ریاض کی زرِ معتبر: ایک منفرد اسلوب نعت - سید سلطان عارف- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

ریاض حسین چودھری کا نام شاعرِ نعت کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ حب رسول اور حضرت محمد ﷺ سے بے پناہ عقیدت نے ان کو خیالوں کی وہ رفعت اور الفاظ و معانی پر وہ قدرت عطا کردی ہے کہ ثنائے رسول ﷺ کے لیے اظہار کے ذرائع خود راستہ بناتے چلے گئے ہیں۔ یہ محبت و عقیدت کی انتہا کا اعجاز ہے کہ وہ جب نعت کہنے پر آتے ہیں تو بقول غالب

آتے ہیں غیب سے یہ ضامین خیال میں

ایک چڑھی ہوئی ندی کی طرح کوئی رکاوٹ ان کے سد راہ نہیں ہوتی۔ وہ نعت گوئی کی تمام روائتی اقسام سے ہٹ کر شعر کہتے ہیں اور اکثر جگہوں پر وفور محبت میں خود حضور ﷺ سے بڑے بے تابانہ انداز میں محو کلام نظر آتے ہیں۔ وہ ایک عرصے سے نعت کہہ رہے تھے اور ان کی ہر نعت اورنعت کا ہر شعر انفرادیت لیے ہوتا تھا اور صاف گواہی دے رہا ہوتا کہ نعت کا یہ بے ساختہ پن، یہ اوجِ خیال اور خوبصورت الفاظ و معانی کی یہ بندشیں دوسرے تمام شعرا سے ہٹ کر ہیں۔

انہوں نے پابند شاعری کے ساتھ ساتھ نظم معریٰ میں بھی بڑے کامیاب تجربے کیے ہیں۔ دوسرے نعت گو حضرات کو ایک نیا انداز اور نیا لب و لہجہ اپنا کر دکھایا ہے کہ جذب صادق ہو تو اپنے محبوب کے لیے ایسے بھی نعت کہی جاسکتی ہے۔ میرے خیال میں ان کی سطح پر آکر نعت کے شعر کہنا غالباً کسی دوسرے کے بس میں نہیں، یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی ان کی پیروی کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ ایک مدت تک اردو کے شعرا و قارئین کو محو حیرت رکھنے والے اس خوبصورت نعتوں کے شاعر نے بالآخر اپنی نعتوں اور حب رسول ﷺ سے متعلق نظموں کا یہ مجموعہ شائع کرہی دیا۔ عمیر پبلشرز اب اس مجموعے ’’زر معتبر‘‘ کے بعد ان کی نعتوں کے دوسرے مجموعے کشکول آرزو اور تیسرے مجموعے ’’غبار جاں میں آفتاب‘‘ بھی شائع کررہے ہیں۔ یقینا یہ اردو کے نعتیہ ادب میں بیش قیمت اضافے ثابت ہوں گے۔ زیر نظر پہلا مجموعہ ریاض حسین چودھری کے ابتدائی دور کی نعتیں ہیں۔ ان کی نعتوں کی تازگی و شکفتگی، محبوب خدا سے اپنی انتہائی دلی وابستگی اور اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے ان کی ندرت خیال اور وسعت بیان ابتدا سے لے کر انتہا تک بے کراں ہے۔ ان کے نعتیہ اشعار رفعت خیال کے ساتھ ساتھ مترنم بھی ہیں اور یہ اسی والہانہ عقیدت کا اعجاز ہے جس سے ان کی طبیعت سرشار رہتی ہے اور ان کے ہر ذریعہ اظہار کو الفاظ کی موسیقیت بھی بخشتی ہے۔

ورق کو ذوق جمال دے گا قلم کو حسن مقال دے گا

اسی کا ذکر جمیل شہر غزل کی گلیاں اجال دے گا

زنجیر سرہانے رکھ کر میں اس سوچ میں ڈوبا رہتا ہوں

جب شہر مدینہ آئے گا دیوانے کا عالم کیا ہوگا!

حضور اپنے غلام زادوں کو اذن بخشیں گزارشوں کا

فصیل شہر دعا یہ میری صدا بھی آکر ٹھہر گئی ہے