قیقنسِ نعت … خواجہ طارق اسماعیل- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

19-9-2017، سیالکوٹ

ریاض حسین چودھری ایک اجتماعی باعمل سوچکا نام ہے جو بلا امتیاز اپنے دوستوں کی تکریم کے قائل ہیںانہوںنے کبھی اپنے دوستوںکو محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ پاکستان کی ایک نامور ہستی ہیں جن کے چھ نعتیہ مجموعوں کو سیرت صدارتی اور صوبائی ایوارڈ ز سے نوازا گیا۔ ان کی نعت کی 23 ضخیم کتب ایک شفاف عاشقِ رسول ہونے کی دلیل ہیں۔ وہ سیالکوٹ کے ایک پڑھے لکھے گھرانے کے تعلیم یافتہ چشم و چراغ ہیں مجھے ان کی قربت شعر گوئی کے حوالے سے ملی میرا شوق شعرگوئی مجھے ان کے قریب لے گیا جو کہ میری دیرینہ خواہش کی منزل بھی تھی ریاض صاحب کی شفاف بے لوث گھُل مِل جانے والی طبیعت کی وجہ سے ہم جلد ہی بلا تکلف دوست ہوگئے اس وقت ان کے حلقہ احباب میں نامور شاعر تاب اسلم، آثم میرزا، رفیق ارشد، رشید آفریں، پروفیسر اکرام سانبوی، عین، ادیب، اسلم ملک، اسلم عارف وغیرہ شامل تھے ان کا دفتر میرے گھر کے قریب ہونے کی وجہ سے میں جب چاہتا ان سے مل لیتا سموسوں اور چٹنی کے بعد سٹرانگ چائے کا دور ان کی میزبانی کا خاص انداز تھا۔ یہ 1974ء کے اوائل کی بات ہے، ایک روز ریاض صاحب نے بتایا سیالکوٹ میں حلقہ اربابِ ذوق کا اجرا ہورہا ہے پھر لاہور سے شہزاد احمد، عصمت طاہرہ اور حفیظ صدیقی آئے اور حفیظ صدیقی سیکرٹری اکرام سانبوی جائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ حلقہ کسی وجہ سے فعال نہ ہوسکا پھر دو سال بعد تشکیل نوہوئی اس میں ریاض صاحب پہلے سیکرٹری اور راقم الحروف جائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ بطور سیکرٹری 1980ء تک فرائض منصبی خوب نبھائے مگر اس کے بعد بھی حلقہ ریاض صاحب کی سرپرستی میںکئی سال فعال رہا۔ اسی دوران تمام دوستوں نے محسوس کرلیا تھا کہ ریاض صاحب کے اندر ایک سچے عاشق رسول کی کہکشاں روشن ہے۔ پھر ریاض صاحب کی نعتیہ شاعری کی کتابیں یکے بعد دیگرے آنا شروع ہوگئیں ان کتب میں ایک ان کی کتاب’’ تمنائے حضوری‘‘ چھپی جو کہ ایک طویل نعتیہ نظم ہے اس کے پیش لفظ میں انہوںنے اپنے تمام دوستوں کا ذکر کرتے ہوئے مجھے میرے اس شعر پر:

عالم وجد میں رقصاں مرا پر پر ہوتا

کاش میں گنبدخضریٰ کا کبوتر ہوتا

جو عزت بخشی اسے میں کبھی بھی نہیں بھلا سکتا۔ ان کی شخصیت کا ایک روحانی اثر ہے کہ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اپنے اس عاشق رسول دوست کی قربت کی وجہ سے شاید محشرمیں میری بھی بخشش ہوجائے جس نے مجھے نعت گوئی کی جانب راغب کیا۔

ہوا یوں کہ ایک نعتیہ مشاعرے کا اھتمام کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ طارق اپنی نعت کے بغیر مشاعرے میں نہ آنا۔ میرے لئے نعت کہنا اور وہ بھی اس قدر تھوڑے وقفے میں تقریباً ناممکن تھا۔ میں بغیر نعت لکھے چلا گیا۔ مجھے انہوں نے پو چھا کہ نعت لکھ کر لائے ہیں۔ میرا جواب نفی میں سن کر کچھ سنجیدگی سے کہنے لگے کہ آپ ابھی جائیں اور نعت لکھ کر لائیں۔ میں وہیں ایک الگ کمرے میں جا کر بیٹھ گیا اور لگا سوچنے کہ کیا نعت لکھوں اور کیسے لکھوں حتیٰ کہ مجھے اونگھ آ گئی اور دو گھنٹے کے لئے آنکھ لگ گئی۔ اٹھا تو خود کو ایک تخلیقی کیفیت میں پایا اور یہ شعر میرے شعور میں رقصاں تھا:

عالم وجد میں رقصاں مرا پر پر ہوتا

کاش میں گنبدِ خضریٰ کا کبوتر ہوتا

پھر کیا تھا، بس ایک بہاؤ تھا اور کچھ ہی دیر میں نعت مکمل ہو گئی۔ تب میں ریاض صاحب کے پاس آیا۔ میرے چہرے کی بشاشت دیکھ کر مسکرائے اور پوچھنے لگے شعر سناؤ اور میں نے یہی شعر سنا دیا۔

پھر تو ان کی کیفیت دیدنی تھی جیسے وہ رقص میں ہوں اور وجدان میں گنبدِ خضرا اپنے سامنے دیکھ رہے ہوں اور کوئی کبوتر محوِ طواف نظر آ رہا ہو۔ نعت سنی اور بہت حوصلہ افزائی کی اور کہنے لگے کہ آپ نے نعت لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ جب میں تمنائے حضوری میں ان کا لکھا ہوا طویل پیش لفظ پڑھتے پڑھتے یہاں تک پہنچا کہ طارق اسماعیل کا یہ شعر لاشعور میں ایسا سمایا کہ تمنائے حضوری جیسی طویل نظم عطا ہو گئی تو میں ایک ناقابلِ بیان کیف میں کھو گیا اور ریاض حسین چودھری کی نعت گوئی کا آقا و مولا ﷺ کی عطائے خاص ہونے پر محکم یقین آگیا۔

میں نے یہ واقعہ کبھی کسی سے بیان نہیں کیا تھا۔ مگر جب ریاض کے خصوصی قریبی دوست جناب شیخ عبدالعزیز دباغ نے چودھری صاحب کی وفات کے بعد ان کے تعزیتی ریفرنس میں اپنے مشاہدے کی بنا پر یہ کہا کہ کتاب کا نام تو تمنائے حضوری ہے مگر انہیں دراصل مقام حضوری تفویض کیا جا چکا تھا اور ساتھ طارق اسماعیل کے اس شعر کا اور تمنائے حضوری انہیں کیسے عطا ہوئی ان کیفیات کا کھل کر ذکر کیا تو مجھے تحریک ملی کہ میں اب یہ واقعہ بیان کر ہی دوں۔ چنانچہ خصوصی گزارش کر کے میں نے وقت لیا اور تفصیل سے بتایا کہ ریاض نے مجھے نعت لکھنے کی طرف کیسے راغب کیا۔

رب کریم سے التجا ہے کہ وہ اس شاعر رسول ﷺ کو اپنی جنت قرب میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہماری ان کے ساتھ نسبت کو ہماری بخشش کا ذریعہ بنا دے۔ آمین۔