جدید لہجے کا نمائندہ مدحت نگار - پروفیسر محمد اکرم رضا- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن
[پروفیسر محمد اکرم رضا کی نعت پر خوبصورت کتاب ’’کاروانِ نعت کے حدی خواں‘‘ 1989ء میں شائع ہوئی جس میں انہوں نے ریاض کی نعت پر اپنا یہ مضمون بھی شامل کیا جب ابھی ریاض کا کوئی مجموعہ نعت طبع نہیں ہوا تھا۔ ان کا پہلا مجموعہ نعت ’’زرِ معتبر‘‘1995ء میں چھپا تھا اور یہ اس کلام پر مشتمل تھا جو ریاض1985ء میں روضۂ رسول پر حاضری سے پہلے لکھ چکے تھے۔ ان کے مطابق ’’زرِ معتبر کے مشمولات وہ سارا کلام ہے جو انہوں نے دربارِ رسالت ﷺ میں بصد ادب پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ پروفیسر محمد اکرم رضا کا یہ طویل مضمون اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ انہوں نے ریاض پر اس وقت قلم اٹھایا جب ابھی ان کی نعت کا پہلا مجموعہ مکمل تو ہو چکا تھا مگر طبع نہیں ہوا تھا، نہ ہی انہوں نے ابھی تک تحریک منہاج القرآن کے پندرہ روزہ تحریک کی ادارت کی ذمہ داری ہی سنبھالی تھی۔ شیخ دباغ]
..........
محسن کائنات، مجمع الصفات، جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت قدسی کی صورت میں امتِ اسلام کو جو لازوال فیوض و برکات عطا ہوئے ہیں، عقل انسانی ان کا کماحقہ ادراک نہیں کرسکتی۔ ظہور مصطفویؐ کی بدولت وہ تمام تاریکیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کافور ہوگئیں، جنہوں نے مدتوں سے عرصہ حیات کو ظلمت آلود کر رکھا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے عالمِ انسانیت کی اس طور رہنمائی فرمائی کہ تشکیک و اوہام زدہ قلوب اور اذہان عظمت توحید اور شان رسالت کی روشنی سے جگمگا اٹھے۔ احسانات مصطفی ﷺ کی بارانِ رحمت ویران و بنجر دلوں پر اس شان سے برسی کہ دلوں میں امتنان و تشکر کے عطر بیز گلزار کھلنے لگے اور نطق ہستی صفت و ثنائے حضور کے لیے ترنم ریز ہوگیا۔ چار جانب تحدیثِ نعمت اور اظہار عقیدت کے طور پر نعت رسول کریم ﷺ کی صورت میں توصیفِ رحمۃ للعالمین کے سامان مہیا ہونے لگے۔
نعتِ رسول کریم ﷺ نے کائنات کے لمحہ لمحہ سے اپنی عظمتوں کا خراج لیا ہے اور ہر زبان اور اسلوب کے شعراء نے اپنے فکرو تخیل کا بہترین حصہ ثنائے حضور ﷺ کے لیے وقف کرکے دربار سرورِ لولاکؐ میں عقیدتوں کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ ماضی کے ایوانوں میں ضوفگن ہونے والی شمع نعت زمانہ حال کے شعری شبستانوں کو ایمان افروز جلوہ پاشیوں سے منور کررہی ہے اور مستقبل کے دھندلکے ابھی سے اس شمع لازوال کی تابشوں سے روشنی پاتے نظر آرہے ہیں۔ عصر رواں کا ہر شاعر توصیفِ رسولؐ کو اپنی حیات مستعار کا مرکز اور محور قرار دے کر اپنی عقیدتوں کی متاعِ بے بہا حضورؐ کے نام کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ شعراء کا یہ نذرانۂ مدحت اظہار تشکر بھی ہے اور اپنی بخشش و سرخروئی کے لیے عجز گزاری کا اہتمام تھی۔
عہد جدید کے جو شعراء مدحت محمد رسول اللہ ﷺ کو اپنا جمال فکر و فن قرار دیئے ہوئے ہیں ان میں سے ایک سربلند نام ریاض حسین چودھری کا ہے۔ جو ایک عرصہ سے اپنے آقا و مولاؐ کی توصیف کے لیے کشت ایمان و یقین میں محبتوں کے لالہ و گل کھلا رہے ہیں۔ ریاض حسین چودھری کی مدحت نگاری فقط نمود فن اور نمایشِ فکر یا شاعری برائے شاعری تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وہ تو اپنی شاعری کو پیمانۂ طلب سمجھتے ہوئے اس کے ذریعے حضورؐ کی رحمت طلبی کے انداز ڈھونڈتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کی عقیدت عارضی یا وقتی نہیں ہے بلکہ وہ تو اسے وقتِ اجل سرمایۂ قرار اور ہنگامِ محشر میں ذریعہ بخشش تصور کرتے ہیں۔ حضور سے غلامی کی نسبت رکھنے پر ناز کرتے اور حضور کے عقیدت گزاروں میں اپنا شمار ہونے کے لیے ملتجی رہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں۔
آنکھوں میں نور، دل میں بصیرت ہے آپؐ سے
میں خود تو کچھ نہیں، مری قیمت ہے آپؐ سے
ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری میں آرزوئوں کی چمک اور تمنائوں کی دمک جلوہ گر نظر آتی ہے۔ آلامِ روزگار کی تمازتوں میں بھی وہ رحمت کونین ﷺ کی عنایات بے کراں کی باد خنک کو فراموش نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حضور ﷺ کی رحمت اپنوں اور بیگانوں پر یکساں ہے۔ آپؐ ہر غمگسار کے مونس اور ہر قلب مضمحل کی آخری ڈھارس ہیں۔ ریاض حسین چودھری کی نعتیں اس روحانی کسک اور سوزِ دروں کی غماز ہیں، جن کا ادراک محب کے لیے اس قدر محترم اور عزیز ہے کہ وہ اسے کسی صورت بھی حتیٰ کہ زندگی کی قیمت پر اپنے باطن سے جد اکرنا گوارا نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہی کسک اسے ہجر و فرقت کے لمحات میں، تصورات کے نہاں خانوں میں جمالِ محبوب کی نظارگی عطا کرتی ہے۔ ریاض حسین چودھری نے اپنی نعت نگاری میں اسی سوز دروں اور کسک لازوال کو پروان چڑھایا ہے اور اس امید کے ساتھ اپنا خون جگر اس کی نذر کیا ہے کہ یہی کسک ایک روز اس شفیع المذنبین کی کرم فرمائی کا باعث بنے گی، جس کے لطف و کرم کے تصور ہی سے تمنائوں کے غیر آباد جزیرے سامان زندگی پانے لگتے ہیں۔ اسی لیے ریاض اپنی مدحت نگاری میں کرم فرمائی حضورؐ کو اولیت دیتے ہیں، ملاحظہ کیجئے:
تو سب کے لیے عافیت کی نشانی، تو سب کے لیے ملکِ رحمت کا بانی
تو مجھ سے گنہگار کا بھی ہے سرور، سراجاً منیرا، سراجاً منیرا
درودوں کی رم جھم سے شاداب لمحے، ابلنے لگے ہیں محبت کے چشمے
تو جود و اخوت، عطا کا سمندر، سراجاً منیرا، سراجاً منیرا
تو ملک خدا کا ہے سلطان عالی، تو اسم شفا، تو یتیموں کا والی
ادھر بھی کرم کی نظر بندہ پرور، سراجاً منیرا، سراجاً منیرا
بقا کی، نہ عمرِ دوامی کی مانگی دعا جب بھی مانگی غلامی کی مانگی
نہ مانگے کبھی میں نے لعل و جواہر، سراجاً منیرا، سراجاً منیرا
ازل سے محبت کا تو استعارہ، ابد تک لٹی زندگی کا سہارا
غریبوں کی دنیا کا مہرِ منور، سراجاً منیرا، سراجاً منیرا
کراں تا کراں آگہی کا اجالا، زماں تا زماں روشنی کا اجالا
افق تا افق صبح روشن کا منظر، سراجاً منیرا، سراجاً منیرا
ریاض حسین چودھری اِس دور کے نمائندہ شاعر ہیں جو ا ٓلام روزگار کی شدتوں کا شکار ہے جو حقائق سے عاری اور سرابوں کا پجاری ہے۔ جو اسلام کی عظمتوں سے نا آشنا اور ایمان کی رفعتوں سے بے بہرہ ہے، جو اسلاف کی شوکتِ رفتہ کو قصہ پارینہ سمجھتا اور ہر باطل نظام کو اپنے دکھوں کا مداوا تصور کرنے کا عادی ہے۔ شاعر کو اس دورِ پُر آشوب کی فکری ناہمواریوں اور عملی کجروی کا شدت سے احساس ہے کہ اس مادی دور میں جب کہ تہذیب کی قدریں ہر آن تیزی سے بدلتی ہیں، انسان محض مشین بن کر رہ گیا ہے، ماضی سے بے گانہ، مصلحت کے طلسم میں گم، آج کا مسلمان اب اپنے نام کی لاج رکھنے سے بھی قاصر نظر آتا ہے۔
ریاض حسین چودھری عظمت اسلام سے بے بہرہ مسلمان کی کم نظری اور کوتاہیٔ ذوق کو دیکھتے ہیں تو ان کا احساسِ دل تڑپ اٹھتا ہے۔ انہیں یہ احساس بے پناہ دکھ دیتا ہے کہ وہ قوم جو کبھی اقوام عالم کو دانش و حکمت کے اجالے عطا کیا کرتی تھی آج بھکاریوں کی طرح ظلمت کدوں سے روشنی مانگ رہی ہے۔ وہ قوم جو کبھی ستاروں پر کمندیں ڈالتی اور ارض و سماء کی بلندیوں کو پائوں سے روندتی تھی، آج بے بسی و لاچاری کی تصویر بن کر اغیار کی دست نگر بن چکی ہے۔ ریاض ماجرائے الم بارگاہِ مصطفوی میں سنانے کو بے قرار ہیں۔ اپنی رسوایوں کی داستان سنانا چاہتے ہیں۔ مگر ندامت کا احساس غالب آجاتا ہے کہ کہیں حضورؐ رحمت پناہِ عالم میرا نامۂ اعمال دیکھ کر منہ نہ پھیرلیں۔ آہستہ آہستہ یہ احساس جنم لیتا ہے کہ اپنا افسانۂ الم آقا و مولا ﷺ کے سوا اور کس کو سنا سکتا ہوں۔ خدا کی رحمت کی بھیک مانگنی ہے تو شفاعتِ مصطفیؐ کے وسیلے سے ہی ملے گی۔ یہ سوچ کر ہمت بندھتی ہے کہ اچھا ہوں یا برا ہوں آخر کو آپؐ ہی کا امتی ہوں اور آپ ہی کا لطف و کرم امت کو طوفانِ الم کے منجدھار سے نکال کر ساحل بکنار کر سکتا ہے۔ انہی فرحت بخش جذبات کو سینے میں سموکر ریاضؔ بصد عجز و احترام عرض گزار ہوتے ہیں۔
یا محمدؐ اجازت اگر ہو مجھے تو رقم میں کروں ظلم کی داستاں
چشم تر میں جو محفوظ ہیں اب تلک آنسوئوں کے وہ موتی گراتا چلوں
زخم اپنے دکھانے چلا ہوں مگر بوجھ اتنا ندامت کا ہے روح پر
بارگاہ نبیؐ میں پہنچ کر تو میں دونوں ہاتھوں سے منہ کو چھپاتا چلوں
ہر طرف خیمہ گاہوں میں آہ و فغاں، دشتِ غربت میں نوحہ کناں بیبیاں
تھام کر روضہ پاک کی جالیاں، میں کہانی دکھوں کی سناتا چلوں
یہ بھی کہتا چلوں سرورؐ دو جہاں، تری امت سر بزم ہے بے نشاں
آگ ہی آگ ہے اور تری بستیاں، راکھ کس کس کی جھک کر اٹھاتا چلوں
پھر گرفتِ قضا میں ہیں دانائیاں، چھین لے مجھ سے قدرت یہ بینائیاں
جس قدر بھی ہیں دامن میں رسوائیاں، سیلِ اشک رواں میں بہاتا چلوں
خوف کی رات میں جبر کے ہاتھ سے دامن جاں کی اڑنے لگیں دھجیاں
جب خبر سے تجھے یا نبی کس لیے زرد چہروں کے منظر دکھاتا چلوں
ریاض حسین چودھری الطافِ رسولؐ کی دھائی دیتے ہوئے جہاں افسانۂ الم سناتے ہیں، وہاں سزا وار رحمت بننے کا اظہار بھی کرتے ہیں اور اپنی تمام فکری توانائیاں مجتمع کرتے ہوئے سسک پڑتے ہیں۔
آپ لطف و کرم یونہی فرمایئے، رحمتوں کو اشارا سا کر جایئے!
