تمنائے حضوری اور ریاض حسین چودھری، ڈاکٹر شبیر احمد قادری- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

مدحت 2018ء: ’’تمنائے حضوری‘‘ اور ریاض حسین چودھری (ڈاکٹر شبیر احمد قادری۔ فیصل آباد)

Abstract Riaz Husain Chodhary was a well-karwan personality of Urdu na't. His services for literature are unfogetable. In this artical those factor have been discussed with influenced the thoughts of poet to complete a long natia poem named Tamanna'y-e-Huzoori. The essayist has introdused selctive auspects of said book in this artical.

’’تمنائے حضوری‘‘ (1) ریاض حسین چودھری کی نعتیہ نظم ہے، جس کے بارے میں شاعر کا دعویٰ ہے کہ یہ بیسویں صدی کی آخری طویل نعتیہ نظم ہے، اس کی اس اساس درج ذیل مصرع پر رکھی گئی ہے:

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو میرے رب کریم

بندوں کا آغاز اسی مصرعے سے ہوتا ہے۔ اس میں شاعر اپنے ’’ہونے‘‘ اور اس ہونے کے مقاصد کی اہمیت کو کئی زاویوں سے نمایاں کرتا ہے۔ اگر کالفظ خصوصیت کا حامل ہے، نظم دائرہ در دائرہ آگے بڑھتی، قوس کو قوس سے ملاتی اور قاری پر زبان و بیان کے نغمیں اثرات مرتب کیے چلی جاتی ہے، روانی، سلاست شاعر کی برسوں کی محنت کا ثم شیریں ہے، آج کے ادیب سے یہ تقاضا بالکل بجا ہے کہ یہ کچھ لکھا جائے اس کا حال اورمستقبل کے ساتھ گہرا ربط ہو اور آنے والے دنوں میں قارئین کا رہنمائی کا فریضہ اس عمدہ انداز سے شامل کیا جائے کہ وہ اپنے داخل اور باہر کے اندھیروں سے نجات پاکر روشن وادیوں کا پراطمینان مسافر بن جائے۔

ریاض احمد چودھری کمال استعداد علمی کے حامل اور صاف ضمیر تھے، وہ اس امر کے باے میں فکر مند رہے تھے کہ مسلمان کس طرح حبِ دنیائے ذوں کے حصار بے دیوا سے نکل کر اوامر الہٰی کی بجا آوری اور پیغام مصطفی کی ترسیل و اشاعت کے لیے اہتمام کریں۔

’’تمنائے حضوری‘‘ کی ترتیب و تشکیل کے اساسی محرکات کیا تھے؟ موج نسیم کے کیسے پرسرور لطمے تھے کہ اس کے اول اشعار لوحِ ذہن پر مرتسم ہوئے، خیر خواہی خلق کا کون سا دل پذیر لمحہ تھا کہ وہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی شامل حال کرنے پر آمادہ ہوئے، لطفِ رؤف مطلق دستگیر ہوا اور تخلیقی نظم کے آثار ہویدا ہوگے۔

ریاض حسین چودھری لکھتے ہیں:

’’رمضان المبارک 1419ھ کا آغاز ہوچکا تھا، یہ جنوری 1999ء کی 5 تاریخ تھی، جمعۃ الوداع اور 26 رمضان المبارک، اس شب لیلۃ القدر تھی، ایک روحانی رتجگا دل و جاں پر محیط تھا۔ میں اپنی رہائش گاہ (ٹائون شپ لاہور) سے بذریعہ ویگن ماڈل ٹائون واقع تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کی طرف آرہا تھا، سفر کے دوران ایک قطعہ ہوا، دفتر تک پہنچتے پہنچتے کئی مصرعے قرطاس ذہن پر نقش ہوچکے تھے، یہ چھٹی کا دن تھا، ڈاکٹر فریدالدین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بند تھا، میں نے اندر سے چٹخنی چڑھا لی اور اپنے کیبن میں آگیا، قریۂ شعور میں احساسات کے قافلے اتر رہے تھے۔

