حقیقی نعت کا اسلوب اور سقوط ڈھاکہ کا صدمہ : ارشد طہرانی- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

شاعر کا شعر، ادیب کا ادب پارہ یا کوئی نثر کا ٹکڑا کس قدر قیمت کا مالک ہے، یہیں سے نقاد کے نکتۂ نظر کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ان معروف معنوں میں مَیں نہ تو ادیب ہوں نہ نقاد مگر اتنا ضرور ہے کہ کسی اچھے شعر یا ادب پارہ کا کوئی ہلکا سا جھونکا بھی سماعتوں کو چھو جائے تو درِ ذوق وا ہوجاتا ہے۔

سچ جانیے کہ جو وجدانی کیفیت ریاض حسین چودھری کی قومی اور ملی شاعری سے میسر آتی ہے، اس کی لذت ہی کچھ اور ہے۔ بالخصوص نعت گوئی کے منصب جلیلہ پر فائز ہوکر جب سے ریاض نعت کے درِ معتبر میں جلوہ فگن ہوئے ہیں، وہ اللہ کی مخلوق میں بھی بڑے معتبر ہوگئے ہیں۔ ’’نقوش‘‘ کے رسول اللہ ﷺ نمبر میں ڈاکٹر ریاض مجید کا نعت کے موضوع پر ایک طویل مضمون شائع ہوا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ایک رسمی نعت ہے، ایک حقیقی نعت۔ رسمی نعت وہ ہے جو محض شعری روایت کے تحت لکھی گئی یا کسی شعوری ضرورت کے تحت۔ اس شعری روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کم و بیش ہر شاعر نے حضور نبی کریم ﷺ کی شان میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھا ہے اور اسے اپنے شعری دیوان کے آغاز میں بطور حصول برکت و ثواب شامل کیا ہے۔

اس کے برعکس حقیقی نعت گوئی ہے، حقیقی نعت کا اطلاق ہی ’’نعتیہ ادب‘‘ میں کیا جاتا ہے، جس کے لکھنے والوں نے نعت کو ایک ادبی صنفِ سخن کے طور پر اختیار کیا۔ نہ صرف اسے مقبول کیا بلکہ اس کے حقیقی لوازمات، فنی اور صنفی نزاکتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے گہرے شغف، توجہ، انہماک، جذب و وجدان اور قلبی وابستگی کے احساس سے نعت کو ایک نعتیہ ادبی اور فنی معیار عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘

اس تناظر میں دیکھیں تو جناب ریاض حسین چودھری نے حقیقی نعت کے اسلوب کو خوب نبھایا اور یوں نعتیہ ادب کے ذریعے نبی کریم ﷺ کی محبت، سیرت اور آپ کے ہمہ گیر پیغامِ امن و سلامتی نیز نسلِ انسانی کے لیے اسلام کے آفاقی نظامِ حیات کی ترویج و اشاعت کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اپنے ذوقِ نعت گوئی کی اٹھان کا اظہار ریاض یوں کرتے ہیں:

عالمِ ارواح میں بھی رقص کرتا تھا قلم

یہ وفورِ نعت میری روح کے اندر کا ہے

اس وقت ریاض حسین چودھری کی شخصیت اور ان کی ابتدائی ادبی مشغولیات کے متعلق کچھ کہنا ہے۔

سیالکوٹ کی گزشتہ تقریباً نصف صدی کی ادبی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ریاض کے تذکرے کے بغیر سیالکوٹ کا ادبی منظر نامہ تشکیل پاتا نظر نہیں آتا۔ یہ تب کی بات ہے جب سیالکوٹ کے کہنہ مشق اساتذۂ شعر و ادب اور صاحبِ دیوان شعراء کے بغیر کوئی ادبی مجلس نہیں سجتی تھی، ایسے میں بیس بائیس سال کی عمر میں ریاض کا دنیائے شعر و ادب میں اترنا کسی ادبی دھماکے سے کم نہ تھا۔ آپ نے سیالکوٹ میں حلقۂ اربابِ ذوق کی بنیاد رکھی پھر اس کی خوب آبیاری کی۔ ان کی کاوشوں سے سیالکوٹ میں شعر و ادب پر تبصرے اور تنقید کی بنیاد پڑی۔ جس سے نئے لکھنے والوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ اپنے فن کو نکھارنے کے وافر مواقع میسر آئے۔

