ریاض حسین چودھری کا ارژنگِ فن … ڈاکٹر عزیز احسن- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

ڈاکٹر عزیزؔ احسن

ریاض حسین چودھری کا ارژنگِ فن!

تقدیسی ادب میں خیال کی شعری تشکیل بہت آسان سمجھی جاتی ہے، کیوں کہ عموماً بیانیہ لہجہ اختیار کیا جاتا ہے اور شاعر نثر میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے بجائے منظوم خیالات کی مالا سجا دیتا ہے۔ یوں، عموماً اس نظمانے (Versification)کے عمل سے تقدیسی شاعری کا دامن بھردیا جاتا ہے۔ لیکن حساس شعراء، تقدیسی افکار کی بُنَت میں بھی شعریات (Poetics) کے معیارات کا خیال رکھتے ہوئے اپنے شعری متن کو حساسیت، فن آگاہی، جذبے کی شدت اور زبان و بیان کے خوبصورت پیرائے سے مربوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی تقدیسی شاعری صرف مافیہ (Content) کی وجہ سے پرکشش نہیں ہوتی، بل کہ اظہار کی نفاست اور حسنِ بیاں کی وجہ سے بھی لائقِ توجہ ہوجاتی ہے۔ ریاض حسین چودھری نے زندگی بھر تقدیسی شاعری کی۔ تقدیسی اصنافِ حمد و نعت ان کی شعری دانش اور فکروفن کا ہمیشہ ہی جزوِ لاینفک رہیں۔ انہوں نے اپنے ستھرے شعری مذاق اور عشقِ نبوی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے پُر اخلاص اظہاریئے کا سہارا لیتے ہوئے عمر بھر حمدیہ ونعتیہ متون کے گلاب کھلائے۔ وہ مقلد شاعر نہیں تھے۔ انھوں نے مجتہد شاعر ہونے کا ثبوت دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لہجے میں اظہارات کی دھنک پورے جوبن پر نظر آتی ہے۔ انھوں نے حمدیہ و نعتیہ غزلوں میں عصری حسیت کے ساتھ لہجے کی تازگی کے نقوش بنائے ہیں۔ آزادنظم میں شدتِ احساس کے رنگ بکھیرے ہیں اور اپنی طرف سے ایک نئی صنف ایجاد کرکے اپنی تخلیقی جبلت (Creative instict)کے جوہر دکھائے ہیں۔ اکائی میں ان کی نظمیں ویسے تونظمِ معریٰ کی ہیئت میں لکھی معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن ان نظموں کا ہر مصرع کسی ایک ’’عنوان‘‘ کے تابع کسی خیال کا شعری متن بناہے۔ اس طرح وہ نظمیں مروجہ اصناف میں نئے تخلیقی پیکر کی صورت میں جزوِ فن بنی ہیں۔ ریاض حسین چودھری نے حمد میں زیادہ تر استغاثے کا آہنگ اپنایا ہے اور اس میں شہرآشوب کی کیفیات سمودی ہیں۔ نعت میں اپنی کامل سپردگی کا عکس نمایاں کیا ہے۔ اپنی اور اپنی اولاد کے حوالے سے غلامیٔ مصطفی ﷺ کے میثاق کی بار بار تجدید کی ہے۔ امتِ مسلمہ کی کھوئی ہوئی شوکت کی بازیابی کے لیے حضور ﷺ سے دعاؤں کی التجاکی ہے۔ حمد میں براہِ راست دعا و مناجات سے لبریز جذبات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں رسولِ کریم علیہ السلام کے واسطے سے التماس گزرانی ہے۔ ان کے شعری ارژنگ میں ایک خیال کے ہزار ہا پہلوؤں کی رنگ آمیزی ملتی ہے۔

ریاض حسین چودھری کے فن میں لفظوں کی ترکیب سازی کا ہنر بہت نمایاں ہے۔ وہ دو یا دو سے زیادہ الفاظ کو یکجا کرکے اظہار میں تنوع کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت اور وسیع معنوی دائرہ بھی بنادیتے ہیں۔ مثلاً

