ریاض کی صحافتی اور ادبی خدمات … سرفراز احمد خان- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن
منہاج القرآن میں ریاض حسین چودھریؒ کی صحافتی اور ادبی خدمات
سرفراز احمد خان، ناظم ممبرشپ تحریک منہاج القرآن
1990ء سے 2002 ء تک
صحافت کو مملکت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ صحافت کسی ملک کی سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی زندگی میں انتہائی اہم رول ادا کرتی ہے اور قومی کردار کی تشکیل میں اور مملکت کی نظریاتی اساس کے حوالے سے رائے عامہ کو ہموار ہی نہیں کرتی بلکہ اس کی عملی تربیت کا فریضہ بھی سرانجام دیتی ہے، پاکستان کے قیام سے لے کر پاکستان کے ٹوٹنے تک اور پھر سقوط ڈھاکہ سے موجود سیاسی انتشار اور اقتصادی بحران تک ہماری صحافت نے قومی زندگی کے نشیب و فراز طے کرتے وقت مثبت انداز بھی اپنایا ہے اور بدقسمتی سے بعض کالی بھیڑوں نے بلیک میلنگ کا سہارا لے کر اپنے من کی غلاظت کو صحافت کے نام پر اچھالا بھی ہے، بہر حال صحافت اور سیاست کو عبادت کا درجہ دینے والے پر خلوص صحافی اور سیاستدان بھی موجود ہیں، گو ان کے نام انگلیوں پر شمار کیے جاسکتے ہیں، تحریک منہاج القرآن نے جب اپنے تحریکی سفر کا آغاز کیا تو اپنے نقطۂ آغاز ہی سے اس نے پرنٹ میڈیا ہی نہیں بلکہ الیکٹرانک میڈیا کوبھی خصوصی توجہ دی اور جدید سائنٹیفک بنیادوں پر تحریک کے مقاصد کو اجاگر کرنے کی سعی کی کیونکہ کسی تحریک کا نصف سے بھی زیادہ کام نشرو اشاعت کا ہوتا ہے، کتب کی پرنٹنگ سے لے کر آڈیو/ ویڈیو ریکارڈنگ تک اور پھر اخبار و رسائل کے اجرا تک ان گنت مراحل ایسے ہیں جو تحریک کے اکابرین کی فوری اور سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہوتے ہیں، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات و جرائد سے روابط کو استوار کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ ماہنامہ ’’منہاج القرآن‘‘ تحریک منہاج القرآن کا پہلا آرگن ہے اس کے بعد جب 25 مئی 1989ء کو پاکستان عوامی تحریک کا قیام عمل میں آیا اور سیاسی عمل کا آغاز ہوا تو ایک سیاسی جریدے کی اشاعت کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جانے لگا چنانچہ دسمبر 1989ء کے آخری ایام میں اور جنوری 1990ء کے اوائل میں پندرہ روزہ ’’تحریک‘‘ نے اپنے تحریکی اور تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ اس کے پہلے چیف ایڈیٹر نوجوان صحافی تنویر قیصر شاہد مقرر ہوئے جن کی ادارت میں ’’تحریک‘‘ کے چھ شمارے شائع ہوئے، جبکہ انوارلحسین علوی نے اس جریدے کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں، ممتاز نعت گو اور ادارہ منہاج القرآن سیالکوٹ کے سابق ضلعی ناظم ریاض حسین چودھری ان دنوں مرکز میں تشریف لاچکے تھے۔ آپ مرکزی ناظم نشرو اشاعت کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے اور ’’تحریک‘‘ کی مجلس مشاورت میں بھی شامل تھے۔ ’’تحریک‘‘ کے شمارہ نمبر5 کے کریڈٹ پیج پر مجلس مشاورت میں یہ لوگ شامل تھے، پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری، اقبال محمود اعوان، خالد احمد، فیض الرحمن فیضی، ابو زین، ریاض حسین چودھری، طاہر جاوید مغل، قانونی مشیران خواجہ سعیدالظفرایڈووکیٹ، چوہدری محمد بشریا ایڈووکیٹ، ایگزیکٹو ایڈیٹر اے ایچ اعوان (انوارالحسین علوی)، تنویر قیصر شاہد اپنی ادارتی ذمہ داریاں بوجوہ پوری نہ کرسے اور کراچی چلے گئے، ہنگامی طورپر قائد انقلاب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پندرہ روزہ تحریک کی ادارتی ذمہ داریاں ریاض حسین چودھری کے سپرد کیں جنہوں نے ایک چیلنج سمجھ کر انہیں قبول کرلیا۔ ہمارے بہت کم تحریکی ساتھیوں کو بھی یہ معلوم نہیں کہ پاکستان عوامی تحریک اور پندرہ روزہ ’’تحریک‘‘ کا نام بھی ریاض حسین چودھری کا ہی تجویز کردہ ہے، ریاض حسین چودھری نے چیف ایڈیٹر سے لے کر چیف نائب قاصد تک ڈیوٹی سرانجام دی اور تن تنہا چھ سال تک یہ ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں۔ ’’تحریک ایک لمحہ کے لیے بھی تعطل کا شکار نہیں ہوا اور اس نے نامساعد حالات میں بھی اپنی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا۔ یکم جنوری 1994ء کو اس پرچہ کا انتظام و انصرام میجر انوارلحسین علوی نے تحریک منہاج القرآن کے سپرد کردیا چنانچہ قائد انقلاب نے ’’تحریک‘‘ نظامت نشرو اشاعت کے تحت جاری رکھنے کا حکم صادر فرمایا۔ ریاض حسین چودھری بدستور اس کے چیف ایڈیٹر رہے آپ نظامت نشرو اشاعت کے بھی ڈائریکٹر تھے۔
ریاض حسین چودہری نے 1990ء میں ’’تحریک‘‘ کے آٹھویں شمارے سے اس کی ادارتی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں اور ٹھیک چھ سال بعد 1996ء میں آٹھویں شمارے ہی سے ان ذمہ داریوں سے شبکدوش ہوئے، ان کے الوداعی اداریے سے چند اقتباسات شامل کیے جارہے ہیں جن سے ’’تحریک‘‘کے تحریکی اور تخلیقی سفر پر روشنی پڑھتی ہے:
’’تندیٔ بادِ مخالف میں بھی ’’تحریک‘‘ نے کبھی نیچی پرواز کرکے راہِ فرار اختیار نہیں کی، ’’تحریک‘‘کے ادارتی صفحات گواہ ہیں کہ ہم نے مصلحت کو کبھی پائوں کی زنجیر نہیں بننے دیا جسے حق سمجھا نتائج سے بے پروا ہوکر اسے حق لکھا، جسے باطل جانا اسے باطل کہنے میں زبان کبھی لکنت کا شکار نہیں ہوئی۔ کوتوال شہر کی جبین پر بل پڑے یا صاحبان اقتدار کی طبع نازک پر صداقتوں کا اظہار گراں گذرے ’’تحریک‘‘ہر حال میں حرفِ حق کی تلاش میں سرگرمِ عمل رہا، ’’تحریک‘‘نے ابتلا و آزمائش کے ہر دور میں کارکنوں کے حوصلوں کو بلند رکھا، آج ہمارے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں، قلم پر ایک لمحے کا بھی قرض نہیں... ’’تحریک‘‘نے ہر محاذ پر اپنی تحریک اور اپنے قائد کے دفاع میں دادِ شجاعت دی ہے۔ قاتلانہ حملہ ہوا، کردار کشی کی شرمناک مہم چلی، اہلِ زر، رنجش باطن کا مظاہرہ کرتے رہے، اپنے عہد کی دانش کے خلاف جہلا نے کیا کیا افسانے تخلیق نہ کیے، اہل شر چاند پر تھوکنے کے شوق میں اپنا چہرہ داغدار کر بیٹھے، خارش زدہ اور مکروہ چہروں کے آئینہ خانہ میں اصلی عکس بھی اپنی پہچان کھو بیٹھے، ’’تحریک‘‘نے گھپ اندھیروں کے اس سمندر میں بھی شمع حق جلائے رکھی اور اپنے کارکنوں کے اعتماد کو بحال رکھا‘‘۔