شعر و ادب میں توازن کے بغیر کوئی ادب تخلیق ہی نہیں پاتا۔ ریاض کے ہاں ان کی شخصیت، نام اور ماحول میں بھی ایک توازن تھا جس کا بگڑ جانا ان کے ذوقِ لطیف پر بڑا گراں گزرتا۔ اگر کوئی غلطی سے بھی ’’چودھری‘‘ کے ہجوں میں تھوڑے بہت تغیر سے ’’چوہدری‘‘ یعنی ’’ہ‘‘ کو ’’د‘‘ سے پہلے لے آتا تو وہ واپسی ڈاک اپنے نام کے درست ہجوں کو اختیار کرنے کا نصیحت نامہ اسے تھما دیتے اور خود قلم اٹھا کر اپنے نام لکھے مکتوب میں حرفی یا لفظی غلطی کو درست کرلیتے۔

ان کی ادبی زندگی کا پورا عرصہ بڑا متحرک رہا۔ تقریباً 2002ء کے بعد ایسا وقت بھی آیا کہ پے درپے بیماریوں نے انہیں گھیر لیا۔ جن میں شوگر، ہائی بلڈ پریشر اور ’’چلنے پھرنے میں خاصی دقت‘‘ سرِ فہرست تھیں۔ یہ بیماریاں ریاض کی مستقبل مہمان تھیں جس طرح گھر آئے مہمان کی خدمت و تواضع کرتے رہنا ان کے معمولات میں شامل رہا۔ ان بیماریوں نے انہیں بیرون خانہ تقریبات میں آنے جانے سے خاصی حد تک روک رکھا تھا لیکن ان کا ذہن اور قلم ان کی ہنگامہ خیز ادبی زندگی سے بھی زیادہ سبک رفتار ہوگیا۔ البتہ بیماری کے باوجود نعت کے حوالے سے منعقدہ تقریبات میں پہنچ جاتے۔ ایسے میں ان کے فرزند مدثر ریاض نے خدمت گزاری کا حق خوب ادا کیا۔

حصارِ نعت میں تنہا ہی نہیں وہ اپنے گھر بار کو بھی برابر شامل رکھتے۔ اپنے اہل و عیال، بیٹے بیٹیوں حتی کہ پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کو بھی بٹھا کر اپنی نعتیں سناتے:

آسماں شہرِ محمدؐ کا نظر میں چاہیے

ہر پرندہ میرے لفظوں کا سفر میں چاہیے

میرے بچوں کو وراثت میں ملے حبِ رسولؐ

یہ اثاثہ بعد میرے بھی تو گھر میں چاہیے

ان کی سیکرٹری شپ کے دوران تقریباً پچیس سال تک حلقۂ ارباب ذوق، سیالکوٹ کی واحد متحرک ادبی تنظیم تھی جس کے ہفتہ وار اور پندرہ روزہ اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہوتے رہے اس دوران کسی بھی اخبار کا ادبی ایڈیشن حلقہ اور ریاض کے تذکرے کے بغیر نظروں سے نہیں گزرا۔ ادبی اور شعری مجالس جناب ریاض کی غزل، قومی گیت، نعت یا ملی اور قومی اشعار کے بغیر ادھوری سی لگتیں۔