کس کی چوکھٹ کو تھامیں کدھر جائیں ہم اور بھی ہے کوئی آستاں یانبی
امت ناتواں کو بھی خیبر شکن ساعتوں کی عطا کیجئے کنجیاں
ان دنوں میں مقفل نئے ولولوں آرزوئوں کے دونوں جہاں یا نبیؐ
ہے ریاضؔ اپنے گنبد کی ٹوٹی صدا، بے کفن مقتلوں کی سسکتی ہوا
یا محمد کرم، یامحمد کرم، ٹوٹ جائے، نہ سلکِ فغاں یا نبیؐ
دربارِ حضور سرور کائنات ﷺ میں داغہائے الم نذر کرتے ہوئے ریاض حسین چودھری صرف اپنی ذات کو ہی حوصلہ نہیں دیتے بلکہ امت اسلام کی بیچارگی کو غم کائنات میں سموکر پیش کرتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ جب تک شاعر اپنی ذات کے خول سے نکل کر اجتماعی آلام اور امت اسلام کو درپیش مصائب و مسائل کا ادراک نہیں کرتا، اس وقت تک اس کا پیمانۂ ظرف وسیع نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی زبان میں اسی شاعر کو حیاتِ دوام حاصل ہوئی ہے جو آفاقیت کا نقیب اور بین الملی فکر کا علمبردار ہو جو اپنے وجود اور ذاتی انا سے بلند ہوکر زمانے بھر کی مشکلات کو بیان کرنے کا سلیقہ اور ظرف رکھتا ہو۔ ریاض نے جب بھی بارگاہ رسول میں عرض گزاری کو لب کھولے ہیں تو ملت کے حوالے سے ہی راہوارِ قلم کو آگے بڑھایا ہے اور اپنی ذات کو ملتِ مصطفویؐ میں ضم کرکے اپنے جذبات پیش کیے ہیں۔ انہوں نے اپنے علاقہ، ماحول اور مخصوص زبانی ومکانی فضائوں سے پرواز کرتے ہوئے ہر اس دکھ اور کرب کی لہر کو محسوس کیا ہے، جس سے فرزندان اسلام دو چار ہیں۔ کشمیر کے بے بس و لاچار محکوموں کا ذکر ہو، یا فلسطین میں زندگی کا حق مانگنے والے مظلوم مسلمانوں کی داستانِ الم، اریٹیرا کے مسلمان فرزندان آزادی کا جذبہ جرأت ہو، یا قبرص اور افغانستان میں اہل ایمان کی بے مثال جرأت و عزیمت وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں کو درپیش خطرات کا ذکر ہو یا مسلمانوں کی مٹتی ہوئی تہذیبی اقدار کا نوحہ، ریاض حسین چودھری نے نہایت خلوص فکر، شعری ابلاغ اور روحانی درد و سوز کے ساتھ امت اسلام کی مظلومیت و بے چارگی کو اپنی نعتیہ شاعری کا خصوصی حوالہ بنایا ہے۔ اس ضمن میں چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
تیری امت کے زخموں کی قندیل سے
وادیوں میں چراغاں ہوا یا نبیؐ
اک جمودِ مسلسل اذانوں میں ہے
رک نہ جائے یمِ ارتقا یا نبیؐ
جسم و جاں کی بکھر جائیں گی پتیاں
سر پہ ٹھہری ہے شامِ بلا یا نبیؐ
جبر کی قوتیں دندناتی پھریں
ظلم کی ہو گئی انتہا یا نبیؐ
صحنِ اقصیٰ سے کابل کی دہلیز تک
اک کہرام سا ہے بپا یا نبیؐ
آگہی کے صحیفوں کے اوراق کا
خون آلود ہے حاشیہ یا نبیؐ
ڈوبتی کشتیوں کو سہارا ملے
ناخدا بن رہی ہے ہوا یا نبیؐ
ان کی ایک طویل نعتیہ نظم ’’نئے دن کا سورج‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
یا نبیؐ بے ردا جسم ہیں منتظر اب زمانے ہوئے
طاقِ نسیاں پہ رکھی پرانی کتابوں کو بوسیدہ
اوراق کی روشنی میں
عقیدتوں کی محراب جھکنے لگی ہے
ہمارا مقدر سیہ ساعتوں کی نحوست
بے جہت منزلوں کا سفر
روشنی بھی اندھیروں کی پازیب ہے
یانبیؐ بے نوا باندیوں کے بدن وقت کے ناخنوں کی
خراشوں سے پہچان کی منزلوں کا نشاں بن گئے ہیں
حکم ان کو سنایا گیا ہے صلیب بدن پر یہی
زندگی اپنے اشکوں کی دہلیز پر آخری ہچکیوں
کی نمائش کرے
ایک صاحب ایمان کی طرح ریاض حسین چودھری کے دل و دماغ میں بھی ہر آن مدینہ منورہ کے جلوے بسے رہتے ہیں۔ ان کا تصور اسی شہر عظیم کی یادوں کے حسن سے آباد ہے۔ حضور ﷺ سے عقیدت کے سبب انہیں مدینہ منورہ انوار مصطفویؐ کا مظہر نظر آتا ہے، یہی وہ شہر ہے کہ جس کے کوچہ و بازار نے نبی کریم کے قدم چومے ہیں، یہاں کی زمین سرورِؐ لولاک کی راہ گزر بنی ہے۔ یہاں کے ذروں نے نجوم کہکشاںکے حسن کو مات دی ہے کہ یہ شہرِ سر بلند حضورؐ کا شہر ہے اور یہیں وہ گنبد خضریٰ ہے کہ جس کی ایک جھلک ہی دلوں کی دھڑکنیں تیز تر کردیتی ہے۔ یہ وہی گنبد خضریٰ ہے کہ جس کی چھائوں میں سلطانِ دو عالم آرام فرمارہے ہیں۔ اس شہر کی زیارت اور یہاں کے تاریخ ساز آثار کا نظارا ہر مسلمان کی اولین ترجیح ہے۔ ریاض حسین چودھری نے بھی اس وادی نور کے حسن کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے اور اپنے اشعار میں اس شہر سے عقیدت کے ناطے سے نئے نئے مضامین پیدا کیے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے حوالے سے ذکر محبوب کرتے ہوئے خود بھی لطف اٹھایا ہے اور اپنے نعتیہ کلام کے حوالے سے دوسروں کے ایمان کو بھی جلا بخشی ہے۔ مدینہ طیبہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی کیفیت دیدنی ہوتی ہے۔ کہیں ذکر تو مدینہ کا کرتے ہیں مگر اصل میں وہ والئیؐ مدینہ سے مخاطب نظر آتے ہیں، کہیں مدینہ کے ذراتِ خاک کا ذکر اس عقیدت سے کرتے ہیں کہ ہر ذرہ رشکِ نجوم فلک محسوس ہونے لگتا ہے۔ کہیں مدینہ کی وادیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس درجہ مستغرق نظر آتے ہیں کہ یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے یہ ان وادیوں کے انوار کو ایک پیکر نور میں ڈھلتے ہوئے دیکھ رہے ہوں۔ ذکر مدینہ کرتے ہوئے ان کے اشعار میں ہجرو فرقت کا انداز بھی جھلکتا ہے اور سر خوشی و سرشاری کی کیفیت بھی جلوہ گر نظر آتی ہے۔ آرزوئوں کی خامکاری بھی نظر آتی ہے اور جذبات کی آسودگی بھی۔ حسرت عرض تمنا کا گماں بھی ہوتا ہے اور امیدوں کی بارات بھی سجی نظر آتی ہے۔ شہر مدینہ کے حوالے سے موضوعات کی یہ رنگا رنگی کسی فکری تضاد کے سبب نہیں ہے بلکہ شاعر مختلف کیفیات کے حوالے سے اس شہر کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے ذوق و شوق کی تسکین کا سامان ڈھونڈ رہا ہوتا ہے کہ
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
ریاضؔ کی جذباتی کشاکش کے اظہار کے لیے چند اشعار نذر قارئین ہیں:
مضافاتِ مدینہ کے میں سب آثار کو چوموں
نگاہوں سے کروں سجدے درو دیوار کو چوموں
لپٹ جاتے ہیں جو ہر زائرِ طیبہ کے قدموں سے
میں ان ذروں کو، ان رستوں کو، ان اشجار کو چوموں
سجی رہتی ہیں جس میں گنبدِ خضریٰ کی تصویریں
نہ کیوں میں جھوم کر اس دیدۂ بیدار کو چوموں
چلی ہے بن کے جوگن تو مرے آقا کی گلیوں میں
صبا تیری بلائیں لوں، تری رفتار کو چوموں
ہوا مٹھی میں بھر لائی ہے کنکر ان کی چوکھٹ کے
زرِ خاص دیارِ احمدؐ مختار کو چوموں
کہاں فرصت میسر ہے مجھے پلکیں جھپکنے کے
حریم چشمِ تر میں جھومتے انوار کو چوموں
دیارِ حسن عقیدت کا تذکرہ کیجئے
صبائے شہر مدینہ چلے خدا کے لیے
میں رہ گزارِ تمنا میں کس طرف دیکھوں
بجز دیار نبی موجۂ ہوا کے لیے
.............
سجا کر اس کو پلکوں پر کروں گا رقص گلیوں میں
صبا لائی مدینے سے حضوری کا اگر نامہ
قدم اٹھیں کے جب شہرِ محمدؐ کی طرف میرے
قلم بند اپنے اشکوں سے کروں گا میں سفر نامہ
..............
لبریز خوشبوؤں سے مناظر حجاز کے
آنکھوں کے سامنے سے گزرتے ہیں آج بھی
اس شہر دل پذیر کی گلیوں کے ذکر سے
پلکوں پہ آئینے سے چمکتے ہیں آج بھی
پہروں وہ بیٹھنا درِ اقدس کے آس پاس
پیشِ نگاہ چاند سے چہرے ہیں آج بھی
وہ بابِ جبرائیل، وہ مینار، وہ ستون
چشمِ تصورات میں بستے ہیں آج بھی
اور پھر وہ ساعتیں بھی آگئیں کہ ریاض کو دیارِ رسولؐ کی حاضری نصیب ہوگئی۔ ایک محب کو جب دیارِ محبوبؐ کی دید نصیب ہوجائے تو پھر اس کی وارفتگی دیدنی ہوتی ہے۔ ریاضؔ نے مدتوں سے شہر حضورؐ کو دل و جاں میں بسا رکھا تھا۔ تصور میں اس کی نظارگی کو اپنا معمول بنا رکھا تھا۔ اب وہی تصورات حقائق کا روپ دھار چکے تھے۔ تمنائیں باریاب ہورہی تھیں۔ آرزوئوں کو اذنِ وجود مل رہا تھا۔ تخیلات کے گھروندے تجلیات سراپا ہورہے تھے۔ خواہشات کو مقبولیت سے ہمکنار کیا جارہا تھا، مرادیں مستجاب ہورہی تھیں۔ وہ جلوہ گاہ نور سامنے تھی، جس کی ایک جھلک کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے۔ اب ایک جھلک کی کیا بات تھی۔ گنبد خضریٰ اپنی تمام تر طلعتوں کو بانٹتا ہوا زائرین سے خراج عجز و نیاز وصول کررہا تھا یہ قدموں کی لرزیدگی اور جذبات کی بالیدگی کا وقت تھا۔ دامان پھیلے ہوئے تھے, ہر گاہ اہل نظر نے حاصل مراد کے لیے ہاتھ پھیلا رکھے تھے۔ ایسے میں ریاضؔ بھی ثنا گوئی کی سوغات لیے آگے بڑھے ہوں گے اور پھر ایسا وقت بھی آیا ہوگا کہ تکلم نے ساتھ چھوڑ دیا ہوگا اور کیا بعید ہے کہ اس عالمِ سر خوشی و مدہوشی میں ان کی بے زبانی ہی زبان بن گئی ہوگی اور آنکھوں سے پھوٹتے ہوئے آنسوئوں کے جھرنوں نے تکلم کا حق ادا کردیا ہو..... حق تو یہ ہے کہ یہ وقت ثنا گوئی کے اکمال سے ہمکنار ہونے کا وقت ہوگا جبھی تو ریاضؔ کی نعتیں اس ہنگامِ شوق میں حسن عقیدت کے جواہر لٹاتی نظر آتی ہیں۔ اس ضمن میں چند کیفیات ملاحظہ ہوں:
اک کیف ہے عجیب سا میری دعائوں میں
لرزش سی پا رہا ہوں میں اپنی نوائوں میں
سرکار کی نوازش پیہم ہے ساتھ ساتھ
تنہا نہیں ہوں شہر نبیؐ کی ہوائوں میں
جیسے قدم زمیں پہ پڑتے نہیں مرے
جیسے میں اڑ رہا ہوں ازل سے خلائوں میں
رحمت کے بٹ رہے ہیں کٹورے قدم قدم
شامل ہوں آج میں بھی نبیٔ کے گدائوں میں
پھر اٹھ سکوں نہ شہرِ پیمبرؐ کی خاک سے
کانٹا چبھے خدا کرے وہ میرے پائوں میں
اب حشر تک ریاضؔ تمازت کا ڈر نہیں
بیٹھا ہوا ہوں گنبد خضریٰ کی چھائوں میں
.....
