نعتِ ریاض …ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

ڈاکٹر سید یحيٰ نشیط

نعتِ ریاض

عقیدے کی شاعری کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ تقدس کی نورانی فضاجو روایتی قدروں کی بدولت شاعری میں عود کر آتی ہے وہ شعریت کو ماند کر دیتی ہے مگر ان قدیم رو ایتوں سے منہ موڑنا اور ان کی اہمیت و افادیت سے انکارکرنا ایک ادبی نقصان سے کم نہیں۔ اس لیے گو کہ ہم اپنے قدیم ادبی اثاثے اور اس کی روایتوں کی حدود میں محصور نہیں رہ سکتے مگر انھیں نظر انداز بھی نہیں کر سکتے۔ عصری ادبی تجربات کی اہمیت مسلم ہے، لیکن کوئی ادب اپنی کلاسکی روایتوں سے قطع تعلق کر کے زندہ نہیں رہ سکتا۔

بیسویں صد ی کے چھٹے عشرے سے ادب میں جدید رجحان پروان چڑھا۔ اس کے اثرات نئی مشرقی و مغربی اصناف ادب پر مرتب ہوئے تو ہمارا تقدیسی ادب بھی اس سے متأثر ہوا۔ چنانچہ حمد، نعت، منقبت، مرثیہ، مذہبی قصص وغیرہ میں عصری تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے نئے تجربات کئے گئے۔ اس کے اولین نقوش ہمیں عمیق حنفی کی نعتیہ تخلیق ’’ صلصلۃ الجرس ‘‘( طبع اول 1971ئ)میں دکھائی دیتے ہیں۔ تقدیسی ادب میں جدیدیت کے علم برداروںمیں بعد میں بیسیوں نام داخل ہوئے، ان میں ریاض حسین چودھری کا نام اس لیے سب سے اہم ہے کہ ان کے وصال تک ان کے تیئس نعتیہ مجامع مکمل ہو چکے تھے جن میں سے تیرہ منظر عام پر آچکے تھے۔ ’’ ورد مسلسل ‘ ‘ان کا آخری نعتیہ مجموعہ ہے جو ان کی وفات کے بعد شائع ہو رہا ہے جبکہ اولین مجموعہ’’ زرِ معتبر‘‘ کی اشاعت 1995ء میں عمل میں آئی تھی۔ اس مجموعے کی اشاعت کے بعد ریاضؔ مسلسل نعتیں لکھتے رہے اور’’تمنائے حضوری کی خاطر’’ کشکول آرزو ‘‘میں ’’متاع قلم ‘‘ کی سوغات لے کر ’’ برستی آنکھوں‘‘ سے’’خلد سخن‘‘ میں ’’ ریاض حمد و نعت ‘‘ تلاش کرتے رہے۔

ریاضؔ کے بیس سے زائد نعتیہ مجامع کو ان کی زود گوئی یا بسیار گوئی پر محمول نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ شوق کی وارفتگی اورجذبات کے وفورکے سہارے شگفتہ رَوی کے ساتھ محو درود کائنات میں اخروی نجات کی پناہ گاہیں تلاش کرتے ہیں۔ ان کا ہرنعتیہ مجموعہ گویاان کے جہد مسلسل کی ایک منزل ہے جسے پانے کے لیے استقلال کی کسوٹی شرط ہے۔ ریاض ؔنے حبِّ رسول ﷺ کے تئیں اپنے استقلال اور لگن کا ثبوت ان مجامع میں بہم پہنچایا ہے۔ وہ خود بار گاہ ایزدی میں تمام اوراق پر توصیف آقا ﷺ رقم کرنے کے لیے قلم کے تا ابد رقص کرنے کی دعا کرتے ہیں۔

ریاضؔ کے نعتیہ مجموعہ’’ ورد مسلسل ‘‘ میں حمد، نعت، سلام جیسی موضوعی اصناف ہیں تو قطعات، فردیات، ثلاثی وغیرہ جیسی اصناف سخن بھی پائی جاتی ہیں۔ ان کے یہاں نعت کا روایتی اور رسمی انداز نہیں پایا جاتا، ، وہ اپنی نعتوں میں جدید تقاضوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ چاہے الفاظ کا درو بست ہو، تراکیب کی بندش ہو، خیال کی رعنائی ہو، مضمون آفرینی ہو یا معانی آفرینی، ریاض ؔ نعت کی ان جزئیات میں بھی جدت کا خیال رکھتے ہیں۔ خیال آفرینی کی ایک مثال دیتا چلوں تو اپنی ایک نعت میں وہ کہتے ہیں :

یانبیؐ، اکھڑی ہوئی سانسوں کا بھی چارہ کریں

بے بسی کے خیمۂ انفاس میں رہتے ہیں ہم

سر برہنہ قافلے والے ہیں سورج کے تلے

خوب برسے قافلوں پر آپؐ کا ابرِ کرم

گر چکے قعرِ مذلت میں غلاموں کے ہجوم

عزمِ نو کے دیجئے امت کے بیٹوں کو عَلَم

ریاض نے نعتیہ اشعار میں شعری جمالیات نمایاں کرنے کے لیے بعض قدرتی اشیاء کے حسی پیکر تراشنے کی بھی کوشش کی ہے جیسے: باد شمال کا جشن مسرت سجانا، باد صبا کا چراغ ادب جلانا، ہوائے گلستاں کا نعت پیغمبر سنانا، کلی کا نام لکھ دینا، آنگن کے پیڑ وں پر لالہ و گل کا ہجوم ہوجانا، خوش بو کا پیرہن بن جانا، خوشبو کا لب اظہار، قلم کی راجدھانی میں حروف لب کشا کا اترنا، کلک ثنا کو ماہ تمام عطا ہونا وغیرہ۔ ان کے یہاں دھوپ، جنگل، چراغ، ہتھیلی، سایہ، دیوار، کے استعارے اوران سے بنے محاور ے اور تراکیب کے استعمال سے نہ صرف یہ کہ اشعار میں معنو ی حسن پیدا ہوا ہے بلکہ نعت میں جدت کی فضا پروان چڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ریاضؔ کا ایک خاص کمال یہ ہے کہ وہ سامنے کی چیزوں کو اٹھا کر انھیں نئی معنویت عطا کرتے ہیں۔ تتلی، آنگن، شجر، پتھر وغیرہ کا ان کی نعتوں میں استعمال اس کی مثال ہے۔ وہ ریایت لفظی کے ذریعہ جہان معنی سجانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے انھوں نے ایک شعر میں ’’ اسم گرامی‘‘ اور ٹھنڈک کو باندھا ہے۔ گو اس میں تضاد کا پہلو دکھائی نہیں دیتا مگر شاعر نے ٹھنڈک کے لفظ کو باندھنے کے لیے ’’ گرامی ‘‘ کو صنعت ناقص کے طور پر ( گرمی ؍ گرامی )استعمال کیا ہے جس سے شعر کے معنوی حسن میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ان کے یہاں صنعت کے پیچیدہ استعمال کی یہ ایک مثال ہے۔ ایک شعر میں انھوں نے خا مشی اور نطق و بیان کا استعمال بھی صنعت تضاد کے لیے کیا ہے۔ ریاضؔ کے یہاں اس طرح صنعتوں کے استعمال میںجدت کا اثر و نفوذ پایا جاتا ہے متذکرۂ بالا خصوصیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ ریاضؔ کی نعتیہ شاعری میں عصری حسیت کے ساتھ شاعری کے جدید تقاضوں کو بھی فنکارانہ انداز میں برتا گیا ہے۔