پندرہ روزہ ’’تحریک‘‘کی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے:
’’تحریک منہاج القرآن کے لیے غیر جانبدار پرچوں کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں لیکن اس قسم کی خودساختہ مصنوعی اور دکھلاوے کی غیر جانبداریت کو ہم اپنے مشن سے غداری متصور کرتے ہیں، ’’تحریک‘‘اپنی بساط کے مطابق تحریک منہاج القرآن کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دیتا رہا ہے، تحریک کی ایک ایک سطر نے تحریکی شعور کو اجاگر کیا ہے اور یہی اس کا سب سے بڑا اعزاز ہے، ’’تحریک‘‘کی اسلام اور پاکستان کے ساتھ غیر مشروط اور غیر متزلزل کومٹ منٹ پر کبھی آنچ نہیں آنے پائی، ’’تحریک‘‘کے چھ سالہ دورِ ادارت میں ہر سال ہم نے جشن عید میلاد النبیؐ کے موقع پر تحریک کے میلاد نمبر نکالنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ محبت رسول ہی تو ہمارا زادِ سفر ہے، یہی تو ہمارا سرمایہ حیات ہے اور یہی تو ہمارا توشۂ آخرت ہے، ہمارے بس میں ہوتا تو ’’تحریک‘‘کے ہر شمارے کو میلاد نمبر بنادیتے‘‘۔
آگے چل کر ریاض حسین چودھری نے لکھا ہے :
’’تحریک‘‘ نے جاگیرداری نظام کے خلاف زبردست محاذ قائم کرکے سرمایہ داروں، وڈیروں، سرداروں، رسہ گیروں، اسمگلروں، خائنوں اور سماج دشمن عناصر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں للکارا، عریانی، فحاشی، بے غیرتی اور بے حمیتی کا زہر نئی نسل کے رگ و پے میں اتارنے والے آزاد خیال لوگوں کو روکا، بے لگام اور قومی خزانے کو ہڑپ کرنے والی کرپٹ بیوروکریسی کو بے نقاب کیا اور معاشرے کے کچلے ہوئے مقہور اور مجبور عوام کی سلطانی کا خواب دیکھا۔ ’’تحریک‘‘نے کشمیر، بوسنیا، چیچنیا اور فلسطین میں شہیدوں کے خون سے روشن چراغوں کو سلامی دینے کا اعزاز حاصل کیا ہے اور اس کرب کو اپنے دامنِ دل میں سمیٹنے کی سعی کی ہے، جو کرب مسلم امہ کے ظاہرو باطن پر محیط ہے ’’تحریک‘‘نے دشمنانا نِ اسلام کا تعاقب جاری رکھا ہے۔ ‘‘
’’تحریک‘‘نے اپنے قائد کے اس فرمان کی ہر ممکن حد تک تشہیر کی اور اسے اپنے مضامینِ نظم و نثر کا عنوان بنایا کہ ہر سطح پر جذبۂ جہاد کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کہ عالم اسلام کے حکمرانوں پر جہاد فرض ہوچکا ہے۔ ہم نے اپنے قائد کے اس فرمان کو مشعل راہ بنایا ہے کہ ایک مضبوط پاکستان ہماری ہی نہیں پورے عالمِ اسلام کی ضرورت ہے۔ پاکستان پورے عالم اسلام کی امانت ہے اور اس امانت میں خیانت کا تصور بھی مسلکِ وفا میں حرام ہے، عالمِ اسلام اس وقت بے توقیری کے جہنم میں جل رہا ہے، جدید ترین ٹیکنالوجی کے دروازے مسلمانوں پر بند کیے جارہے ہیں اس بے توقیری کے جہنم سے نکلنے کے لیے پاکستان کو بھرپور ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا ہوگی۔ ایٹم بم ہماری ہی نہیں پورے عالمِ اسلام کی ضرورت ہے، تحریک نے کبھی فرقہ وارانہ مسائل کو نہیں اچھالا، مسلک کی نہیں قرآن و سنت کی بالادستی کی بات کی ہے۔