نظریں طوافِ گنبد خضریٰ میں محو ہیں
سجدے میں اپنے سر کو جھکانے کا وقت ہے
پلکوں پہ بے شمار ستارے چمک اٹھے
کرنوں کے آج رقص میں آنے کا وقت ہے
پھر مل سکے نہ مل سکے یہ ساعت سعید
بگڑے ہوئے نصیب بنانے کا وقت ہے
.........
وہ روزِ عید اور حضوری کی ساعتیں
میری جبیں پہ جرم و ندامت کی دھول تھی
لیکن ریاضؔ میرا مقدر تو دیکھنا
لوٹا تو سر پہ شفقتِ دستِ رسولؐ تھی
ریاضؔ دربار رسول ﷺ میں حاضر تو ہوجاتے ہیں مگر جب عرض گزاری کا وقت آتا ہے تو لفظ دم توڑنے لگتے ہیں۔ نطق کو عجز کا احساس ہونے لگتا ہے جب تک حاضری نصیب نہیں ہوتی تھی اس وقت تک دل میں تمنائوں کا جہاں آباد تھا کہ حاضری کے وقت بہت کچھ عرض کریں گے، ذاتی فسانۂ الم، امت کا اجتماعی درد، اپنی مہجوریوں کی داستانِ غم لیکن اب جب کہ حاضری نصیب ہوچکی تھی تو کہنے کا یارا نہیں رہتا۔ یہ احساس ہوتے ہی کہ محبوبِ خدا وملائکہ کے حضورکھڑے ہیں اور یہ مطلوب ومقصودِ کائنات کی بارگاہ ہے۔ عرض مدعاکا حوصلہ نہیں رہتا، سوچتے ہیں کہ یہ تو وہ بارگاہ اقدس ہے کہ جہاں جنیدؒ و بایزیدؒ بھی نفس گم کردہ آتے ہیں جہاں ادب و احترام کی تمام رفعتیں خود دست بستہ نظر آتی ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ کی عظمتوں اور اپنی خطائوں کا خیال آتا ہے تو کانپ کانپ جاتے ہیں کہ کس منہ سے حضورؐ کا سامنا کریں۔ اپنے دامن کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو بے بضاعتگی ڈرانے لگتی ہے کہ دربار رسولؐ میں آتوگیا ہوں مگر ارمغانِ نیازپر کیا پیش کروں۔ جب مایوسیاں احاطہ کرنے لگتی ہیں تو حضورؐ رحمت للعالمین کی رحمتِ بے کراں اور لطف بے کنارکے سہارے آنسوئوں کی امنڈتی ہوئی برسات میں عرض گزار ہوتے ہیں۔ دربارِ حضورؐ میں ریاض حسین چودھری کی عرض گزاری کا اندازنہایت منفرد اور اچھوتا ہے۔ ریاض کے عرضِ مدعا پر نظر ڈالیں تو ہمیں بے اختیار انے دامان اعمال کی طرف نگاہ اٹھانے کی ترغیب ہوتی ہے کہ ریاضؔ جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ فقط ان کا اظہار ندامت اوراظہار پشیمانی ہی نہیں ہے بلکہ ہم سب نے بھی محبتِ رسولؐ کے عملی تقاضوں کو پسِ پشت ڈال کر دلوں میں منافقت کے کتنے ہی اصنام سجا رکھے ہیں۔ اس حاضری میں ریاض جو کچھ کہتے ہیں وہ بظاہر ان کا ذاتی اظہارِ عجز ہے مگر اس حوالے سے ہم سب بھی اپنے دلوں کے آئینہ خانوں میں جھانک سکتے ہیں:
حضورؐ! حاضر ہے اک مجرم، حضورؐ اس کو معاف کردیں
اور اس کے کشکول آرزو کو کرم کے سکوں سے آج بھر دیں
یہ ہجرتوں کے اگاکے موسم حضور لایا ہے کشت غم میں
یہ عافیت کی تلاش میں ہے، اسے مدینہ میں ایک گھر دیں
...........
حضورؐ آقا یہ آپ کی جالیوں سے نظریں چرا رہا ہے
گنہ کا احساس اس قدر ہے یہ خوف سے تھرتھرا رہا ہے
زباں پہ تالے پڑے ہوئے ہیں، قدم بھی اٹھتے نہیںہیں اس کے
ستوںکے پیچھے یہ سب سے چھپ کے حضورؐ آنسو بہا رہا ہے
..........
سجا کے لایا ہے طشتِ جاں میں ثنا کی کلیاں قبول کیجئے
اور اس کے ہاتھوں سے آنسوئوں کے گلاب تازہ وصول کیجئے
یہ لوح دل پہ بنا رہا ہے در محبت کے عکس آقا
یہ سر جھکائے کھڑا ہے کب سے، اسے بھی قدموں کی دھول کیجئے
اسی طرح ایک اور مقام پر شرحِ حال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
حضورؐ لغزش پا کا جواز کیا ڈھونڈوں
متاعِ فکر و نظر کی حضورؐ! ناقدری
جہانِ دانش و افکار پر مسلط ہے
ردائے گرد و غبار و نفاق کا موسم
قفس میں موسمِ دار و رسن کی آمد ہے
اُگی ہوئی ہے صلیبوں کی فصل چہروں پر
بنا رہا تھا میں کاغذ کی کشتیاں کب سے
یہ جان کر بھی کہ موجوں سے مجھ کو لڑنا ہے
کٹی کٹی ہیں ہوائے نفس کی زنجیریں
بجھی بجھی ہے دریچوں میں چاندنی آقاؐ
لٹی لٹی ہے مساوات و عدل کی مسند
