ریاض حسین چودھری کی نعت میں ’’استغاثہ‘‘ : محمد قاسم گیلانی- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن
محمد قاسم گیلانی، حافظ آباد
ریاض حسین چودھری کی نعت میں ’’استغاثہ‘‘
ریاض حسین چودھری اُردو نعت کے وہ خوش فکر، بالغ نظر اور روشن دماغ تخلیق کار ہیں جنہوں نے اس کے دامن کو اپنے تئیس نعتیہ مجموعوں سے مالا مال کیا۔ ان کی مدحیہ منظومات ایسی مسلمہ تخلیقات ہیں کہ عصر جدید کا ہر بڑا ناعت اورناثر انہیں خراجِ تحسین پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان کے تخیل نے نعت نگاری میں جہاں لفظیات کے باب میں جدت آرائی کی ہے وہیں اچھوتے مضامین کی گل کاریاں بھی کی ہیں۔ ان کی نعت میں تشبیہات و استعارات، کنایات و علامات اور مفردات و مرکبات کی تشکیل و بندش ان کی اپنی ہے۔ ان کے اشعار ایجاز سے معمور ہیں، ان کا تکنیکی اور تخلیقی اظہار اپنے اندر رمز و ایماء اور کنایہ و علامت کی وہ تاثیر افروز قوت رکھتا ہے جو ان کے کلام کو ترفع بخشنے کے ساتھ ساتھ بلاغت کی دولت بھی عطا کرتا ہے۔ اُنہوں نے اپنے مشاہدے کی تخلیقی عمل پذیری میں غیرارادی طور پر ایجاز سے کام لے کر ایسے اشعار کہے ہیں جن کی توضیح و تشریح میں نثر سینکڑوں صفحے کالے کرتے نظر آتی ہے۔ ریاض حسین چودھری نے اپنی نعت میں فن اور عقیدت کو یکجا کرکے ایسی نغمہ سرائی کی ہے جو نعت کے جملہ موضوعات کا احاطہ کرتی نظر آتی ہے کیونکہ ادب کی دوسری اصناف کی طرح نعت بھی زندگی کی تیزی سے بدلتی ہوئی اقدار سے متاثر ہورہی ہے۔ انسان کے اندر جو شکست و ریخت کا عمل جاری ہے اس کے نقوش بھی نعت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس دور کا نعت نگار ذاتی، جماعتی اور کائناتی دکھوں کا مداوا اسوۂ خیر الانامؐ میں تلاش کرتا ہے۔ ریاض حسین چودھری کی نعت نگاری میں غم جاں سے غم جہاں تک، طرزِ معاشرت سے ثقافتی تشخص تک، مفلسی سے آسودگی تک، طلب سے عطا تک اور استغاثہ سے مقبولیت تک کے تمام مراحل و مظاہر کی جلوہ آرائی ملتی ہے جو جدید اُردو نعت کا ایک لازمہ ہیں۔ جدید اُردو نعت کی وسعت پذیری کے بارے میں ڈاکٹر تحسین فراقی لکھتے ہیں:
’’جدیداُردو نعت نے ہماری کلاسیکی نعت گوئی سے ایک الگ اور منفرد راستہ نکالا ہے۔ کلاسیکی نعت گوئی کا ایک بڑا مقصد حصول ثواب و برکت تھا اور یہ زیادہ تر حضور اکرمؐ کے شمائل اور معراج و معجزات کے ذکر سے وابستہ تھی۔ جدید نعت اپنے عہد کے تہذیبی اور معاشرتی آشوب سے جڑی ہوئی ہے۔ ‘‘
