زرِ معتبر، رزقِ ثنا اور سلامٌ علیک…احسان اللہ طاہر- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

احسان اللہ طاہر

ریاض حسین چودھری کی نعت

زرِ معتبر، رزقِ ثناء اور سلامٌ علیک کے حوالے سے خصوصی مطالعہ

(جناب محمد اقبال نجمی نے اسے ’’مفیض نعت تبصرہ نمبر2‘‘ میں شائع کیا۔ )

وہ لوگ جو شعورِ حب نبی ﷺ کی دولت کو اس جہان میں عام کررہے ہیں، لوگوں کو زندگی کی ساعتوں کو درود و سلام کے لیے وقف کرنے کا درس دے رہے ہیں، دل کے دیئے جلاکر عصر نو پہ چھائی اداسی کو رونق بخش رہے ہیں اور دنیا کو ثنائے خیرالانام ﷺ کے پھولوں کی خوشبو عطا کررہے ہیں اُن میں ایک نام اُس فقیر کا بھی ہے جس کو دنیا ریاض حسین چودھری کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وہی ریاض ہے جس نے ابھی تک دنیائے نعت کو کشکولِ آرزو، زرِ معتبر، سلامٌ علیک، رزقِ ثنا، تمنائے حضوری اور متاعِ قلم جیسے اعلیٰ پائے کے مجموعے دیئے ہیں۔

ریاض حسین چودھری نے عصر حاضر کے انسان کی روح پر محیط خوف و ہراس کے سایوں کو ختم کرنے کے لیے دربارِ رسالت ﷺ سے ردائے امن مانگی ہے اور اس دور کے انسان کے ہر سوال، ہر مشکل اور ہر مسئلے کا حل آپ ﷺ کی سیرتِ اطہر میں بتایا ہے۔ ریاض حسین چودھری کے یہاں سیرتِ رسول ﷺ کو ہر دور اور ہر جہان کا نصاب کہا گیا ہے۔ آپ چونکہ ایک ماہر قانون دان بھی ہیں۔ آپ کے فن میں شہرِ اقبال کا فن بھی بولتا ہے اور ایک لمبے عرصے کا تجربہ بھی، یوں سمجھیے کہ نصف صدی سے آپ پرورش لوح و قلم کررہے ہیں اور اس فن میں جو انہوں نے کمایا ہے، جو اُن کا سرمایہ ہے، وہ نعت رسول کریم ﷺ ہے۔

موصوف نے نعت لکھی ہی نہیں بلکہ نسلِ نو کو نعت لکھنے کے فن سے آشنائی بھی عطا کی ہے آپ نے نعت لکھنے کے لیے جن تقاضوں اور لوازمات کو پورا کرنا ہوتا ہے اور نعتیہ افکارکو کیسا ہونا چاہیے ان کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ آپ اپنے اساتذہ کرام آغا صادق مرحوم اور آسی ضیائی کا ذکر بھی ہر جگہ کرنا باعثِ فخر خیال کرتے ہیں۔ آپ کی نعت کی پہچان فکرکے علاوہ آپ کا فن بھی ہے کہ آپ نے اپنی تخلیقی قوت سے کچھ ایسی تراکیب اور نعتیہ اصطلاحات فنِ نعت میں متعارف کروائی ہیں جو کہ آپ کے فن کی پہچان ہیں جیسے غلام زادے، بانجھ موسم، ردائے امن، نعت قبیلہ وغیرہ۔ عصر نو کے دھواں دھواں منظر میں کہ جس میں انسان کو انسان کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا، اس دورِ نارسائی میں انسان کو جتنی سیرتِ مطہرہ پر عمل پیرا ہونے، اسے پڑھنے، سمجھنے، دلوں میں محسوس بھی کرواتا ہے اور اسے شدت سے بیان بھی کرتا ہے۔ اسے شعورِ حبِ نبی ﷺ کہیے کہ خالی نعروں اور غلامی رسول ﷺ میں موت بھی قبول ہے، سے آج کے حالات نہیں بدلتے بلکہ آپ نے اس میں ’’شعور‘‘ کا اضافہ کرکے اسے جس طرح ہمارے رگ و جاں میں اتارا ہے اسی طرح آپ اس احساس کو معاشرے میں اجتماعی حوالے سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ جب اس پہلو سے اپنی نعت میں اپنی فکر کو اوراق کے سپرد کرتے ہیں تو ان میں اپنے دل کا سوزِ دروں اتارتے ہیں، اسی احساس کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔

مر کر بھی پڑے رہنا سرکارؐ کی چوکھٹ پر

کیا خوب غلامی کا مفہوم نکالا ہے

شعورِ طوقِ غلامی مرا اثاثہ ہے

ہنر کوئی مرے دامن میں ہے کہاں آقاؐ

بڑی اداسی سی عصرِ نو میں بہار مستی پہ چھا رہی ہے

شعورِ حبِ نبیؐ کی دولت، جہانِ نفرت میں عام کرنا

تفکر کی شاخِ ثمر ڈھونڈتے ہیں

متاعِ یقیں کے گہر ڈھونڈتے ہیں

حضورؐ اپنے ہم بال و پر ڈھونڈتے ہیں

ندامت کے اشکوں سے دامن ہے بھیگا

سلام علیک سلام علیک

سلام علیک سلام علیک

ریاض حسین چودھری نے فکرو فن کے جو پھول دنیائے نعت کی کیاریوں میں کھلائے ہیں اُن میں درود و سلام کے پھولوںکی خوشبو نمایاں تر، بھینی بھینی، دلکش اور دل و جاں کو ہر موسم میں معطر کرنے والی ہے۔ مذکورہ کتابوں ( زرِ معتبر، رزقِ ثنا اور سلامٌ علیک) کے انتساب اور ان کے ٹائیٹل اشعار بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپ ہر وقت جن آیات کی تلاوت کرتے ہیں، ہر پل جس خمار میں مست رہتے ہیں، ہر لمحے جس خیال میں زیست کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مرے بچے بھی ایسے ہی کریں وہ درود و سلام ہے۔ موصوف نے، مرے بچوں اور مرے گھر کا استعارہ بڑے وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے کہ ایک عاشق رسول اپنی اور مخصوص خاندان کے لوگوں کی زندگی اور ذات سے آگے بڑھ کر کائناتی حوالے سے سوچتا ہے۔ ان کتابوں سے چند اشعار دیکھیں۔

حشر تک چین سے سو جائو، فرشتوں نے کہا

دیکھ کر قبر میں بھی صلِ علیٰ کا موسم

مرے بچوں کو وراثت میں ملے حبِ رسولؐ

یہ اثاثہ بعد میرے بھی تو گھر میں چاہیے

برستی آنکھو! خیال رکھنا بہت ہے نازک فضائے طیبہ

مدینہ آئے تو چپکے چپکے درود پڑھ کر سلام کرنا

اب اگر ان کتابوں کے انتساب کی طرف دھیان کریں تو پھر بھی ہمیں مختلف اور بڑے پیارے حوالوں سے یہی موضوع نظر آئے گا۔ جیسے ’’سلامٌ علیک‘‘ کا انتساب اُن ملائکہ کے نام جو درودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں لے کر صبح و شام گنبدِ خضرا کے جوارِ کرم میں اترتے ہیں اور آقائے محتشم ﷺ کے درِ عطا پر حضوری کی سرشاریوں سے ہمکنار ہونے کا شرف عظیم حاصل کرتے ہیں۔ ’’زر معتبر‘‘ کا انتساب دیکھیں کہ ’’اس کائناتِ رنگ و بو کے خالق و مالک کے نام، جس نے قرآنِ مجید، فرقانِ حمید اپنے محبوب پر نعتِ مسلسل کی صورت میں نازل فرمایا، اسی طرح تیسری کتاب کا انتساب ایک شخص کے نام ہے جو کہ شفاعتِ مصطفی ﷺ کی طلب رکھتے ہوئے زندگی مکمل کرتا ہے۔ ریاض حسین چودھری کے ہاں مناجات کا اپنا ہی رنگ ہے جس کو ہم اُن کا تخلیقی رنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ نبی کریم ﷺ سے اپنے بچوں کے لیے ردائے رحمت، ردائے امن اور نسیم صبح کی دعا کرتے ہیں وہ اِن غلام زادوں کے لیے امن و سکون اور خوشحالی کی دعائیں کرتے ہیں۔ ان مناجات میں ہم دیارِ مدینہ کی مٹی کو اپنے دامن میں لگا محسوس کرنے لگتے ہیں جس سے ہمارے جسم و جاں کے درو دیوار خوشبو میں نہاجاتے ہیں، تذبذب اور وہم و یقین کے درمیان ڈولنے والے خیالات کو پختگی ملنے لگتی ہے، وادیٔ جاں میں لطف و راحت کا منظر اترنے لگتا ہے۔ موصوف نے جدید دور کے تقاضوں اور افکار کو سامنے رکھ کر نعت کو ایک ایسا آہنگ اور رنگ دیا ہے کہ ہمیں ہر شعر پرکھ کر اس کی فکر کے اجالے میں اپنی کہنہ سوچوں کو بدلنا پڑتا ہے۔ نعت لکھنے والوں کو اس نئے اسلوب اور زبان و بیان سے اپنی نعت کو نکھارنا پڑتا ہے کہ اس میں جو بھی دکھ درد بیان ہوا ہے وہ ہمارا اپنا ہے، ہمارے اپنے معاشرے کا ہے۔ اس جدید دور کی تہذیب جو کہ ہم سے ہر انسانی قدر چھیننے کے درپے ہے اس سے گلو خلاصی کے لیے ریاض حسین چودھری نے بڑے درد مندانہ انداز میں مناجات لکھی ہیں، دیکھئے :