حضورؐ آپ کے نقش قدم کی بھیک ملے
شجر کی شاخِ بریدہ پہ کوئی پھول کھلے
اور جب مدینہ منورہ سے واپسی کا وقت آتا ہے تو ریاض کو یوںمحسوس ہوتا ہے جیسے متاع زیست لٹنے والی ہو، آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں کہ عمر بھر دعائیں کرکے تو یہاں پہنچے تھے۔ اب معلوم نہیں کہ پھر کب یہاں آنا نصیب ہو۔ بڑے والہانہ انداز میں مکینِ گنبد خضریٰ کا تصور کرتے ہیں اور سبز گنبد سے پھوٹنے والے انوار کواپنے دامن پر سجائے ہوئے اپنا سلام وداع نذر کرتے ہیں۔ ڈبڈباتی آنکھوں سے پھوٹنے والے آنسوئوں کے آبگینوں میں اس شہرِ نور کا حسن عکس ریز کرتے ہیں۔ الوداعی سلام پیش کرتے ہوئے دوبارہ حاضری کی استدعا کرنا نہیں بھولتے اور عرض کرتے ہیں:
الوداع اے سیدیؐ یا مرشدیؐ
الوداع اے رحمتوں والے نبیؐ
الوداع امی لقب اعلیٰ نسب
الوداع اے روشنی اے اروشنی
الوداع اے خواجہ کون و مکاں
الوداع اے جانِ جانانِ جہاں
چھوڑنا چوکھٹ کو مشکل ہے حضورؐ
اٹھ کے جاؤں بھی تو اب جائوں کہاں
پھر حصارِ ہجر میں کھو جائوں گا
دامنِ تقدیر میں سو جائوں گا
پھر اجالوں سے نکل کر یا نبیؐ
میں اندھیروں کا ہدف ہو جائوں گا
دست بستہ عرض کرتا ہوں حضورؐ
حکم ہے تو پھر چلا جاتا ہوں دور
التجا ہے اے غلاموں کے بھرم
زندگی میں پھر بھی پھیرا ہو ضرور
نعت کی بنیادی خصوصیت حضور سرورِ کائنات ﷺ کا ـذکر پاک ہے۔ یہ ذکر اس قدر جاں نواز اور مہکبار ہے کہ قلب و جاں کو فرحت حاصل ہونے لگتی ہے۔ یہ ذکر پاک عبادت بھی ہے اور شان سخنوری کا اظہار بھی۔ اسی ذکر پاک کی بدولت شاعر رحمتِ خداوندی و مصطفی ﷺ کا حقدار بھی قرار پاتے ہیں اور اہل علم و دانش کی صفوں میں یادگار مقام کا مستحق بھی ٹھہرتے ہیں۔ ریاض حسین چودھری نے ذکر حضور ﷺ کرتے وقت شکوہ فکر و فن کے تمام لوازم کو استعمال کیا ہے اور شعری جمال آفرینیوں، قلبی لطافتوں اور روحانی وابستگیوں کا تمام حسن ذکر حضور میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ ریاض سمجھتے ہیں کہ ذکر رسول ﷺ اس قدر بلند و ارفع و اعلیٰ ہے کہ مدحت نگار اپنے ادراک و وجدان کی تمام تر رفعتیں اس ذکر پاک کی نذر کرنے کے باوجود بھی حق اداکرنا توکجا اس کی بلندیوں کی جانب نگاہ بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتا اور انسان کج مج بیان کی مجال بھی کیا ہے کہ ممدوحِ خدا و ملائکہ کے ذکر پاک کے حق کی ادائیگی کا خیال بھی ذہن میں لاسکے۔
ریاضؔ کو بھی اپنی پر سوز فکر کی کوتاہ پروازی اور حضور محمد مصطفی ﷺ کی شان لولاک لما کی بلندیوں کا بخوبی احساس ہے۔ ریاضؔ تو ذکر حضورؐ کے بہانے محبوبؐ خدا کے چاہنے والوں کی فہرست میں کہ جس میں ازل سے ابد تک کے مدحت نگار شامل ہیں، فقط اپنا نام لکھوانے کے متمنی ہیں۔
حضور پاک ﷺ کا ذکر مقدس ریاض حسین چودھری کے لیے عین عبادت ہے۔ یوں تو تمام نعتیہ شاعری ذکرِ رسولؐ ہی ہے لیکن جب بالخصوص حضور ﷺ کا اسم گرامی آتا ہے یا آپؐ کی دلآویز حسین یادوں کی بات چلتی ہے تو ریاضؔ کی نوکِ قلم سے خوشبو پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ حضورؐ کی یادیں، حضورؐ کی باتیں، حضورؐ کا تصور، حضورؐ کا تخیل، بس یہی ریاض کی کائنات ہے اور ریاض اپنی اس سدا بہار کائنات میں سرشار و مگن ہیں۔ ذکرِ رسول کریمؐ کے حوالے سے چند خوبصورت اشعار اہلِ نظر کے ذوقِ طبع کی تسکین کے لیے پیش کیے جارہے ہیں:
پُر افشاں ہے مرا قلبِ تپیدہ
رقم کرتا ہوں اشکوں کا قصیدہ
وہی ہے سانس کی ڈوری کا بندھن
وہی اوراقِ ہستی کا جریدہ
خلاصہ ہے کتابِ ارتقاء کا
محمدؐ کل جہانوں کا عقیدہ
وہ سردارِ گروہِ پاک بازاں
وہ عنوانِ حروفِ سر کشیدہ
خدا کے بعد مخلوقِ خدا میں
یتیمِ آمنہؓ ہے برگزیدہ
........