ریاض کی نعت کا کینوس بھی مضامین و مفاہیم کی رنگارنگی اور ہمہ گیری سے ہمکنار ہے۔ اس وسیع کینوس سے رنگ استغاثہ کی ایک جھلک پیش کرنا مقصودِ نگارش ہے۔ یہ جھلک ان کی ہر تخلیق میں کہیں نغمۂ تنہائی، کہیں استغاثۂ شخصی، کہیں مسلم معاشرہ کی اجتماعی سرگرمی کی اساس اور کہیں مجموعی طور پر عہد حاضر کی زبوں حالی کی بنیاد بن کر دکھائی دیتی ہے۔ نعت ان کے اعماق قلب سے نکلی ہوئی ایک ایسی آواز ہے جو اپنے دامن میں عشق و عقیدت کی گرمی کے ساتھ آنسوئوں کی نمی بھی رکھتی ہے۔ اُنہوں نے آنحضرتؐ سے جذباتی و احساساتی تحرک کا فیضان حاصل کرکے فنی سطح کو ارفع تر بنایا اور تخلیقی گرفت کو بھی مضبوط کیا ہے۔ نیز آشوبِ ذات اور آشوبِ کائنات پر قابو پانے اور ان کا مؤثر و کامیاب سد باب کرنے کے طریقے بھی وضع کیے ہیں، جن کے ڈانڈے ’’جاؤکَ‘‘ کے خدائی اعلان کے فیضان سے ملتے ہیں۔ اُنہوں نے انفرادی و اجتماعی ہر دو سطح پر فروغ و ارتفاع کی راہیں کھول کر شخصی، قومی، ملکی اور بالآخر انسانی نشوونما و ارتقاء کے امکانات کا دائرہ وسیع کیا ہے۔ ریاض حسین چودھری ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور اپنے آقا سرورِ کونین، مشکل کشائے دارین، مختارِ کائنات، وجہ تخلیق کائنات، باعثِ قیام کائنات، سیدنا و مولٰنا حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی سے حد درجہ عشق و عقیدت رکھتے ہیں۔ وہ اپنی ہر مصیبت، کلفت، پریشانی، بیماری، تنگی، علت، ذلت، قلت، تکلیف، اُفتاد، ابتلائ، بلا اور وباء کا ازالہ اور حل دربارِ نبویؐ سے چاہتے ہیں۔ ان کے غم ذات کی حدیں، حدودِ آفاق سے ملتی نظر آتی ہیں۔ ہر وہ غم، الم، حزن، خوف، ملال، اندیشہ، آشوب، قحط، بحران، فقدان، مرض اور دکھ جو انسانی زندگی کا حصہ ہے اور کسی بھی مرحلے پر انسان کو پیش آسکتا ہے، ریاض اس کی دہائی اپنے کریم آقاؐ کی بارگاہ میں دیتے ہیں۔ کہیں ان کا استغاثہ شخصی اور ذاتی نوعیت کا ہے اور کہیں ان کی اپنی ذات پوری ملت کے استعارے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ ریاض بھی عارف عبدالمتین کے اس نظریہ پر تیقن رکھتے ہیں۔ یہی ایقان ان کے ایمان کو سندِ تکمیل کی دلنواز سرفرازی کی نوید سناتا ہے۔ عارف عبدالمتین نے کہا تھا:
اور جتنے بھی سہارے ہیں سبک کرتے ہیں
عزت نفس بڑھاتا ہے سہارا تیرا
صداکارِ دہلیز خیرالوریٰ اور دریوزہ گرِ دربار مصطفیٰؐ کے اسی شوکت آمیز تشخص کی خودکلامی ریاض کی زبانی سنیے نیز کسی حسین چیز کا صدقہ اتارنے کا فلسفہ بھی نعت کے پیرا یہ میں دیکھیے:
در مصطفیؐ پر صدا کر رہا ہوں
میں لفظوں کو عظمت عطا کررہا ہوں
میں پھر اپنے ہونٹوں کا صدقہ اُتاروں
میں پھر ذکر خیرالوریٰؐ کر رہا ہوں
شاعر کا حضورؐ سرور عالمؐ کے کرم پر تیقن، وسیلۂ اسم محمدؐ تک رسائی اور اپنی نالش کی قبولیت کا یقین ان اشعار میں دیکھیے:
شہر ثنا میں پھول سجانے لگی ہوا
آنے لگی حروف کی چلمن سے بھی ضیاء
بادل اٹھا ہے چشم عقیدت سے آج بھی
سوئے حرم چلی ہے مناجات کی گھٹا