خیمۂ جاں پر دبائو آندھیوں کا ہے بہت

جو پہنچ جائیں مدینے اُن صدائوں کو سلام

شہرِ گماں میں الجھے ہوئے ہر سوال کا

اے عصرِ نو! ازل سے ہیں حتمی جواب وہ

کھلے ہیں اُس کے نقوشِ پا سے تمدنوں کے گلاب چہرے

کتابِ تشکیک کا مصنف کہاں سے ایسی مثال دے گا

ریاض حسین چودھری نے اپنے فکر وفن کے سارے رنگوں، زاویوں اور خوبصورتیوں کو، فکر کے سارے اجالوں کو، حسنِ مقال اور اسلوب کے جمال کو سیرتِ مصطفیؐ سے لیا ہے اور اسے عطائے حبیبؐ خدا کہا ہے۔ اسی عطا کو بیان کرنے کے لیے آپ نہ تو شاعرانہ تعلّی کو استعمال میں لائے ہیں اور نہ ہی اس کو کبھی اپنے لیے کوئی بڑا پن خیال کیا ہے بلکہ اس کو اپنے کریم کی کریمی اور رحیم کی رحیمی لکھتے ہوئے آپ تھکتے ہی نہیں ہیں۔

میں ایک شاعر حروفِ نو سے کشید کرتا رہا ہوں کرنیں

وہ مہرباں مجھ سے بے ہنر کو سخنوری کا کمال دے گا

زادِ سفر ہے نعتِ رسولؐ امم ریاضؔ

بخشش کا میرے پاس وسیلہ بھی ہے یہی

حسانؓ و کعبؓ و جامیؓ و بوصیریؓ و رضاؒ

خوش بخت ہوں کہ میرا قبیلہ بھی ہے یہی

ورق کو ذوق جمال دے گا، قلم کو حسنِ مقال دے گا

اُسی کا ذکرِ جمیل شہرِ غزل کی گلیاں اجال دے گا

اسے زوال کا ڈر ہے نہ خوف پت جھڑ کا

بہارِ خلدِ قلم نعتِ مصطفیؐ سے ہے

شہرِ سخن میں اسمِ نبیؐ کی ہے چاندنی

ورنہ کمال کیا مرے دستِ ہنر میں ہے

نعت رسول ﷺ کیا ہے؟ اس کے تقاضے کیا ہیں؟ اس کا صلہ دنیا و آخرت میں کیا ہے؟ اس کو لکھتے ہوئے اورلکھنے کے بعد نعت نگار کیا محسوس کرتا ہے؟ آپ نے اپنی شاعری میں شاعرانہ انداز سے فلسفیانہ اسلوب میں ایک عاشق صادق کی طرح ان سارے سوالات کا جواب دیا ہے نعت کو دریائے عشق میں غرقابی کا نام دے کر ہر جذبے کی سیرابی کہا ہے۔ تصورات کو شہرِ طیبہ کی گزرگاہوں میں رکھ کر سیرتِ رسول پہ عمل کرتے ہوئے زیست کرنے کو موصوف نے نعت کہا ہے۔ جامِ حب سرورِ کونین پینے کو آپ نے نعت کہا ہے، اس کو کہیں عطائے رحمت پروردگار لکھا ہے تو کہیں وادیٔ شعرو سخن کا افتخار اور وادیٔ جاں میں ایک حسیں نغمے کی بازگشت کہا ہے۔ آپ نے نعت کے حوالے سے شاید ہی کوئی روحانی، دنیاوی اور دینی و مذہبی پہلو چھوڑا ہو جس پر کہ نعتیہ افکار کے حوالے سے بات نہ کی ہو۔