ریاض حسین چودھری نے اپنے یادگار اور تاریخی اداریوں میں کالم نگاری اور اداریہ نویسی کے دونوں فنون کو ملا کر اہل ذوق کو ایک نئے ادبی ذائقے سے روشناس کرایا ہے۔
ریاض حسین چودھری نے اپنے مذکورہ اداریے میں لکھا ہے :
’’پاکستان عوامی تحریک نے سرمائے اور غنڈہ گردی کے سیاسی کھیل سے کنارہ کشی اختیار کی تو ’’تحریک‘‘ بھی معروف معنوں میں غیر سیاسی ہوگیا، شہر سیاست جس میں اس بازار کا سارا گند بہہ رہا تھا اور بہہ رہا ہے سے اپنا دامن بچانا مشکل تھا۔ سیاست کو ہم نے اپنے لیے شجرِ ممنوعہ قرار نہیں دیا حسینی سیاست ہمیشہ ’’تحریک‘‘ کی سوچوں پر محیط رہی ہے۔ اس لیے کہ اہلِ وفا کے قافلے ہر لمحہ سوئے کربلا رواں دواں رہتے ہیں جب بھی اسلام اور پاکستان کے مفاد پر زد پڑی ’’تحریک‘‘ نے شہر سیاست کے مکروہ، غلیظ اور خارش زدہ چہروں کو بے نقاب کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر سے بھی کام نہیں لیا، ہم نے دونوں برسرپیکار دھڑوں سے بارہا اپیل کی کہ وہ محاذ آرائی کی سیاست کو ترک کرکے تحریک پاکستان کے حقیقی مقاصد کے حصول کی طرف اپنی سرگرمیوں کے رخ کو موڑیں لیکن جنگِ اقتدار کے فریقین نتائج سے بے پرواہ ہوکر وطن عزیز کے مستقبل سے کھیلتے رہے اور کھیل رہے ہیں اہلِ شر کو کئی بار تنبیہہ کی گئی کہ تم ملک و قوم کو اجتماعی خود کشی کی طرف لے جارہے ہو لیکن قصر اقتدار کی غلام گردشوں میں تاریکی کچھ اور بھی گہری ہوتی رہی، اے مالکِ روز و شب یہ پاکستان تیرے اور تیرے محبوبؐ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اسے اپنے حفظ وامان میں رکھ، پروردگار! اس کے برہنہ سر پر اپنی رحمت کی چادر ڈال، اس کے دریچوں کے چراغ روشن رکھ اور اس کے آنگنوں میں پھول کھلا، اے اللہ تو گواہ ہے کہ ہم نے مشرقی پاکستان کے قافلوں کو کبھی معاف نہیں کیا، ان سے یا ان کی معنوی اولادوں سے سمجھوتے کا تصور بھی محال ہے، ہمارا ایمان ہے کہ محبت کی خوشبو اور لازوال اسلامی اخوت کی حرارت سے ایک دن درِ دل پر پڑے قفل ضرور پگھل جائیں گے‘‘۔
پندرہ روزہ ’’تحریک‘‘ کا شمارہ نمبر 8(1996ئ) ریاض حسین چودھری کی ادارت میں چھپنے والا ’’تحریک‘‘ کا آخری شمارہ ہے۔ اس کے کریڈٹ پیج کے مطابق اس کے ایگزیکٹو ایڈیٹر الحاج محمد سلیم قادری ہیں جبکہ یورپ کے لیے ریزیڈنٹ ایڈیٹر شیخ محمد اشفاق ہیں۔ ادارۂ تحریر ان احباب پر مشتمل ہے۔ پروفیسر محمد رفیق، تنویر احمد قریشی، افتخار علی کلچہ، امانت علی چودھری، افتخار محمود، سمیع الظفر نوشاہی، اے ایم رضا، چوہدری محمد بشیر ایڈووکیٹ اور شبیر علی چوہان ایڈووکیٹ اس کے قانونی مشیر ہیں، سرورق سلام شاد، آرٹ ایڈیٹر سعید احمد سعید ہیں جبکہ محمد ظفر اقبال طاہر اس کے سرکولیشن منیجر ہیں، سرکولیشن منیجر کی حیثیت سے محمد ظفر اقبال طاہر نے گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ تحریک کے دیگر سرکولیشن منیجرز میں عظمت، اظہر اور راشد کے نام بھی قابل ذکر ہیں، ’’تحریک‘‘ کی کمپوزنگ کا کام نواز صاحب کے سپرد تھا جنہوں نے ترجیحی بنیادوں پر اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا، اسلام شاد بڑے پیار سے اس کے سرورق کو دھنک کے سات رنگوں سے سجاتے رہے، سعید احمد سعید رات گئے تک تحریک کی آرائش و زیبائش میں مصروف رہتے، ریاض حسین چودھری کی خدمات ڈاکٹر فریدالدین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سپرد کردی گئیں۔ ’’تحریک‘‘ عارضی تعطل کے بعد اپنے نئے دور کا آغاز کررہا ہے۔ ریاض حسین چودھری کی ’’تحریک‘‘ سے علیحدگی کو قارئین ’’تحریک‘‘ نے کس طرح محسوس کیا ہے، دبئی سے ممتاز صحافی شیخ محمد پرویز کا ایک خط درج کیا جارہا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
’’قارئینِ تحریک خدا حافظ! یہ الفاظ پڑھتے ہی ایک دھچکا سا لگا، مگر تفصیلات پڑھ کر خدا کا شکر ادا کیا کہ قلمی دنیا کا یہ عظیم شہسوار ایک محاذ سے دوسرے محاذ پر سرگرم عمل ہورہا ہے۔ ریاض حسین چودھری صحافت کی دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں کہ آپ کے قلم میں تلوار کی سی کاٹ ہے۔ آپ جب لکھتے ہیں تو ہر ظالم و جابر کے سامنے ایسے سینہ سپر دکھائی دیتے ہیں کہ اقبال کا مردِ قلندر نظر آتا ہے لیکن جب محبت رسولؐ کا ذکر چھیڑتے ہیں تو یہ صوفی منش قلمکار عقیدتوں کے سمندر سینے میں سمیٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ‘‘
تحریک منہاج القرآن کے لیے خصوصاً اور پندرہ روزہ ’’تحریک‘‘ کے لیے خاص طور پر چودھری صاحب کی خدمات بے حد و حساب ہیں کہ ہر شمارے میں آپ صحافی بھی ہوتے ہیں، ایڈیٹر بھی دکھائی دیتے ہیں، شاعر بھی نظر آتے ہیں، نمائندے بھی محسوس ہوتے ہیں، آپ نے اپنی صبحیں، اپنی شامیں، اپنی محبتیں، اپنی خلوتیں، اپنی جلوتیں سب تحریک کے لیے نچھاور کردیں، یقینا آپ کو پندرہ روزہ ’’تحریک‘‘ سے عشق تھا، محبت تھی، عقیدت تھی، ریاض حسین چودھری ایک عظیم صحافی ادیب اور مدحت نگارِ رسول ہیں اور پاکستان کے چند چوٹی کے صحافیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ دعا گو ہوں کہ خداوند کریم آپ کے قلم میں مزید طاقت اور فن صحافت میں کمال عطا فرمائے۔ ان شاء اللہ آپ ڈاکٹر فریدالدین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ناقابلِ فراموش اور عظیم الشان خدمات سرانجام دیں گے اور ان شاء اللہ قائد انقلاب کی توقعات پر سو فی صد پورا اتریں گے۔ امید کرتا ہوں کہ اس ریسرچ کی جھلکیاں ہمیں پندرہ روزہ ’’تحریک‘‘ کے صفحات پر نظر آئیں گی۔