شعور و احساس اور انوار سرمدی: رشید آفریں- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

6 اگست 2017ء کو یہ روح فرسا خبر سنی کہ جناب ریاض حسین چوھری اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ یعنی شہرِ اقبالؒ کے عظیم نعت گو شاعر ہم میں نہیں رہے اور ایک ایسا خلا پیدا کرگئے ہیں جو شاید آئندہ کئی صدیوں میں پورا نہ ہوسکے۔

ریاض حسین چودھری کا نام برصغیر کی اردو نعت گوئی میں ایک معتبر حوالہ ہے، صنفِ غزل میں بھی وہ ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اور اردو ادب میں ان کی غزل کو نہایت توانا اور موثر سمجھا گیا ہے۔ اب چونکہ انہوں نے نعت کو اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا اس لیے نعت گوئی میں محویت نے ان کے شعور کو اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ یہاں تک کہ نعت کا حوالہ ہی ان کی جان پہچان بن گیا۔ انہوں نے نعت گوئی میں متعدد صدارتی و صوبائی ایوارڈ اور اعزازات حاصل کیے:

چراغِ نعت جلتے ہیں مرے چھوٹے سے کمرے میں

مرے آنگن کی چڑیاں بھی درود پاک پڑھتی ہیں

مجھے خود اپنے تشخص کی کیا ضرورت ہے

ترا حوالہ ہی سب سے بڑا حوالہ ہے

انہوں نے یکے بعد دیگرے 13 عدد نعتیہ شعری مجموعے پیش کیے ہیں جو عوام و خواص سے بے پناہ داد تحسین حاصل کرچکے ہیں اور کررہے ہیں، ان کے نام بالترتیب اس طرح ہیں:

1۔ زر معتبر۔ 2۔ رزقِ ثناء۔ 3۔ تمنائے حضوری۔ 4۔ متاعِ قلم۔ 5۔ کشکولِ آرزو۔ 6۔ سلام علیک۔ 7۔ خلدِ سخن۔ 8۔ غزل کاسہ بکف۔ 9۔ طلوعِ فجر۔ 10۔ آبروئے ما۔ 11۔ زم زمِ عشق۔ 12۔ تحدیثِ نعمت۔ 13۔ دبستانِ نَو۔ ۔ ۔ انہوں نے اس مقدس صنف کے ذریعے نہایت ہی فراوانیٔ شوق اور خودسپردگی کے عالم میں جو گلہائے عقیدت خوش کن الفاظ اور دلکش ندرتِ بیان اور سلیقے قرینے سے کھلائے ہیں، اس کی مثال اردو نعت گوئی میں نظر نہیں آتی۔

ان کی نعت کا مطالعہ کرتے وقت یقین ہوجاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی محبت ہی ان کی فکر و نگاہ کا محور ہے اور وہ اسی محو و غرقاب ہیں۔ سرورِ دو جہاں ﷺ ہی ان کی محبت کی ابتدا اور انتہا ہیں وہ نعت کہتے ہوئے صرف اپنی ہی ذات کے لیے بخشش اور خیرو برکت کے طلبگار نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ اور ارضِ وطن کا درد اور احساس بھی ان کی فریادوں اور التجائوں میں جھلکتا ہے اور جس کے لیے وہ ہر لمحہ ایک ادنیٰ غلام اور سوالی بن کر اس کی بقا اور اتفاق و یکجہتی کے لیے دعا گو دکھائی دیتے ہیں۔

ریاض حسین چودھری کا شمار غزل کے نامور شعراء میں ہوتا ہے لیکن جب سے انہوں نے نعت گوئی کو اپنایا، نہ صرف نعت گوئی کی برکات سے عالمِ امکان کو مہکاتے رہے بلکہ انسان کے شعور و احساس کو انوار سرمدی سے جگمگاتے بھی رہے۔ انہوں نے اپنی زبان و بیان کی بلند پروازیوں سے نئی نئی تراکیب اور استعارے اور تشبیہات کو متعارف کرایا۔ وہ نعت گوئی کو ایک نہایت نازک صفت گردانتے تھے اور اشعار کہتے وقت بے انتہا محتاط نظر آتے تھے۔ حضور ﷺ کی ذات اقدس کی تعریف و توصیف کا مضمون ہو یا ان سے موجودہ دور کے آلام و مصائب کا ذکر، ریاض عرض گزاری کا اپنا انداز رکھتے تھے جس میں ان کا والہانہ پن اور سوز و گداز قاری کو بے حد متاثر کرتا ہے اور وہ بھی اپنے آپ کو ان لمحات میں احترام و عقیدت میں ڈوبا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہی تو نعت کی اصل معراج ہے جس کی خدا تعالیٰ نے ریاض کو توفیق عطا کی تھی اور یہی اس کے لیے دنیا اور آخرت کے لیے سب سے بڑا اعزاز و انعام ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور محتوں کے صدقے خیرالانام رسولِ عربیؐ کے قرب سے نوازے۔ آمین