دست بوسی کبھی مجھ کو نہ فرصت ملتی
شہر سرکار کے بچوں کا کھلونا ہوتا

ان دو مصرعوں نے مجھے اندر سے ریزہ ریزہ کردیامیں دیر تک دھاڑیں مار مار کر روتا رہا، یہاں خدا کے سوا مجھے دیکھنے والا کوئی نہ تھا۔ حضور ﷺ کے عہد مبارک میں ہونے کی آرزو لفظوں کے پیرہن میں ڈھل گئی، حضوری کی مختلف کیفیات ذہن میں مرتب ہونے لگیں، الفاظ باوضو ہوکر دست بستہ سوچ کی راہداریوں میں کھڑے تھے اور پھر چند روز میں 150 قطعات پر مشتمل طویل نظم ’’تمنائے حضوری‘‘ حیطہ ادراک سے حیطہ شعور میںآچکی تھی۔ (2)

سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے ریاض چودھری لکھتے ہیں:

سکون اور اطمینان کا دریا میرے چاروں طرف موجزن تھا، عشق مصطفی ﷺ کے پانیوں میں تر اپنے ہونٹوں کو چوم رہا تھا، وہ ہونٹ جنہوں نے مجھے فکرو نظر کے شادات موسموں اور مخمور ساتھیوں کے گداز جاں سے ہمکنار کیا ہے، حضوری کی یہ کیفیات مختلف اوقات میں، مختلف انداز میں دیدہ و دل کو منور کرتی رہی ہیں، یہی کیفیات سرمایۂ حیات اور زاد سفر ہیں کہ ان کیفیات کا ایک ایک لمحہ ذکر رسول ﷺ کی سرشاریوں کا آئینہ دار رہا ہے۔ (3)

محمد اقبال جاوید نے اس قابل قدر نظم کے لیے جن تحسین کلمات کا چنائو کیا وہ ان کی واردات قلبی کا آئینہ دار ہیں:

’’ریاض حسین چودھری کی عہد رسالت مآب ﷺ کی شاداب نظم ساعتوں، اس دور کے درخشندہ راستوں اور اس زمانے کی پر نور فضائوں میں جذب ہوکر اُن قدومِ میمنت لزوم کو چومنا چاہتے ہیں، جن کے فیض سے عرب کی ریت کو ریشم کا لوچ عطا ہوا تھا، وہ اس نظم میں حضوری ﷺ کے وجود بے سایہ کے اس خرام ناز کا، سائے کی طرح تعاقب کررہے ہیں جس سے راستے جھوم جھوم اٹھتے تھے۔ وہ سانسوں کی اس مہک سے مشام جاں معطر کرناچاہتے ہیں جس کی بدولت عرب کا ریگستان ساری دنیا کو نکہتیں بانٹتا چلا جاتا رہا ہے، حرا کے ذروں میں تحلیل ہونے کی تمنا قلم قلم اور حرف حرف لو دے رہی ہے، فکری گداز، فنی پختگی سے ہم آہنگ ہے اورمقصود تحریر، محبت ہے، اس ذاتِ اقدس کی جو فی الحقیقت خلاصۂ کائنات ہے اور جس کا اسوہ فی الواقع سرمایہ نجات ہے۔‘‘(4)

دیگر شعرا کے مانند ریاض حسین چودھری نعت کو سچا تخلیقی ادب سمجھتے ہیں، جس سے انخلائے جذبات کے ساتھ ساتھ اصلاح احوال کی مختلف صورتیں سامنے آتی ہیں، وہ شعر کی صورت عہد رسالت مآب سے متعلق مسلمہ حقائق و واقعات اور تعلیمات کو منظوم کرنے کی تمنا رکھتے ہیں، مغرب اور دیگر ممالک ہیں عصر حاضر ہیں یہ خیال فروغ پارہا ہے کہ ادب میںمنفی انسانی افعال و اعمال کو بھی اسی شدو مد سے پیش کیا جاسکتا ہے۔ اڈورنو نے تو اس حقیقت سے صاف انکار کردیاہے کہ ادب کا تعلق سچائیوں سے ہے ہی نہیں، رائے ان کی یہ ہے کہ سچائی کے بغیر بھی ادب، ادب ہی کہلائے گا بلکہ وہ زیادہ ادبیت کا حامل ہوگا، تھیوڈ وراڈونو کی Theodor Adono کی کتاب ’’کرٹیکل تھیوری‘‘ کے مطابق ادب حقیقی دنیا کے منفی علم سے عبارت ہے یہ بحث وہاب اشرفی کی کتاب مارکس فلسفہ ’’اشتراکیت اور اردو ادب‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ مسلم ادب میں قرآن حکیم کے وہ الفاظ جن کے مطابق اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ (5)