دل کے بنجر کھیت میں کرنیں اگا دیتی ہے نعت

نقش باطل کے جبینوں سے مٹا دیتی ہے نعت

رحمت و بخشش کی ارزانی ہے نعتِ مصطفیؐ

دیدہ و دل کی ثنا خوانی ہے نعتِ مصطفیؐ

نعت کہنے کے لیے دل پاک ہونا چاہیے

غرقِ الفت دیدۂ نمناک ہونا چاہیے

دل کی ہر دھڑکن کہے یا مصطفیؐ تو نعت ہو

حکم دے میرے قلم کو جب خدا تو نعت ہو

خطۂ افکار کے اسی جاہ و حشم کو جو کہ آب و تابِ مصحف لوح و قلم ہے ہر صدی کے سر پہ دستار کرم ہے، جس کا دل اسی میں لگ جاتا ہے وہ زندگی کے سارے رازوں کو پالیتا ہے پھر وہ ایک پل بھی اس کے بغیر نہیں گزار سکتا ہے۔ ریاضؔ حسین چودھری کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے وہ بھی جو دم غافل سو دم کافر کا نعرہ مستانہ لگاتے ہیں اور اسی رحمت پروردگار کے حصار میں رہنا چاہتے ہیں۔ اپنی زندگی مدحت خیرالبشر ﷺ میں ختم ہونے کی دعائیں کرتے ہیں، اپنی پہچان ہی نعت کو بنایا ہوا ہے۔

ریاضؔ جس دن، ریاض جس شب ثنا کے پھولوں سے گھر نہ مہکے

ریاضؔ وہ دن عذاب لکھنا، ریاضؔ وہ شب حرام کرنا

جس شب نہ اُنؐ کا اسمِ منور بنے چراغ

وہ شب مرے نصیب میں یارب کبھی نہ ہو

اُس دن کے بعد صبح کا سورج نہ ہو طلوع

جس دن نزولِ آیت عشقِ نبیؐ نہ ہو

حریم شعر میں تیرےؐ سوا سجتا نہیں کوئی

حدیثِ عشق و مستی کا تو ہی عنوان ہے آقاؐ

سلامٌ علیک ریاض حسین چودھری کی پہلی طویل نعتیہ نظم ہے جس کو انہوںنے اکیسویں صدی کی طویل نعتیہ نظم لکھا ہے۔ اس نظم میں انہوں نے حضور خاتم النبیین ﷺ پر درود و سلام پیش کیا ہے۔ آپ ﷺ کی امت کا سارا احوال لکھا ہے اور آپ ﷺ کے صدقے اللہ تعالیٰ سے اپنے مسائل کا حل مانگا ہے۔ موصوف چونکہ ایک صاحب دل اور صاحب نظر شاعر ہیں اس لیے دربار رسالت مآب ﷺ میں حاضری کے وقت اپنی قوم اور رسول کریم ﷺ کی امت کے احوال کو بیان کرنا اپنا فرض خیال کرتے ہیں، اس ذمہ داری کو آپ نے شدت درد اور آنسوئوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔

ریاضؔ حسین چودھری نے اپنی نعتوں سے ہماری کشتِ جاں میں فصلِ محبت اگائی ہے جو کہ ہمیں عصرِ نو کے مسائل سے نمٹنے کی جرأت اور ہمت بھی دیتی ہے اور موسم کے بانجھ پن سے بھی بے نیاز کرتی ہے۔ گلستانِ جاں میں ہر لمحے پھول کھلاتی ہے، ان دعائوں میں موصوف نے جتنے بھی استعارے اور الفاظ استعمال کیے ہیں ان سب کا پس منظر اور جڑیں ہمارے دینی ادب اور اسلامی تاریخ میں پیوست ہیں۔

درود و سلام کے موضوع کے ہر پہلو کو موصوف نے بڑی شدت اور درد دل سے بیان کیا ہے کہ قاری اپنی زبان پر یہ نغمے خود بخود جاری ہوتا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر امکان بھر سارے پہلوئوں کے حوالوں سے بات کی ہے۔ سلامٌ علیک میں تو ساری بات ہی درود و سلام، احوال امت و قوم، عصر نو کے مسائل انسانیت کے مسائل، تہذیب نو کے اندھیرے اور نسلِ نو کو ان مذکورہ حادثات سے محفوظ رکھنے کی دعائیں ہیں۔

