھ میں ہیں جبکہ ایک اور مجموعے پر انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

وصال سے چند روز قبل ریاض بھائی ایک مقامی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ ہمارے بہنوئی ڈاکٹر اعجاز رسول عیادت کے لیے آئے تو خاصی دیر تک ان سے باتیں کرتے رہے۔ دوران گفتگو جوں ہی ڈاکٹر صاحب نے تازہ کلام سنانے کی فرمائش کی تو بھائی صاحب کے چہرے پر عجیب چمک پیدا ہوئی۔ لمحہ بھر کے توقف کے بعد دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ جو نعتیہ شعر سنانے جارہا ہوں وہ میری زندگی کا آخری شعر ہے وقت بھی نوٹ کرلیں اور شعر بھی۔

میں اکثر سوچتا رہتا ہوں اے کونین کے مالک
تری جنت مدینے سے کہاں تک مختلف ہوگی

یہاں ریاض بھائی کے ایک ایسے دوست کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی جن کی ان سے والہانہ محبت ریاض بھائی کی نعت کی اشاعت، شعور نعت کے فروغ اور ان کے وصال کے بعد ان کی حمد و نعت پر تحقیقی کام کے آغاز، نشر و اشاعت اور وسعت ابلاغ کے لئے وہ کام کر گئی جس کا تصور خود ریاض بھائی نے بھی نہ کیا ہوگا۔ ان کے یہ روحانی دوست شیخ عبدالعزیز دباغ ہیں جن سے ان کی پہلی ملاقات 2000ء میں فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ لاہور میں ہوئی۔ ہم کبھی کبھی یہ جملے بھائی سے سنتے تھے: ’’عزیز صاحب ! وعدہ کریں آپ میرے ساری کتابوں کو شائع کریں گے۔ میں نے بہت نعت لکھی ہے مگر کیا وہ انہیں ڈائریوں ہی کی نذر ہو کر رہ جائے گی۔ ‘‘ شیخ دباغ کو 2011ء میں کیا تحریک ہوئی کہ وہ ریاض بھائی کے پاس آئے، ان کی آزردگی کو سنا اور جاتے ہوئے’’ غزل کاسہ بکف‘‘ کے قلمی نسخے کی ایک کاپی اپنے ساتھ لے گئے۔ پھر ہم نے یہ دیکھا کہ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں وہ کتاب چھپوا کر ریاض بھائی کو بھیج چکے تھے۔ اگلے سال پھر ایسا ہی ہوا اور آبروئے ما چھپ گئی حتیٰ کہ مرض الموت کے دوران ’’لا محدود‘‘ اور کائنات محو، درود ہے‘‘ دونوں نسخے پریس میں زیر طباعت تھے جو بھائی دیکھنے سے پہلے ہی وصال فرما گئے۔ وفات پر مدثر بیٹے نے اپنے ابو کی آواز کی ریکارڈنگ سب کو سنائی جس میں وہ کہہ رہے ہیں: ’’مدثر بیٹے! زندگی میں میری نعت کے جملہ ریکارڈ کے حوالے سے عزیز صاحب کے علاوہ کسی پر بھروسہ نہ کرنا۔ ‘‘

آج وہ شیخ عبدالعزیز دباغ ریاض بھائی کی جملہ کتب پر riaznaat.com کے نام سے ویب سائیٹ بنا چکے ہیں۔ bazm-e-riazکے نام سے APP بنا چکے ہیںان کے جملہ نعتیہ مجموعوں کی اشاعت مکمل کر چکے ہیں اور ان پر تین تحقیقی کتب کی تصنیف اور ترتیب و تدوین کا کام بھی مکمل کر چکے ہیں۔ شیخ دباغ بھائی ریاض کے لئے جس انہماک سے بے لوث خدمات پیش کرتے ہیں اس کا ادراک ہمارے بس میں نہیں۔ دونوں کا کیا معاملہ رہا اور کیا ہے اسے تو رب نعت کی حکمت ہی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں۔ رب کریم انہیں جزائے خیر دے۔ آمین۔