ریاض حسین چودھری اس طویل نظم میں اپنے ہونے کو مثالی ہونے کی خواہش کے تابع لانے کے دعا گو ہیں اور اپنی نسبت ان نیک طینت اور اعلیٰ مدارج کے حامل اشخاص سے جوڑنا پسند کرتے ہیں، جن کے نام تاریخ اسلام کے روشن باب کا درجہ رکھتے ہیں، یہ مصرعے ملاحظہ ہوں:

ابو لہب کی میں وہ اک لونڈی ثوبیہ ہوتا (ص24)

میں حلیمہ کے مقدر کا ستارا ہوتا (ص24)

حرفِ نوفل کی صداقت کا میں ہوتا شاید (ص29)

اور خیالات و مناجات بحیرا ہوتا (ص29)

جس پہ سوئے تھے علی، میں وہی بستر ہوتا (ص34)

ثور کے غارِ مقدس کی میں مکڑی ہوتا (ص35)

میں وہ صدیق وفادار کی ایڑی ہوتا (ص35)

ام معبد کے پڑائو پہ بھی چھایا ہوتا (ص36)

میں ابوبکر کے سائے کا بھی سایہ ہوتا

حضرت حمزہ کے جذبات کی گرمی ہوتا (ص41)

میں کہ عثمان کی دولت کا وہ سکہ ہوتا (ص41)

میں ابوبکر کے گھر کا وہ اثاثہ ہوتا (ص43)

میں ابوذر کے تفکر کا سویرا ہوتا (ص44)

عشق فاروقِ معظم کا میں چہرہ ہوتا (ص45)

میں کہ حسنین کے قدمین کا دھوون ہوتا (ص57)

معبدِ عشق اویسی کی میں مشعل ہوتا (ص57)

’’تمنائے حضوری‘‘ میں شاعر ماقبل ناعتین جیسا اخلاص اپنی تحریروں میںدیکھنا چاہتے ہیں جس سے ان کے فن کی اساس اور پختہ اور محکم ہوجائے۔ ان کے اشعار کو وہ اپنا پیغام محبت سے تعبیر کرتے ہیں، کلک جامی، نعت سعدی وبصیری کے اثرات سے اپنے فن کو اور چمکانا چاہتے ہیں، کتاب یہ اظہار فی الاصل ماقبل شعرا کو خراج عقیدت اور حرف تحسین پیش کا ایک نادر وسیلہ بھی ہے نمونہ ملاحظہ ہو:

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے رب کریم
ان کے پیغام محبت کا میں داعی ہوتا
کلکِ جامی سے مجھے عشق کی ملتی دولت
نعتِ سعدی کی میں دلکش سی رباعی ہوتا

(ص82)

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو میرے ربِ کریم
لفظ بن کر میں بصیری کا قصیدہ ہوتا
کلکِ حسّان کی رعنائی کا پیکر ہوتا
اعلیٰ حضرت کا میں پُر جوش عقیدہ ہوتا

(ص87)

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے رب کریم
میں بھی افکارِ جلیلہ کا تجمل ہوتا
خاکِ طیبہ و نجف کو میں بناتا سرمہ
اُن کے اقبال کی پروازِ تخیل ہوتا

(ص95)