ریاض عمر کے تقریباً 75 ویں سال سے گزر رہے تھے۔ حافظہ بلا کا، سوچ و فکر میں تازگی، چست جملوں کی آمد مزید برآں کہ نہایت خوبصورت قلم ہر وقت ان کے زیبِ جیب رہتا۔ حلقہ ارباب ذوق کے سدا بہار سیکرٹری جن کی موجودگی میں ہم اس منصب کا حصول سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ایک عرصہ تک پاکستان نیشنل سنٹر کے دانش کدہ میں، پھر چوہدری فضل دین اینڈ سنز کے عقبی ٹھنڈے ٹھار کمرے میں، جب وہاں سے جی اکتایا تو کیفے ڈی شیخ اور پھر امیلیا ہوٹل چل دیے تو حلقہ بھی ان کے پیچھے پیچھے ہولیا۔

شعر گوئی، شعر فہمی اور ذوق مجلس آرائی، یہ تو ریاض کی ادبی دنیا کا خارجی وجود، اگر ہم ان کے داخلی شعری اور فکری وجود پر نگاہ ڈالیں تو وہ ریاض کی عمر سے کم و بیش 100 سال بڑا اور قد آور دکھائی دیتا ہے۔ فیض احمد فیض گورنمنٹ کالج لاہور پڑھتے تھے ان کے انگریزی کے استاد نے سو میں سے ایک سو پندرہ نمبر دیئے تو پوری کلاس معترض ہوئی کہ استاد گرامی یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ تو استاد نے یہ کہہ کر سب طلبہ کو خاموش کرادیا کہ فیض کا انگریزی کا پرچہ ایسا ہی تھا کہ میں انہیں 100 میں سے 115 سے زیادہ نمبر نہیں دے سکتا تھا، تو پھر تیس پینتیس سالہ ریاض کے کلام میں اگر 100 سال کی فکری پختگی، بالغ نظری اور مضامین پر گرفت جلوہ فگن ہو تو ایسے میں ان کی عمر 150 سال شمار کرلی جائے تو اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ جب ریاض حسین چودھری کا وطن دو لخت ہوا تو ان کا 150 سالہ فکری وجود ریاض کے 35 سالہ جسم پر ہتھیار بند ہوکر کھڑا ہوگیا اور زور دار لہجے میں دنیا کی استحصالی قوتوں کو للکارنے لگا:

کوئی بتائے مے کدہ کیونکر اجڑ گیا

بکھرے ہوئے ہیں جام تو ٹوٹے ہوئے سبو

اپنے لہو میں ڈوب گئی شبنمی ہوا

ویران ہوگیا ہے گلستانِ رنگ و بو

کیونکر سقوطِ مشرقی بنگال مان لوں

چھینٹے اڑیں گے میری عقیدت کے کو بکو

ریاض کا وجود کرچی کرچی ہوکر یوں صفحۂ قرطاس پر بکھر گیا۔

کس نے چرا لیے مری آنکھوں کے سات رنگ

کس نے سمیٹ لیں مرے ہونٹوں کی شوخیاں

کھُلنا کے بام و در پہ مرے خون کی بہار

میں نے کمال پور کو دیا عزمِ بے کراں

سلہٹ میں چاٹگام میں میرے نفس کو ضَو

جیسور میری حریت کے تقدس کا پاسباں

مشہود میرے ذوقِ شہادت کا آج بھی

ہے راجشاہی میری امنگوں کا ترجماں

میں نے رکھی ہے لاج اُحد اور حنین کی

دیناج پور ہے میری شجاعت کا اک نشاں

ڈھاکہ حدیثِ شوق کے عنواں کی آبرو

کس نے اڑا دیں اس کے تقدس کی دھجیاں

سچ جانئے کہ سقوط ڈھاکہ سے ریاض کی غزل میں وطن کی مٹی سے وابستگی کا حوالہ سب سے معتبر ہوگیا۔ اس کا وطن کیا دو لخت ہوا، ایسے لگتا ہے کہ راہ چلتے بچے کی طرح ریاض کا ہاتھ اس کے والدین کے ہاتھوں سے چھوٹ گیا، وہ اپنے گمشدہ والدین کی تلاش میں ہر نگر ہر کوچے میں یہ صدا دے رہا ہے:

ایک ایک میرے باغ کی پتی بکھر گئی

اہلِ وطن پہ آج قیامت گزر گئی

اب کس کے واسطے میں تراشوں مجسمے

تخلیق کی نمو کی ضرورت ہی مر گئی!