اٹھے ہیں ہاتھ مرے اے خدا دعا کے لیے
مچل رہے ہیں مرے لفظ بھی صدا کے لیے
قبائے شعر سمیٹے گی پھول مدحت کے
جمالِ حرفِ سخن ہے فقط ثنا کے لیے
میں اپنے ظرف سے بڑھ کر طلب نہیں کرتا
کوئی چراغ جلے شہرِ بے ضیا کے لیے
وہ چاکِ فقر رفو جس نے آدمی کا کیا
وہ چاکِ فقر عطا ہو مری قبا کے لیے
جبینِ شوق میں کب سے ریاضؔ سجدوں کو
چھپا رکھا ہے عقیدت نے نقشِ پا کے لیے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زمین و آسماں کا بے نتیجہ تھا سفر نامہ
شراکت سے تری تکمیل کو پہنچا بشر نامہ
ترے آنے سے پہلے روشنی تھی کب چراغوں میں
اندھیروں کے تصرف میں افق کا تھا نظر نامہ
تجھے تورات میں، انجیل میں، قرآن میں دیکھا
تجھے ہر اک صحیفے کا نہ کیوں لکھوں میں سَر نامہ
ذکرِ حضور ﷺ کے حوالے سے ریاض حسین چودھری عجزو انکسار، فروتنی و خاکساری دکھاتے دکھاتے جب اس احساس سے ہمکنار ہوتے ہیں کہ ذکر رسول ﷺ بخشش و نجات کا وسیلہ بھی ہے تو یکایک ان کی آنکھوں میں بالیدگی اور جذبات میں رخشندگی آجاتی ہے، مایوسیوں کی گھٹائیں چھٹنے لگتی ہیں اور امیدوں کا چراغ سر افقِ تمنا اپنی لازوال تب و تاب اجاگر کرنے لگتاہے۔ اس امید و رجائیت کے پس منظر میں عقیدتِ رسولؐ جو رنگ لاتی ہے اس کی جھلک ملاحظہ ہو:
یہ محشر ہے درودِ پاک کی چھائوں میں بیٹھا ہوں
مرے اعمال نامے میں بھی ہے رشکِ گہر نامہ
ندائے یارسولؐ اللہ کا جھومر جب ہے ماتھے پر
فروزاں پھر نہ کیوں ہوگا سر شمس و قمر نامہ
زیارت جاگتی آنکھوں سے ہوگی یہ یقیں رکھنا
ریاضؔ امشب بھی لکھ رکھے ابھی سے چشمِ تر نامہ
مدحت محبوبِؐ خدا علیہ التحیۃ والثناء کے حوالے سے کوئی تشبیہہ استعارہ یا مثال ڈھونڈنے لگیں تو ایک ایسے گلشن بے خزاں کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جس کے پھول، غنچے، کلیاں، پتیاں، پنکھڑیاں سب کے سب اصحاب یقین کے مشام جان کو اپنی مہکاریوں سے نواز رہے ہیں۔ جسے دیکھتے ہیں مدحتِ رسولؐ کی خوشبو عام کرنے کے لیے دوسروں پر بازی لے جانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتا ہے۔ ادیبوں کو یہ ضد ہے کہ وہ ایسی بیمثال نعتیہ نثر تخلیق کریں، جو نظم سے کہیں زیادہ موثر اور پرسوز ہو۔ شعراکی کوشش ہے کہ ان کا نذرانۂ مدحت نہ صرف اس دور کے لیے بلکہ مستقبل کے لیے بھی قابلِ رشک نمونہ ہو۔ سحر بیان خطیبوں نے اپنے اعجازِ نطق سے یہ باورکرانے کا تہیہ کررکھا ہے کہ صفت و ثنائے حضور ﷺ میں ان کا ثانی کوئی نہیں۔ ہر طرف، ہر جگہ، ہر ساعت، ہر آن مدحتِ مصطفی ﷺ کی ہی دھوم مچی نظر آتی ہے۔
اس پر تقدیس ہنگامِ شوق میں ایک جانب ریاض حسین چودھری بھی اپنے آقا و مولاؐ کی مدحت و ستائش کا علم بلند کیے چل رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ احساس ہی نہایت فرحت بخش ہے کہ مدحتِ سرور کونین ﷺ کے چراغ جلاتے ہوئے وہ حسانؓ بن ثابت، کعبؓ بن زہیر، امام بوصیریؒ اور رومیؒ و جامیؒ کے کاروانِ ثنائے حضور ﷺ میں شمولیت کی سند حاصل کرچکے ہیں۔ مدحت و ستائش مصطفی ﷺ کے نذرانۂ شوق کو قبول کرنے والی ہستی لفظوں کا شکوہ نہیںدیکھتی بلکہ وہ تو دلوں میں جھانک کر اس جذبے اور خلوص کو دیکھتی ہے جس کی اساس پر بے جان الفاظ حسنِ دوام حاصل کرنے والے شعروںکا روپ دھار رہے ہوتے ہیں۔ ریاض حسین چودھری محبوبِ خدا کی ثنا کرنے لگتے ہیں تو ان کا دل اس فخر سے سرشار ہوجاتاہے کہ انہیں مدحتِ رسولؐ کی نعمتِ بے بہا حاصل ہوتی ہے اور وہ رب العزت کا شکر اداکرتے نہیں تھکتے کہ انہیں نعتِ مصطفیؐ کی صورت میں وظیفہ ٔ کامرانی عطاہوا ہے۔ اپنی نعت نگاری کا ذکر کرتے ہوئے ریاض حسین چودھری کس طور مسرور و شادمان ہیں، ملاحظہ کیجئے:
شہر ثنا میں پھول سجانے لگی ہوا
آنے لگی حروف کی چلمن سے بھی ضیا
نعتِ نبیؐ کی مجھ کو سنائی گئی نوید
پھولوں سے بھر گئی مرے افکار کی ردا
صدیاں سمٹ کر نوکِ قلم میں سما گئیں
اللہ کا شکر نطق و بیان نے کیا ادا
آنکھوں نے ان کے نقشِ قدم کو کیا سلام
ہونٹوں نے چوم چوم لیا نامِ مصطفیؐ
منصب مجھے ملا ہے ثنائے رسول کا
لمحہ گرفت میں ہے ابھی تک نزول کا
اس کڑی دھوپ میں مَیں تیرے نام کی سبز چھائوں کو پرچم بناتا چلوں
یانبیؐ یہ سفر میرا جاری رہے، طشت عرض ہنر کا سجاتا چلوں
شاخ در شاخ پھر پھول مرجھا گئے، عکسِ نامہرباں سب کے لہرا گئے
میں ریاض آج بھی صحنِ جذبات میں جوت نعتِ نبی کی جگاتا چلوں
..........
گلہائے نعت روح میں مہکے ہیں آج بھی
لب پر درودِ پاک کے نغمے ہیں آج بھی
کاغذ یہ آنسوئوں کی ہے جھالر سجی ہوئی
ہاتھوں میں آرزو کے صحیفے ہیں آج بھی
دل سے لکھی ہیں مصحفِ جاں پر عبارتیں
نامے درِ رسولؐ پہ بھیجے ہیں آج بھی
بفیض نعت ہے رشکِ بہاراں
کوئی دیکھے مرا رنگ پریدہ
مجھے یہ حکم ہے میرے خدا کا
لکھوں نعتیں بہ کلکِ آبدیدہ
............
فن کا کاسہ لیے آیا ہوں سوامی آقاؐ!
اب تو مشکور ہو لفظوں کی سلامی آقاؐ!
میرے اشعار کے خوش رنگ پرندوں کو عطا
نعت کے صدقے میں ہو عمرِ دوامی آقاؐ!
اپنی اوقات سے بڑھ جاتا ہے اکثر شاعر
یہ کہاں اور کہاں مسلکِ جامی آقاؐ!
...........