یہ دعا ہے، خواہش ہے، تمنا ہے اور لگن ہے جن کی اساس حب رسول پر رکھی گئی ہے۔ سراج احمد قادری نے ریاض حسین چودھری کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے لکھا ہے:

’’ریاض حسین چودھری نے نعت کو قدیم روایت سے نکال کر جدید رنگ و آہنگ، لفظ و معانی اور فکر سے ہمکنار کیا، ان کی طبیعت میں بلا کی جدت تھی، نعت میں نئے نئے گوشوں کو تلاش میں وہ ہمہ وقت محوِ فکر و نظر رہتے تھے۔ ‘‘

خورشید احمد گیلانی کے مطابق:

’’تمنائے حضوری‘‘ ایک جرعۂ سلسبیل ہے جس کا رنگ اور ذائقہ منفرد اور جس کی خوشبو اور مٹھاس جداگانہ ہے، یہ ایک تجلی نور ہے جو بہت دور تک زندگی اور روشنی کو ہم آغوش کیے رکھتی ہے اور یہ وہ آرزو ہے جو زندگی کو تقدس اور جواز فراہم کرتی ہے۔ (6)

حوالہ جات

1۔ ’’تمنائے حضوری‘‘ 2000ء میںکنٹراسٹ پرنٹر اینڈپبلشرز لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوئی، چھیانوے صفحات کو محیط پروفیسر محمد اقبال جاوید اور صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی کی وقیع آراء شامل ہیں، شاعر نے طویل پیش لفظ میں اس نظم کی تخلیق کے جانفزا اور روح پرور لمحات کے ذیل میں قارئین کو اعتماد میں لیا ہے۔

ممدوح رب ارض و سماوات ﷺ کی بارگاہ بے کس پناہ میںحاضری کی تڑپ اور حضوری کی متاع آرزو غلامانِ رسول ہاشمی ﷺ کے دلوں کی ہر دھڑکن کا منتہائے عزیز ہے، گنبد خضرا کی ٹھنڈی میٹھی چھائوں میں جبینِ شوق کے سجدوں کی بیتابی گدا ز جاں کے لمس لطیف سے ہمکنار ہورہی ہے، طائران تخلیل کی پرواز کی ابتدا بھی تاجدار کائنات ﷺ کو چوکھٹ کی خاک انور ہے اور ان کی انتہا بھی غبارِ درِ حضور ﷺ کی تجلیات سے مستنیرہے۔ کانات رنگ و بو کے ذرے ذرے میں خالق کائنات کے اس شاہکار عظیم کی محبت کے چراغ روشن ہیں کہ سرابِ نظر کی ہلکی سی دھندکا پر تو بھی تو اقلیم خیال پیغمبر آخر ﷺ کی فصیلوں پر نہیں پڑا، یہی محبت، عقیدت کے پیرہن میں سجتی ہے تو کارکنان قضا و قدر اسے محبوبیت کی خلعتِ فاخرہ سے بھی نوازتے ہیں اور اس کے دامن آرزو میں لطف و عطا کی کرنوں کے پھولوں سے سرمدی رتجگوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں، اس لیے شمع رسالت کے پروانے، شہر نبی کی گلیوں کے دیوانے درِ اقدس کی حاضری کو اپنی زندگی کے سفر کی معراج سے تعبیر کرتے ہوئے اپنی غلامی کے نیاز مندانہ حوالے کو بجا طور پر اعتبار و اعتماد کی اسناد جلیلہ کا سزاوار گردانتے ہیں۔ ’تمنائے حضوری، ص7‘‘

2۔ ریاض حسین چودھری پیش لفظ (لمحات حاضری کی تمنا لیے ہوئے) ’’تمنائے حضوری، ص14۔ 13

3۔ ریاض حسین ’’تمنائے حضوری‘‘، ص14۔ 13

4۔ محمد اقبال جاوید، فلیپ، تمنائے حضوری،

5۔ البقرہ: 26

6۔ سراج احمد قادری، اداریہ: دبستان نعت، شمارہ نمبر2، جنوری تا دسمبر2017ئ، ص25