احساس میں سمٹنے لگا آگہی کا نور
دست دعا نے اسم محمدؐ کو چھو لیا
ریاض حسین چودھری کے ہاں شاعر بے نوا، رودادِ غم، دلِ ناصبور، لرزشِ پا، خوف، تمازت، کشکولِ آرزو، موسم ہجراں، دستِ دعا، نالۂ بے نوا، سہمی فاختائیں، طوفانی ہوائیں، خشک سالی، تڑپتی لاشیں، مفلوج دست و پا، شبِ سیاہ، کہنہ مرض، جلے کھیت، خاکِ مردہ، اشکِ ندامت، قفلِ افلاس، مرگ آشنا جسم، دامنِ سد چاک، بے صدا چہرے، بارش کا ہجوم، بلکتی کونجیں، ابابیل، لہو، کالک، آشوب، تشنگی، علم اور آنچل۔ ۔ ۔ ایسے درجنوں الفاظ و مرکبات جابجا استعمال ہوئے ہیں، جو کہیں فرد، کہیں مسلمان، کہیں مسلم امہ، کہیں وطنِ عزیز، کہیں کمزور و مظلوم ممالک، کہیں جبرو استبداد کی چکی میں پستی ہوئی انسانیت اور کہیں طبقۂ نسواں کی دائو پر لگی عصمت کے استعارے ہیں جنہیں ریاض نے اپنے گہری مشاہداتی شعور اور حسیاتی ادراک کی بدولت لفظی و معنوی آہنگ سے مکمل مربوط کرکے برتا ہے۔ ان کی کئی نعتوں کے پورے پورے اشعار اس امتِ مظلوم و مرحوم کے نوحے سناتے ہیں۔
امت کا زخم زخم ہے ان میں سجا ہوا
اشعار میرے اصل میں نوحہ گری کے ہیں
حضورؐ آپ کی امت کا نوحہ گر ہے ریاضؔ
کلام اس کا ہے سینے میں برچھیوں کی طرح
ریاض عہد حاضر کے مسلمان کی زبوں حالی پر خون کے آنسو روتے ہوئے بارگاہِ رسالت پناہ میں گریہ کناں ہیں۔ ان کی اس شدت آور، نالہ خیز، درد انگیز اور جگر گیر چیخ و پکار اور بلبلاہٹ کی سسکیاں ہر حساس اور درد مند دل کی آواز بن کر سنائی دیتی ہیں۔ انہوں نے اپنے ذاتی غم کو بھی ذاتی نہیں جانا بلکہ اسے کائناتی الم کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ رسولِ کریمؐ کے حضور ملتجی ہوتے ہوئے اپنی عرض پردازی کا پورا منظر اشعار کی چلمن سے یوں دکھاتے ہیں کہ چشم دل گریہ کناں ہونے لگتی ہے۔
کس کے در پہ کروں میں صدا یا نبیؐ
کون اپنا ہے تیرے سوا، یا نبیؐ
تیرے دربار میں سر جھکائے ہوئے
قبلہ رو ہے کوئی بے نوا، یا نبیؐ
چھوٹی بحر کا یہ استغاثہ اس قدر درد سے لبریز اور رقت سے معمور ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاعر اپنے کریم آقاؐ کی دہلیز مبارک پر سر رکھ کر اگر اپنے دل کا بوجھ ہلکا نہ کرے گا تو اس کا جگر شدتِ کرب سے پھٹ جائے گا۔ شاعر کے سینے میں پنہاں درد و غم کی شدت آنکھوں سے اشکوں کے سیلِ رواں کی صورت میں بہتی جارہی ہے۔ وہ اپنی دھن میں اپنے آقاؐ سے محوِ کلام ہے، اپنا کرب بھی بیان کرتا ہے اور پوری ملت کا نامہ بر بھی بنا ہوا نظر آتا ہے۔ شاعر کے اس طویل استغاثہ سے چند اشعار سنیے جس میں اس نے ادب و احترام اور شعری رنگینیوں کو یکجا کردیا ہے:
آنکھ آشوب میں مبتلا، یا نبیؐ
اپنے چہرے بھی ہیں بے ضیائ، یا نبیؐ
خشک سالی سے جلتے ہوئے باغ میں