سقوط ڈھاکہ کے بعد ریاض تادمِ آخر اپنے دشمن اپنے اندر تلاشنے کے عمل سے باہر نہیں نکلا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ کر اپنے اندر کے دشمن سے مخاطب ہے:

موت سے پہلے مری آخری خواہش ہے ریاض

میرا دشمن، میرے چہرے پہ ملے خاکِ وطن

اور

آئو اپنے جسم چُن دیں اینٹ پتھر کی جگہ

بے درو دیوار ہے، لیکن یہ گھر اپنا تو ہے!

ریاض ارض وطن سے محبت کی یہ خوشبو اور مہک عشقِ مصطفی ﷺ کے سنبل و ریحان سے کشید کرتا رہا اور اس خوشبو سے وہ تمام اہلِ وطن کو مشکبار دیکھنا چاہتا ہے:

اس ملک کی جبین کا جھومر ہے لا الہ

یہ سر زمیں ہے عظمتِ قرآں کی سر زمیں

جب سے عشقِ مصطفی ﷺ ریاض کی انگلی تھام کر انہیں دربارِ رسالت میں لے گیا تب سے وہ گھر واپس نہیں لوٹے اور دربار رسالت میں ہی بستر بچھائے آخری دم تک گنگناتے رہے:

چند آنسو ہیں ندامت کے فقط زادِ سفر

مختصر سا ہے مگر کافی ہے سامانِ حیات

اور

قدموں میں مرے آقاؐ رہنے کی اجازت ہو

ہم بھی ہیں اٹھا لائے گھر بار مدینے میں

عیدی میں ملیں مجھ کو آدابِ ثناء گوئی

رمضان میں ہو یارب افطار مدینے میں

جناب ریاض کے والد گرامی چودھری عبدالحمید ولد چودھری عطا محمد آف رنگپورہ سیالکوٹ فخرِ اولیاء حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوریؒ کی براہِ راست عقیدت و ارادت میں تھے۔ جناب ریاض کے والدین کا نکاح محدث علی پوریؒ نے پڑھایا۔

قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں ریاض حسین چودھری (چودھری فضل دین اینڈ سنز) کا پورا گھرانہ محدث علی پوریؒ کے حکم پر قائداعظمؒ کے شانہ بشانہ سرگرم عمل رہا۔ جب آل انڈیا مسلم لیگ کی سالانہ صوبائی کانفرنس 28 تا 30 اپریل 1944ء تالاب شیخ مولا بخش سیالکوٹ میں منعقد ہوئی اور قائداعظمؒ اس کانفرنس میں بطور خاص شریک ہوئے اور تین دن تک سیالکوٹ میں قیام کیا تو ریاض حسین چودھری کی آبائی رہائش چودھری فضل دین بلڈنگ رنگپورہ ان عمارات میں سے ایک تھی جسے مسلم لیگ ہائوس قرار دے کر مقامی مسلم لیگ کے حوالے کردیا گیا تھا جہاں آل انڈیا سے آئے ہوئے مسلم لیگی وفود میں سے متعدد نامور ہستیوں نے تین دن تک قیام کیا۔ ان میں مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا بشیر اخگر اور مولانا عبدالستار نیازی بھی شامل تھے۔

میں ایک شاعرِ گمنام ہوں مرے آقا

مرے بھی ہاتھوں میں تیری ثناء کی مالا ہے

مجھے خود اپنے تشخص کی کیا ضرورت

ترا حوالہ ہی سب سے بڑا حوالہ ہے

ریاض حسین چودھری نعتیہ مشاعروں کے اختتام پر یہ شعر پڑھا کرتے تھے:

اقبالؒ کی زمیں سے حرم کی زمین تک،

اشکوں نے جو کیا ہے چراغاں قبول ہو

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت!!!