نعت میں جدید اسالیب کی دھنک: آبروئے ما، ڈاکٹر خورشید رضوی- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن
آبروئے ما
نعت میں جدید اسالیب کی دھنک اور
سیاسی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی آشوب کا درد و سوز
’’نعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور عربی میں توصیف و ستایش کے عمومی معنیٰ میں مستعمل ہے۔ چنانچہ نحوی مباحث میں ’’صفت‘‘ اور ’’موصوف‘‘ کو ’’نعت‘‘ اور ’’منعوت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم اُردو کو یہ افتخار حاصل ہے کہ اس میں ’’نعت‘‘ کا لفظ مدح النبی ﷺ کے لئے مخصوص ہے۔ اردو کا مزاج اس لفظ میں کسی اور مفہوم کا شرک گوارا نہیں کرتا۔
غور کیا جائے تو فنِ نعت ارشادِ ربّانی ’’صلوا علیہ وسلموا تسلیما‘‘ کی تعمیل کی ایک صورت ہے جس میں دو سو کے قریب صحابہ وصحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حصّہ لیا۔ پھر یہ نورانی تسلسل اشاعتِ اسلام کے ساتھ مختلف سر زمینوں اور زبانوں میں پھیل گیا اور اردو زبان نے بھی اس سے بہرۂ وافر پایا۔ اردو کا کوئی بھی مسلمان شاعر ایسا نہ ہوگا جس کا کلام نعت سے خالی رہا ہو۔ بلکہ بعض غیر مسلم شعراء نے بھی فنِ مدحت نگاری میں ذوق وشوق سے حصّہ لیا۔ اُردو نعت گوئی کی اس کہکشاں میں محسن کاکوروی‘ امیر مینائی اور مولانا ظفر علی خاں جیسے بعض نام خاص طور پر تابندہ ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اگرچہ ’’نعت‘‘ کے عنوان سے تو شاید کچھ نہیں لکھا تاہم نعت کی رُوح اُن کے کلام میں جا بجا جاری وساری دکھائی دیتی ہے۔
ہمارے زمانے میں جن رفتگان نے نعت گوئی کا بھرپور احیا کیا اُن میں حافظ مظہر الدین‘ حافظ لدھیانوی‘حفیظ تائب‘ مظفر وارثی اور عبد العزیز خالد جیسے شعراء اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ آج اِس قبیلے کے ایک علم بردار جناب ریاض حسین چودھری کا تازہ نعتیہ مجموعہ ’’آبروئے ما‘‘ ہمارے ہاتھ میںہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سر نامہ علّامہ اقبالؒ کی شخصیت اور فن سے چودھری صاحب کی گہری وابستگی کا آئینہ دار ہے اور باندازِ تلمیح، ’’اسرارِ خودی‘‘ کے اس مشہور شعر سے ماخوذ ہے۔
در دلِ مسلم مقامِ مصطفیؐ است
آبروئے ما زنامِ مصطفیؐ است
’’مسلمان کا دل اپنے اندرمحمد مصطفی ﷺ کا ایک لازوال اور بیمثال مقام رکھتاہے اور آپ ہی کے نامِ نامی سے ہماری عزت و ناموس قائم ہے۔ ‘‘
ریاض حسین چودھری ابتداء ہی سے اپنی فنّی توجہ نعت گوئی پر مرتکز رکھے ہوئے ہیں اوراس میدان میں اُن کی خدمات کا اعتراف قومی سطح پر کیا جاچکا ہے چنانچہ اُن کے دو نعتیہ مجموعے ’’رزقِ ثنا‘‘ اور ’’خُلدِ سخن‘‘ صدارتی ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومتِ پنجاب کی طرف سے سیرت ایوارڈ بھی اُن کے حصّے میں آیا۔
