نئے نصاب نعت کی تشکیل و تزئین : ڈاکٹرکاشف عرفان- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

نئے نصاب نعت کی تشکیل و تزئین

(نصابِ غلامی)

اکیسویں صدی نعت کی صدی ہے۔ معاصر ناقدین نعت اِس بات پر متفق ہیں کہ پچھلے بیس برس میں حمد و نعت کا کام اس تواتر اور معیار کے ساتھ ہوتارہا ہے کہ موجودہ صدی یقینا حمد و نعت کی صدی ہوگی۔ غزل کے علائم و استعارات کو نعت میں نہایت مشاقی سے برتا جارہا ہے۔ نظم کی ہیئت میں نعت کا فروغ بھی اِس بات کی شہادت ہے کہ نعت گو شعراء سرکارِ دو عالم حضرت محمد ﷺ کے عشق کے بیان میں اظہار کے نئے قرینوں کی دریافت کررہے ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ نعت میں تقدیس، عجز اور احترام کے ساتھ تخلیقی وفور کو پیش کرنے کے لیے نئے استعارات، علائم اور تشبیہات کا ظہور ہورہا ہے۔

معاصر ناقدین نعت کے اس بیان ’’اکیسویں صدی نعت کی صدی ہے‘‘ کو سامنے رکھا جائے تو ہمیں اِس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ پچھلے بیس برس میں حمد و نعت کے اِس گلشن نو شگفتہ کی تشکیل و تزئین کے لیے بیسویں صدی کے وہ کون سے نمایاں شعراء ہیں جنہوں نے اِس کھیتی کی کاشت میں اپنا حصہ ملایا۔ قیام پاکستان کے بعد بہزاد لکھنوی، ضیاء القادری، ماہرالقادری، بشیرحسین ناظم، شمس مینائی، اسد ملتانی، عبدالعزیز خالد، عارف عبدالمتین، حافظ مظہر الدین، نعیم صدیقی، مظفر وارثی، آسی ضیائی، حفیظ تائب، احمد ندیم قاسمی، شورش کاشمیری، اعظم چشتی، راجہ رشید محمود، عاصی کرنالی، ہلال جعفری، کرم حیدری، انعام اسعدی، قمر روعینی، صبیح رحمانی اور ڈاکٹر ریاض مجید جیسے عظیم شعرائے نعت نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں اور عشقِ رسول ﷺ کے جذبے کی مدد سے حمدو نعت کے اسلوب میں وسعت پیدا کی۔ ان بزرگ شعراء کی کاوشیں ہمیں عہدِ موجود کی نعتیہ تخلیقات اور تنقیدی شعور میں نمایاں نظر آتی ہیں۔

بیسویں صدی کے ساتویں اور آٹھویں عشرے میں نعتیہ افق پر نمودار ہونے والے شعراء کرام میں ریاض حسین چودھری کا نام ایک مخصوص نعتیہ اسلوب اور تخلیقی وفور کے باعث نمایاں ہوا۔ وہ نعت کی تخلیق کے حوالے سے ایک سمندر تھے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے ہزاروں اشعار کہے اور اُن کے زیادہ تر اشعار شائع ہوکر ناقدین فن سے داد وصول کرچکے ہیں۔

آغاز میں غزل بھی کہتے تھے اور خوب کہتے تھے تاہم وفورِ عشقِ رسول ﷺ کے زیر اثر خود کو حمد و نعت کے لیے وقف کردیا۔

میں تو کیا سوچیں بھی میری دست بستہ ہیں ریاضؔ

جب بھی سوچوں گا نبی ﷺ کی نعت ہی سوچوں گا میں

ریاض حسین چودھری نعت کے بحر بیکراں تھے۔ اُن کے 20مجموعہ ہائے حمد و نعت اشاعت پذیر ہوچکے ہیں جن میں بیشتر کو اعزازات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ اِن میں سے تیرہ(13) مجموعہ ہائے نعت ان کی زندگی میں شائع ہوئے جبکہ باقی مجموعہ ہائے حمد و نعت بعداز مرگ اشاعت پذیر ہوئے۔

ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری ایک عاشقِ صادق کی شاعری ہے جس میں کلاسیکی نعتیہ روایت کے سبھی مضامین موجود ہیں۔ استعارات و تشبیہات سے مزین کلام کی تاثیر انہیں اپنے ہمعصر شعراء میں منفرد و ممتاز بناتی ہے۔ اُن کے نعتیہ مجموعے ’’نصاب غلامی‘‘ میں علامت کی تشکیل پر مشتمل نعتیہ اشعار بھی ملتے ہیں۔

برگد کے بوڑھے پیڑ پر تخلیقِ حرفِ نو

آقا ﷺ ! کبھی ہماری بھی چوپال پر نظر

برگد اور چوپال اس خوبصورت نعتیہ شعر میں استعاراتی کائنات سے باہر علامت کی تشکیل کرتے نظر آتے ہیں۔ استعارے سے علامت تک کا یہ سفر اُن کی مشاقی اور فن نعت پر اُن کے عبور کی نشاندہی کرتا ہے۔ اُن کے کلام میں موضوعات کا تنوع بھی نظر آتا ہے اور ہنر کاری (Craft) کی خوبصورتی بھی:

یہ مدینہ کی ہوائے سبز ہے ورنہ، ریاض

کون طیبہ کے در و دیوار پر لکھتا مجھے

کشیدہ کاریوں میں آج بھی مصروف ہیں آنکھیں

قصیدہ اُن کا اشکوں سے لکھوں گا شام سے پہلے

معروف بحور اور قوافی و ردائف کو اُنہوں نے اپنی شعوری کوشش سے ایک ایسی تصویر میں تبدیل کردیا جس میں رنگوں کا غیر روایتی استعمال ہوا ہو۔ عجز و نیاز اور سرور و کیف کے ساتھ زندگی کی بے معنویت کو در رسول ﷺ سے معنی کا حسن دینے کا رجحان اُن کی نعتیہ شاعری کو معاصر نعت میں ایک نیا زاویہ فکر عطا کرتا ہے۔ اُن کے ہاں نعت کسی شعوری کوشش سے انجام دیا جانے والا عمل محسوس نہیں ہوتا بلکہ ہر مصرع خوشبو کی طرح موج صبا پر رقص کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

خورشید، چاند، پھول، افق سب ہیں آپ ﷺ کے

خوشبو، دھنک، گلاب، صبا ہے حضور ﷺ کی

جناب ریاض حسین چودھری کا کلام قاری کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں سچائی، خیر اور حُسن کا احساس ساری فضا کو معطر کیے رہتا ہے۔ ریاض چودھری کے ہاں بھی ہر بڑے شاعر کی طرح شعری تجسیم کا عمل شعور اور لاشعور کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر شاعری کے فن کو دیکھا جائے تو یہ وہ تخلیقی عمل ہے جہاں شاعر کا شعور، لاشعور سے معانقہ کرتا ہے، گویا شاعری نیند اور بیداری کے درمیان کے کسی لمحے کی تخلیقی واردات ہوتی ہے۔ نعت کی شاعری میں اس تخلیقی واردات کے دوران عجز و احترام، اخلاص، وارفتگی شوق، احساس کم مائیگی، گناہوں پر شرمساری، مدینہ میں حاضر ہونے کی خواہش، ہجر اور آپ ﷺ کے روضے سے دوری کا احساس بھی، تخلیق کے دوران شعور سے لاشعور کے درمیان سفر کرتے ہیں۔ اِس ساری کیفیت میں خبر، خبر نہیں رہتی اور نظر بصارتوں سے باہر کی کسی ان دیکھی دنیا کے حال جاننا شروع ہوجاتی ہے۔ کم مائیگی کا احساس شعر میں کیسے ڈھلتا ہے۔ منظر دیکھیں

اوراقِ زندگانی کے نیچے یہیں کہیں

مبہم سا حاشیہ ہوں میں آقا ﷺ کرم کریں

عفو و عطا کے سرخ گلابوں سے بھر گیا

مجھ سے گناہ گار کا دفتر کھڑے کھڑے

ریاض حسین چودھری فکری سطح پر ’’نعت برائے ادب‘‘ کے بجائے ’’نعت برائے زندگی‘‘ اور ’’نعت برائے بخشش‘‘ کے قائل تھے۔ اُن کے زیر نظر مجموعہ نعت ’’نصاب غلامی‘‘ میں اُن کا تخلیقی شعور آخر آخر دو بڑے احساسات کے زیر اثر نظر آتا ہے۔ تمام مضامین لگ بھگ انہی دو بڑے موضوعات سے اخذ کئے گئے ہیں۔ پہلا احساس لمبے سفر پر روانگی سے پہلے زادِ راہ کو باندھنے اور اس سفر کے پہلے پڑائو کے لیے آقا کریم سرکارِ دو عالم ﷺ سے مدد طلب کرنا ہے۔ یہ احساس اُن کے نعتیہ اشعار سے اُن کے قارئین تک پہنچتا محسوس ہوتا ہے۔ اِس احساس کے تحت وہ کچھ اس انداز میں اپنے آقا ﷺ سے مدد طلب کرتے نظر آتے ہیں۔