سر برہنہ تھا میں آپؐ ہی نے مجھے تاج اپنی ثنا کا کیا ہے عطا
آپؐ کی رحمتوں کا بھی روزِ جزا میرے سر پر رہے سائباں یا نبیؐ
آپ کے ذکرِ اطہر کی خوشبو لیے لب پہ جذبات کرنیں سجانے لگے
رفتہ رفتہ چراغوں میں جلتا رہا آنسوئوں، ہچکیوں کا دھواں یا نبیؐ
ریاض حسین چودھری جدید دورکے جدید لہجہ کے شاعرہیں، ان کی شاعری جدتِ اسلوب و فن کی عکاسی کرتی ہے۔ جدید تراکیب، تشبیہات اور استعارات ان کی نعتیہ شاعری میں بدرجہ اتم نظر آتے ہیں۔ مگر اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کی مدحت نگاری جدیدیت کے طوفان میں بہہ کر شعری جمال اور حسنِ تغزل سے تہی دامن ہوجاتی ہے بلکہ ان کی جدتِ طبع، ندرتِ فکر سے کام لے کر عصرِ حاضر کے ادبی و شعری محاسن کا تمام تر حسن سمیٹ کرمدحتِ مصطفی ﷺ کے اسلوب کی نذر کردیتی ہے۔ ان کے ہاں جدیدیت ہے مگر انتہائے عقیدت و احترام کے ساتھ، دورِ حاضرہ کے جدید اسالیب کی پیروی ہے مگر نعتِ رسولؐ کے حقیقی تقدس اور پاکیزگی کے ساتھ، جدید تر اصطلاحات و تراکیب کا استعمال ہے مگر محبتِ رسول ﷺ کے شعری ابلاغ کی خاطرموجودہ دور صحیح معنوں میں نعت کا دور ہے کہ اس دور میں وہ حضرات بھی نعت لکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں جو نعت کے حقیقی تقدس سے فرسنگوںپرے ہونے کے باوجود محض اظہارِ فن شاعری کے لیے نعت کہہ رہے ہیں۔ اسے بھی ان کی مجبوری ہی سمجھ لیجئے کہ ان کے حاصلِ کلام پر اگر نعت کا عنواں نہ سجا ہو تونعت اور غزل کا امتیاز کرنا محال ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجائے۔ اس نام نہاد دورجدیدیت میں ریاض حسین چودھری کی حیثیت ایک ایسی شمع روشن کی ہے، جو جدتِ فکر اور کمالِ عقیدت و احترام کے امتزاج سے مدحت حضورؐ کی دلوں میں اترجانے والی تابشیںبخش رہی ہے۔ انہوںنے عصر حاضر کی جملہ شعری و ادبی روایات کو سرکارِ دو عالم ﷺ کی دہلیز پر ڈھیر کردیا ہے کہ:
’’حضورؐ یہ درود بھی آپ ہی کے حوالے سے زندگی اور رخشندگی چاہتا ہے۔ ‘‘
ریاض نے ہمیشہ آپؐ ہی کی ذات کو اپنا پہلا اور آخری حوالہ سمجھا ہے اور آپ ہی کی نسبت اور عقیدت کے سہارے اپنا تشخص ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ان کے بلند آہنگ لہجے کی چندمثالیں پیشِ خدمت ہیں:
برہنہ سرکھڑا ہوں کربلائے عصر میں آقاؐ
مجھے نعلین کی اترن ملے دربار عالی سے
ہر اک لمحے کے سینے میں رہے اسمِ نبیؐ روشن
مکمل ہو تشخص میرا بھی طیبہ کے والی سے
درِ اقدس سے رکھنا رابطہ ہر آن تم ورنہ
منافق ساعتیں پیکر تراشیں گی خیالی سے
...........
مجھے کبھی بھی اندھیروں سے ڈر نہیں لگتا
سحر ازل سے رقم ہے مری کتابوں میں
غبارِ شہرِ نبی طاقِ جاں میں ہے روشن
چراغ لوگ جلاتے پھریں سرابوں میں
..........
حضورؐ! کب عام ہوگی خوشبو حروفِ ایمان و آگہی کی
فصیلِ شہرِ غبارِ حیرت میں سوچتا ہوں گرے گی کب تک
ہوس کے ہاتھوں میں آدمیت سسک رہی ہے حضورؐ کب سے
اداس چہروں پہ زبردستی عذاب نامے لکھے گی کب تک
...........
لازم ہے جو ثنائے حبیبؐ خدا کرے
اقلیمِ جان و دل کو غبارِ حرا کرے
خوشبو قلم کو تھام کے محوِ خرام ہو
جذباتِ دل نواز کا گلشن کھلا کرے
بادِ خزاں کو حقِ تصرف نہ ہو حضور
ہر رنگِ نو بہار کو بے ذائقہ کرے
آقاؐ نفاذِ جبرِ مسلسل کا شور ہے
کب تک کوئی فریب کے ہاتھوں لٹا کرے
مولا، ہے زر خدائی کے منصب پہ جلوہ گر
اب اک غریبِ شہر کرے بھی تو کیا کرے
کہنا صبا سے لے کے اجازت حضورؐ کی
پھر شہرِ بے مثال کا دروازہ وا کرے
ریاض حسین چودھری نے عشق و عقیدتِ رسولؐ کے سہارے منزلِ ایمان و یقین کی جانب جس سفر کا آغاز کیا تھا وہ ابھی جاری ہے۔ ان کی مؤثر، پرسوز اور نورِ عقیدت سے جگمگاتی ہوئی نعتیں پڑھ کر بے اختیار احساس ہوتا ہے کہ ہر آنے والا دن اس مسافرِپُر شوق کے قدموں کی رفتار کو پہلے سے کہیں زیادہ متوازن اور تیز کررہا ہے۔ حضورؐ کے دامانِ اقدس سے وابستگی ان کے لیے وجہ صد افتخار ہے۔ اسی عجز آمیز افتخار کی چاندنی ان کے نعتیہ کلام میں کہکشاں زار بن کر چمک رہی ہے۔ اس چاندنی کا نگہِ باطن سے مشاہدہ کریں تو اس کی ایک ایک کرن لازوال تابشوںکی امین نظر آتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ نعت اس صاحبِ یٰسین و طٰہٰ کا منظوم تذکرہ ہے جس کے رخ انور کی نورانی ڈھلک سے مہر و ماہ ہی نہیں جگمگاتے بلکہ احساسات کی تاریک و غیر آباد وادیاں بھی زندگی کا جمال پانے لگتی ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ ریاض حسین چودھری اپنے جذبۂ عشق رسول ﷺ کو متاعِ زیست سمجھتے ہوئے اسی انداز سے خوبصورت، دلآویز اور پر تاثیر نعتیں پیش کرتے رہیں۔ ایسی نعتیں جو صرف ان ہی کے لیے سرمایۂ اعزازنہ ہوں بلکہ ان کی قرأت اہل نظر کے ذوقِ سماعت کا وقار اور ذہن و فکر کا نکھار ثابت ہو۔ مدحتِ مصطفی ﷺ کے نام پر ان کے فنی ارتقاء کا سفر بھی جاری رہے اور مستقبل کی ہر ساعت انہیں جذبۂ عشقِ حضور ﷺ کے صلہ میں جاودانیٔ تب و تاب سے آشنا کرتی رہے۔ آمین