جادئہ نعت پر چودھری صاحب کا بے تکان سفر وفاداری واستواری کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے چنانچہ یہ مجموعہ’ آبروئے ما‘ اُن کا دسواں نعتیہ دیوان ہے اور ان شاء اللہ،
ابھی اِس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا
نعت گوئی کا یہ وفُور صرف مشقِ سخن سے میسر نہیں آسکتا۔ اس کے پس منظر میں جذبے کی وہ تڑپ لازم ہے جو فقط زورِ بازو سے ہاتھ نہیں آتی بلکہ خدائے بخشندہ کی بخششِ خاص پر منحصر ہے۔ اس تڑپ کا والہانہ اظہار ریاض حسین چودھری کی نعت میں جا بجا دل کا دامن کھینچتا ہے۔
مری سوچوں کے گنبد میں ثنا کے لفظ گونجے ہیں
جوارِ دیدہ و دل میں دھنک کے رنگ برسے ہیں
ثنائے مصطفیٰؐ کی کہکشاں اُتری ہے سانسوں میں
مرے بھی خون میں شامل ستارے ہوتے رہتے ہیں
چراغاں ہو رہا ہے میری پلکوں کے شبستاں میں
درِ سرکارؐ کے منظر مری آنکھوں میں بستے ہیں
مَیں اپنی خوش نصیبی پر بڑا ہی ناز کرتا ہوں
فضائے نعت میں دل کش پرندے اُڑتے رہتے ہیں
مرے خوابوں کی رعنائی کا اندازہ کرے کوئی
مناظر شہرِ طیبہ کے تسلسل سے گزرتے ہیں
اس خداداد والہانہ پن کی اساس پر ریاض حسین چودھری جو نعت کہتے ہیں اُس میں جذبے کے وفُور کے علاوہ فکری عنصر اور معاصر دنیا کے آلام ومسائل پر درد مندی کا وہ احساس بھی شامل ہے جسے جدید نعت کا ایک امتیازی وصف کہا جا سکتا ہے۔ نعت میں استغاثے کی روایت اگرچہ قدیم سے چلی آرہی ہے، مثلاً قصیدہ برُدہ کی آخری فصل کے ابتدائی اشعار، تاہم اِس دور میں اس کیفیت کا حوالہ بیشتر ذاتی نظر آتا ہے۔ قومی و ملّی آشوب کی نسبت سے استغاثے کی روایت میں مولانا حالی کا ’’عرضِ حال‘‘ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور پھر یہ کیفیت اردو نعت کے سفر میں جا بجا ظہور کرتی رہی ہے۔ اسی کا تسلسل ریاض حسین چودھری کے ہاں بھی، بکمال اخلاص، نظر آتا ہے اور اُن کی نعت میں ہمارے دور کے سیاسی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی آشوب کا درد و سوز رَچ بس گیا ہے۔
کسی نادیدہ قوت نے چرالی قوتِ بازو
حضورؐ! امّت کے روز و شب سے کتنے خوف لپٹے ہیں
ہماری عقل پر پتھر پڑے ہیں یا رسولؐ اللہ
ہم اپنے گھر کی بنیادوں میں پانی بھرنے والے ہیں
کہاں تک دُکھ بتاؤں یا رسول اللہ اُمت کے
بہت سے اشک آنکھوں میں زبردستی بھی روکے ہیں
مٹا رکھا ہے ہم نے یا نبیؐ‘ زندہ ثقافت کو
ادب سے ہم نے قبروں پر بہت سے پھول ڈالے ہیں
زمیں پر خونِ ناحق کے بہت چھینٹے نظر آئے
فضائے پاک میں یا مصطفیؐ زخمی پرندے ہیں
بھُلا بیٹھے ہیں ہم ارشادِ اقدس کا ہر اک پہلو
بہت سے لوگ کوڑے میں سے اپنا رزق چنتے ہیں
حضورؐ اُمت مقیّد ہو رہی ہے بند گلیوں میں
قیامت کے مناظر میری آنکھوں نے بھی دیکھے ہیں