خلد طیبہ میں کھلے گی آنکھ میری ایک دن

خلد طیبہ کے مقدس خواب میں رہتا ہوں میں

ہر روشنی ہے نورِ محمد ﷺ کی خوشہ چیں

ہر سلسلہ ہے شہر نبی سے ملا ہوا

مہکے مری لحد بھی درود و سلام سے

بعد از حیات ذکر شہ مر سلاں چلے

ذوق مدحت تُو مجھے لے چل مدینے کی طرف

سر پہ لہراتی ہوئی میں بجلیوں کی زد میں ہوں

وقت رخصت کا ہے سر پہ آیا ہوا جانکنی کا بھی عالم ہے چھایا ہوا

بند ہونے لگی ہے مری چشمِ تریا نبی ﷺ اپنا جلوہ دکھا دیجئے

دوسرا بڑا موضوع امت کے اجتماعی احساس کو تصویر کرتا نظر آتا ہے۔ وہ امت کی اجتماعی بداعمالیوں اور گناہوں کے باعث پیدا شدہ موجودہ صورت احوال کو استغاثے کی صورت میں سرکار ﷺ کے سامنے رکھتے اور اعانت طلب کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ عالمی استعماری طاقتوں کے دیرینہ ہتھکنڈوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اُس پر امت کو جگانے کا فریضہ بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اُن کی نعت کا اجتماعی پیکر فکرِ اقبال کی ترویج کرتا نظر آتا ہے۔ معاصر نعت میں اس طرح کا تخلیقی وفور اور عالمی استعماری قوتوں کے ہتھکنڈوں کو پہچاننے اور اُس پر بلند بانگ اظہار اُن کی دین مبین سے محبت کو ظاہر کرتا ہے اور اِس حالتِ زار پر سرکار ﷺ سے نظر کرم کی درخواست کرنا اُن کا شافعِ محشر سرور دین ﷺ پر یقین کا اظہار بھی کرتا ہے۔

تاریخ کی بے داغ عدالت میں یقینا

ہر جرمِ ضعیفی کی سزا ہم کو ملی ہے

میں زندہ حقائق سے چراتا رہا نظریں

محرومی کی دلدل میں مری نسل کھڑی ہے

ادھورے جسم لے کر دربدر پھرتے رہیں کب تک

بٹے پھر عافیت کا رزق بستی کے گداؤں میں

غلامی کی ردائے زر بدن پر اوڑھ کر نکلیں

غلامانِ پیمبر میں نہیں یہ حوصلہ باقی

امت کو کب سے اپنے تشخص کی ہے تلاش

لیکن اُسے ملا نہیں اپنا نشاں کوئی

ریاض حسین چودھری اپنے مجموعہ نعت ’’نصاب غلامی‘‘ میں ایک مصلح اور مبلغ کی صورت میں نمایاں ہوتے نظر آتے ہیں۔ وہ حالی، اقبال اور ظفر علی خان کے تتبع میں امت کے ایک دیدہ بینا کے طور پر دینِ برحق اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف عالمی سیاسی کھلاڑیوں کی نام نہاد چالوں کو نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ اپنے مخصوص مناجاتی لہجے میں اسے سرکار دو عالم ﷺ کے سامنے پیش بھی کررہے ہیں۔ ’’نصاب غلامی‘‘ کی تمام نعتیہ شاعری اِن دو بڑے احساسات سے متصف ہے اور باقی موضوعات کے تمام جھرنے اِن دو بڑی آبشاروں سے پھوٹتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

ریاض حسین چودھری جو نصاب حمدو نعت مرتب کرنا چاہتے تھے اور جس کے واضح اشارے اُن کی زیر نظر نعتیہ تخلیقات میں موجود ہیں وہ ’’نعت برائے آخرت‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’نعت برائے زندگی‘‘ کو فروغ دینے کی کاوش ہے۔ یہ نعتیہ کاوشیں انہیں ایک حساس شاعر کے ساتھ ایک ایسا باعمل بصیرت افروز مسلمان بھی ثابت کرتی ہیں جو اپنی عمر کے آخری حصے میں اپنے دیدہ بینا سے اُن تمام مناظر کو دیکھ رہا ہے اور پیرانہ سالی کے باوجود پوری قوت سے اُن منفی قوتوں کو للکارنے کی کوشش بھی کررہا ہے۔

جھوٹے خُدائوں کا ہے تسلط زمین پر

آدم کی نسل آج بھی زیرِ عتاب ہے

امت مسلمہ کی بداعمالیاں اور ارتقائے حالات انہیں یہ اجتماعی مسئلہ موت و حیات ممدوح خدا سرور کائنات ﷺ کے سامنے رکھنے کا شعور دیتے ہیں۔ یوں وہ اپنی اجتماعی بے بسی اپنے حضور ﷺ کے سامنے پیش کرکے سرخرو ہوجاتے ہیں۔

آج بھی چاروں طرف خنجر بکف ہیں لشکری

گھر کا گھر جلنے لگا، چشم کرم، چشم کرم

ہم زندہ مسائل کی آغوش میں زندہ ہیں

کرتوت ہیں ابلیسی، اعمال ہیں شیطانی

’’نصابِ غلامی‘‘ کی نعتیہ تخلیقات سرکار دو عالم کی سیرت سے بھی متصف ہیں اور امت کے اجتماعی نوحے سے بھی۔ یہ رخصت ہوتے ہوئے ایک عاشق صادق کا اپنے سرکار ﷺ کے حضور نذرانہ عشق و محبت ہے جسے پڑھنے اور سمجھنے کے لیے بصارتوںکے ساتھ بصیرتوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔

ہر عہد کا جواز ہیں آقائے محتشم

ہر دور کا نصاب ہے ہستی رسول ﷺ کی