جوارِ گنبدِ خضرا، سرِ لوحِ گماں، حصارِ خوف، فراتِ عشق، بتانِ عصرِ نو، غبارِ مصلحت، زرِ فقر و غنا، اعزازِ نسبت، جرمِ ضعیفی، اسلوبِ غلامی، شعاعِ عفو، عروسِ غزل، رعنائی خیال، شمیمِ سحر، شاخِ قلم، کشتِ عمل، حصارِ سرمدی، ناقۂ حرفِ ثنا، آیتِ عشقِ نبی … جیسے لسانیاتی مرکبات اس بات کا ثبوت ہیں کہ شاعر کو لفظیاتی مرکب سازی کابھر پور شعورحاصل ہے اور وہ اُفقِ فن پر معنیاتی دھنک رنگ پھیلانے پر قدرت بھی رکھتا ہے۔

حمدیہ نظموں اور غزل طور لکھی ابیات پر انہوں نے جو عنوانات قائم کیے ہیں وہی متن کی معنوی گرہ کشائی کررہے ہیں۔ مثلاً

٭ یا خدا! میرا قلم رقصِ مسلسل میں رہے

٭ شعورِ بندگی سے یا خدا مجھ کو مشّرف کر

٭ نعتِ ختم المرسلیںؐ لکھتا رہوں

٭ میرے ہاتھوں پہ گھر کی بشارت بھی تحریر کر

٭ یا خدا، زخمی قلم، زخمی زباں سجدے میں ہے

٭ ردائے شامِ تذبذب بکھر بکھر جائے

آزاد اور معریٰ نظموں میں بھی شاعر کے جذبے کی حرارت کے باعث خیال کی معنیاتی ترسیل اور احساسات کی پُر کشش تجسیم دیدنی ہوگئی ہے۔ مثلاً

جب ہوا کے لب پہ بھی مہکیں ترو تازہ گلاب

جب صبا صحنِ چمن میں وجد کے عالم میں ہو،

ہر طرف خوشبو جلائے جب چراغِ آرزو

ہر کلی کے ہاتھ میں بھی موتیوں کے ہار ہوں

جب لبِ تشنہ پہ بوندیں آسمانوں سے گریں

جب دھنک کے رنگ اتریں مرغزاروں میں ہزار

جب گریں شبنم کی بوندیں پھول کے رخسار پر

جب محبت ہر دریچے میں جلے بن کر چراغ

ہر طرف گاتی پھرے میرے سخن کی روشنی

شہرِ طیبہ کی ہواؤں سے کروں میں گفتگو

(یا خدا! میرا قلم رقصِ مسلسل میں رہے )

جیسا کہ پہلے مذکور ہوا، ریاض حسین چودھری نے ایک نئی صنف بھی ایجاد کی ہے۔ اس میں یک لفظی عنوانوں کے تحت، حمدیہ و نعتیہ مصرعے رکھے ہیں جو اپنی معنوی جہت کے آئینہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ شدتِ تمنا کے عکاس بھی ہیں…مثلاً

یا خدا!

دے تو شعورِ بندگی کی روشنی

یا خدا!

محرومیوں کی راکھ ہے سر پر سوار

یا خدا!

میرے لہو میں ہیں ہوس کی بجلیاں

یا خدا!

دامن میں دے آسودگی کے پھول بھی

سلام

رحمتِ عالم، سلام میرِ اممؐ

سلام

مخبرِ صادق، امین، نورِ ازل

سلام

ندرتِ افکار کا جلال و جمال

سلام

محسنِ اعظم، سلام دل کے مکیں

نعت کیا ہے؟

دلکشی ہی دلکشی انوار کی

نعت کیا ہے؟

حجلۂ جاں میں ادب کی کہکشاں

نعت کیا ہے؟

ہادی اعظمؐ کی توصیف و ثنا

سید المرسلیںؐ!

آپؐ سردار نبیوں، رسولوں کے ہیں

سید المرسلیںؐ!

آسماں آپؐ کے ہیں، زمیں آپؐ کی

سید المرسلیںؐ!

آپؐ مقصودِ تخلیقِ کون و مکاں

آقاؐ!

فضائے نعت کا ہر سانس کو گداز

آقاؐ!

رہیں درود کی ٹھنڈک میں میرے لب

آقاؐ!