یہ مضمون کہ حضورؐ ختمی مرتبت کی تشریف آوری نے دنیا کو یکسر بدل ڈالا اور ظلمت کو نور میں منقلب کر دیا، نعت کا ایک پُرانا مضمون ہے لیکن اپنی اصل میں اتنا توانا ہے کہ ہر نعت گو کے ہاں احساس کی حِدّت اس مضمون میں جدّت کا احساس بھر دیتی ہے ریاض حسین چودھری کے ہاں بھی اس انقلابِ عظیم کی کیفیت کا اظہار بڑی تازگی کے ساتھ کیا گیا ہے۔
چراغاں کب ہوا تھا آمدِ سرکاؐر سے پہلے
اندھیرا تھا جہاں میں آپؐ کے انوار سے پہلے
زمیں جھوٹے خداؤں کی عملداری میں شامل تھی
بشر آسودہ کب تھا سیّدِؐ ابرار سے پہلے
تصوُّر چاند راتوں کا کہاں تھا ذہنِ انساں میں
ستارے مضطرب تھے احمدِؐ مختار سے پہلے
اور پھر حضورؐ کی ذاتِ پرُنور سے پھیل جانے والی تابندگی کا بیان دیکھئے جس کا فیضان تاقیامت جاری رہے گا۔
ایک اُمّیؐ نے اتارے علم کے سورج ہزار
آج بھی روشن ہیں انسانوں کے اندر کے چراغ
یہ ثنائے سیّدِ ساداتؐ کا فیضان ہے
میری کٹیا میں ملیں گے عُود و عنبر کے چراغ
آؤ دکھلاؤں تمھیں غارِ حرا کی تابشیں
تم نے دیکھے ہیں کبھی دنیا میں پتھر کے چراغ
آپؐ کے نقشِ قدم کو حشر تک چوما کریں
آسماں کی وسعتوں میں ماہ و اختر کے چراغ
سرُخ آندھی کی کروڑوں سازشوں کے باوجود
جل رہے ہیں ہر طرف میرے پیمبرؐ کے چراغ
ریاض صاحب کی نعتیہ شاعری میں جو درد مندانہ مضامین ضمنی طور پر جابجا اُبھر آتے ہیں ان میں سے ایک وطنِ عزیز پاکستان کے حالیہ احوال کا غم اور اس کے تابندہ مستقبل کی تمنّا کا مضمون ہے۔ چند اشعار ملا حظہ ہوں۔
بھیڑیے ہیں ارضِ پاکستان پر ٹوٹے ہوئے
تا ابد روشن رہیں اس کے مقدّر کے چراغ
٭
جاں نثاروں کے وطن پر ہو نگاہِ التفات
مُلتجی ہے ذرّہ ذرّہ‘ یا نبیؐ، روتا ہوا
٭
مہاجن پی گئے پانی مرے کھیتوں کے حصّے کا
مدینے کے افق پر جھومتی کالی گھٹا مانگو
ہوئے ہیں خود کشی پر آج آمادہ مرے بچّے
وطن کی سر زمیں سے تیرگی کا انخلا مانگو
٭
بنیؐ جی‘ بڑھ رہی ہے سر کشی امواجِ برہم کی
ڈبو دے گا سفینے ناخدا، چوکھٹ پہ آیا ہوں
مری بستی کے پیڑوں پر انا لاوا اگلتی ہے
اُٹھے اب امن کی کالی گھٹا، چوکھٹ پہ آیا ہوں
٭
حضورؐ بردہ فروشوں کے خوف سے مَیں نے
تمام بچّوں کو کمرے میں بند رکھا ہے
’’آبروئے ما ‘‘کے قارئین کو اور بھی بہت سے مضامین کے جواہر پارے ریاض صاحب کے کلام میں بکھرے ہوئے ملیں گے۔ ان سب کا حصر اِن مختصر سے تمہیدی کلمات میں ممکن نہیں اور ضروری بھی نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ریاض صاحب کے تسلسلِ فن کو اب کسی تمہید یا تعارف کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ چند حروف تو محض حصولِ سعادت کی غرض سے لکھے گئے ہیں اور ان کا اختتام مَیں اُن کے دو دعائیہ اشعار پر آمین کہتے ہوئے کرنا چاہوں گا:
دل کے ورق پہ جھکتا چلا جائے حشر تک
میرے قلم کو ایسی عبادت نصیب ہو
دونوں جہاں میں میرا تعارف ہو نعت سے
دونوں جہاں میں بزمِ رسالت نصیب ہو