تلاشِ سکوں میں یہ نکلا ہوا ہے

مگر ذات اپنی میں بکھرا ہوا ہے

حضور ابنِ آدم کہ بھٹکا ہوا ہے

ملے ابنِ آدم کو نقش کفِ پا

سلامٌ علیک سلامٌ علیک

سلامٌ علیک سلامٌ علیک

کھلیں پھول صلِ علیٰ کے زباں پر

رقم چاند تارے ہوں چرخِ گماں پر

عطائوں کی رم جھم گرے کشتِ جاں پر

کہ نوک قلم پر بھی پھوٹے یہ نغمہ

سلامٌ علیک سلامٌ علیک

سلامٌ علیک سلامٌ علیک

درودوں سے کریں شام و سحر میں رنگ آمیزی

خدائے لم یزل کا بھی یہی فرمان ہے آقاؐ

ریاض حسین چودھری نے اپنی زندگی کو ثنائے رسول ﷺ کے لیے وقف کیا ہوا ہے اور اسی ثنا سے وہ زمانے کے لیے سکون و امن اور آسودگی تلاشنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں جس طرح موصوف خود آرزوئے دیدِ حضور ﷺ سے موت کو گلفشاں بنائے ہوئے ہیں اور زندگی کو بے نیازِ خزاں کیے بیٹھے ہیں اس طرح آپ کی نعتیں بھی قاری پر ان کے اندر کی اسی سچائی اور صداقت کا اثر چھوڑتی ہوئی گزرتی ہیں۔ آپ کی نعتیں دلِ مردہ میں جان پیدا کردیتی ہیں، بیداریٔ حیات کا سامان پیدا کرکے نورِ یقین عطا کرتی ہیں۔ اس حوالے سے ریاض حسین چودھری نے سیرت رسول ﷺ کے نقوش کو یوں ابھارا ہے کہ عصر نو کے زنگ آلود افکار کے مالک انسان کی سوچوں میں بھی حرفِ تازہ کا نزول ہونے لگتا ہے۔ آپ ﷺ کی سیرت اطہر کہ جس نے ہر صدی، ہر زمانے کے انسان کو چہرہ دیا ہے۔ یہ نعتیں ہمیں اسمِ رحمت کا ورد سکھاتی ہیں جس کے طفیل ہمارے بدن میں کرنیں، نور اور اجالے اترتے ہیں۔ جب موصوف خود اس گریز پا روشنی کو پاتے ہیں تو اسمِ رحمت سے وہی نور، وہی روشنی کشید کرتے ہیں۔

ہوائے طیبہ کے نقشِ پا کو

بنا کے اپنی جبیں کا جھومر

مرے دریچے کی سمت امشب

قدم قدم طشتِ زر اٹھائے

بفیض ذکرِ رسولِ آخرؐ

رواں دواں ہیں

جب ریاضؔ چودھری اپنی نعت میں حضور اکرم ﷺ کی سیرت کے مختلف پہلوئوں کو بیان کرتے ہیں تو ہر پیارے لفظ کو اپنے عشق کے نور اور اجالے سے نہال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: موصوف سیرت کے بیان اور اس کے پرچار میں آپ ﷺ کی صفتِ رحمت و کریمی کے پہلو کو زیادہ نمایاں کرتے ہیں۔ آپ کی نعتوں میں طائف کا حوالہ بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے اور یہی حوالہ آج آپ اپنی قوم کے لوگوں میں راسخ کردینا چاہتے ہیں۔

درگزر کر کے پیمبرؐ نے گنہ گاروں کو

اپنے انوار کی کملی میں چھپا رکھا ہے

ریاضؔ حسین چودھری کی نعت آج کی نعت ہے، آنے والے دور میں نعت نگاروں کے فکرو فن کے سفر کی وادیوں اور منزلوں کی سمت متعین کرتی ہوئی وارفتگی و سپردگی کی کیفیات سے نسل نو کو دو چار کرتی ہوئی نعت ہے۔ موصوف نے عشق رسول ﷺ سیرت اور شعور حُب رسول ﷺ کو معاشرے کے لوگوں میں یوں بانٹا ہے کہ آپ کی نعت اہل درد کے دلوں کی دھڑکن بنتی جاتی ہے۔ موصوف کی نعت کا یہ سفر جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے اس میں عشق کی تڑپ اور بھی بڑھتی ہے اور یہی تڑپ وہ اپنے قاری کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کی نعت عہد حاضر کی کامیاب ترین نعت ہے کہ اس میں ہمارے لیے نور، علم، روانی فن اور ہنر کے سارے دیے روشن ہیں جو ہمارے دل کے دیے کو روشن کرتے چلے جاتے ہیں۔