ملیں مواجہہِ اقدس کی ساعتیں

ریاضِ حمد ونعت میں غزل طور لکھی گئی نعتوں میں فکری تنوع اور عصری حسیت کے حوالے سے کہیں برملا اور برہنہ اظہاریہ ہے اور کہیں امیجری میں ملبوس متنی پیکر ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

خوف کے گرداب سے کشتی مری آئی نکل

جیب و داماں میں پڑے ہیں آج بھی کچھ ڈر جدا

آج بھی ہر طرف جبرِ شب کا دھواں، آج بھی ہیں اُڑی امن کی دھجیاں

ہر صدا ہے مری آج بھی بے اثر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر

اپنے اپنے مفادات کی قید میں، دل کے رشتوں کا کوئی بھرم کیا رکھے

زندگی بن گئی رغبتوں کا سفر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر

خود ستائی کے ہیں کاغذی پیرہن، میرے خارش زدہ جسم کی خاک پر

سامنے زندگی کا کٹھن ہے سفر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر

یہاں ہوائیں بھی رو رہی ہیں، دکھوں کی فصلیں اُگی ہوئی ہیں

ہدف قضا کا بنا ہوا ہوں، حضورؐ، میرا خیال رکھئے

مرے ہیں چاروں طرف مسائل، ہے روح اندر سے میری گھائل

مَیں ٹھوکروں میں پلا ہوا ہوں، حضورؐ میرا خیال رکھئے

کوئی چہرہ نہیں فاروقِ اعظمؓ کی طرح روشن

کئی چہرے ہیں آقاؐ سامنے جھوٹی قیادت کے

شام بستی کی منڈیروں سے اٹھاتی ہے چراغ

قافلے والے بھُلا بیٹھیں نہ اپنا راستہ

ریاض حسین چودھری نے اظہارِ فن کے لیے اپنا ایک الگ اور منفرد اسلوب دریافت کیا ہے اوروہ خاصی حد تک اپنے تخلیقی ارژنگ میں اپنی انفرادیت کے جوہر دکھانے میں کامیاب ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں تعلی آمیز اشعار بھی، اظہارِ حقیقت کے آئینہ دار لگتے ہیں:

دھنک اسلوبِ مدحت کی ودیعت کی گئی مجھ کو

سخن بانٹے حروفِ نو غزل کی اپسراؤں میں

کرتا رہا غزل سے جو مَیں نعت تک سفر

ملکِ سخن میں سوچ کی ہجرت یہی تو ہے

اسلوبِ ثنا سب سے جدا پایا ہے میں نے

اربابِ سخن نے مرا لہجہ نہیں دیکھا

شاعر کو اپنے وطن کی اسلامی اقدار سے مسلسل دوری کا غم ہے اور وہ برملا پاکستان کے حوالے سے استغاثائی تاثرسے لبریز شعری پیکر بناتا ہے:

آج بھی لایا ہوں پاکستان کے آنسو حضورؐ

آج بھی حاضر پسِ دیوار ہے آقاؐ، غلام

بیاضِ نعت تسلسل ہے اشک باری کا

قلم کا رقصِ مسلسل ہے بے خودی کی دلیل

ریاضؔ، آباد پاکستان کو میرا خدا رکھے

ہر اک مخلوقِ خالق پر دعائے مرسلیںؐ برسے

ماحول کی ناسازی اور دینی اقدار کی پائمالی کے احساس نے شاعر کے کربِ دروں کو کس انداز سے متنی جہت دی ہے۔ ملا حظہ ہو:

ہو زندہ حقائق کی سرِ عام نمائش

ہر ہاتھ میں مسلا ہوا اخبار ہوں آقاؐ

دینی اقدار کے فقدان نے شاعر کے دل کو ملول تو کردیا ہے لیکن اس نے رجائی جذبے کو مرنے نہیں دیا ہے۔ وہ کہتا ہے:

تم شبِ جرم ضعیفی کے اندھیروں سے کہو

پھر یدِ بیضا بنے گی، آستیں کی روشنی

محترم عبدالعزیزدباغ نے ریاض حسین چودھری سے اپنے دلی تعلق اور نسبتِ ہم نشینی کو نباہتے ہوئے ان کی تین کتب [1]تاجِ مدینہ۔ [2]کتابِ التجا۔ [3]اکائی…کو یک جلدی کتاب ’’’ریاضِ حمد و نعت‘‘ میںجمع کرکے شائع کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور نبیء رحمت علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نگاہِ عنایت کے طفیل وہ اپنے ارادے کو واقعہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

نعت ریسرچ سینٹر کے زیرِ اہتمام کتاب کی اشاعت بھی اس ادارے کے لیے باعث افتخار ہے۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم شاعر کے کلام کو مقبولیت کی خوشبوعطافرمائے اور اشاعت کے مراحل میں شامل لوگوں کو، دنیا میں نفحاتِ کلامِ حمد ونعت پھیلاتے رہنے کی توفیقات سے نوازتا رہے۔ (آمین)!