پھول مصروفِ آہ و بقا، یا نبیؐ
عافیت صحن گلشن سے رخصت ہوئی
بین کرتی ہے بادِ صبا، یا نبیؐ
میرے اندر جلیں حشر کی ساعتیں
میرے اندر بھی کرب و بلا، یا نبیؐ
جبر کی قوتیں دندناتی پھریں
ظلم کی ہو گئی انتہا، یا نبیؐ
الاماں، الاماں، الاماں، الاماں
یا خدا یا نبیؐ یا خدا یا نبیؐ
دھمکیوں سے ہیں مرعوب اہلِ چمن
دم بخود امن کی فاختہ، یا نبیؐ
طائرِ پَر شکستہ کی امداد کر
کب سے اٹھے ہیں دستِ دعا، یا نبیؐ
استغاثہ کا یہ شعر صنعت تدبیج کا عمدہ نمونہ ہے جس میں تین رنگ ذکر ہوئے ہیں:
تشنگی اگ رہی ہے لب زرد پر
سبز گنبد سے کالی گھٹا، یا نبیؐ
ریاض حسین چودھری اہل اسلام کی بے نوائی، نارسائی، کسمپرسی، بے بضاعتی اور ناتوانی کا دکھڑا ایک اور نعت میں سناتے ہوئے اپنے کریم آقاؐ کی بارگاہ میں نالش اور اپیل کرتے ہیں۔ ان کا ایک ایک مصرع تکنیکی در و بست میں اتنامضبوط اور مفہومی اعتبار سے اس قدر مکمل ہے کہ چند لفظوں کا مصرع پوری رودادِ غم سناتا ہے۔ اللہ اکبر!
فلسطین و کشمیر و قبرص میں آقاؐ
لہو سے لکھی جا رہی ہے کہانی
ابھی تک ہے اقصیٰ کے دامن میں کالک
ابھی تک تشدد کی ہے حکمرانی
یہ اُفتاد کیسی غلاموں پر آئی
مصیبت گری ٹوٹ کر ناگہانی
ہے خطرے میں پھر عصمت شہر اقدس
ابابیل آئیں ملے کامرانی
عجب کسمپرسی کی حالت ہے مولا
نہ بازو میں طاقت نہ آنکھوں میں پانی
عصر حاضر کے مسائل کی کہانی، آستین کے سانپوں کی کارستانی ریاض اپنے اشکوں کی زبانی حضورؐ کی بارگاہ میں یوں سناتے ہیں:
چاروں طرف ہیں بادِ مخالف کے لشکری، ہر ہر اُفق پہ خیمے لگاتی ہے تیرگی
الجھے ہی جارہے ہیں مسائل کے پیچ و خم، آقا کرم، حضور کرم، یا نبی کرم
زر کی ہوس میں نور بصیرت بھی کھوچکے، اپنا ضمیر بیچ کے کنگال ہوچکے
تخریب کار نکلے رفیقانِ محتشم، آقا کرم، حضور کرم، یا نبی کرم
ریاض حسین چودھری اکابرین اُمت کا محبوب و مرغوب اور مجرب و آزمودہ وظیفہ ’’یارسول اللہ انظر حالنا‘‘ اپنے لہجہ و انداز میں و ردِ زباں کرتے ہیں۔
یارسول اللہ! یا حبیب اللہ! یا نبی اللہ!
گرتی ہوئی دیوارِ گلستاں پہ نظر ہو
سرکار! مرے حال پریشاں پہ نظر ہو
ہر لحظہ ہدف بنتا ہے اعداء کے ستم کا
کشمیر و فلسطیں کے مسلماں پہ نظر ہو
کشکولِ گدائی لیے در در پہ کھڑی ہے
بے مول بکی امت ارزاں پہ نظر ہو
اے چشم کرم! جنت ارضی کے اُفق پر
بیٹوں کے جمے خونِ رگ جاں پہ نظر ہو
سرکار! شبِ عمرِ گریزاں پہ نظر ہو
دلدل میں گری امتِ ناداں پہ نظر ہو
محرومی کی اگتی ہیں جلے کھیت میں فصلیں
مٹی سے اٹی دختر دہقاں پہ نظر ہو
سرکار! بڑی دیر سے افسردہ کھڑا ہوں
سرکار! کبھی اپنے ثنا خواں پہ نظر ہو
ریاض حسین چودھری نے کرۂ ارض پر بسنے والے انسانوں کے مچلتے ہوئے ارمانوں کو اپنے سانسوں کی مالا میں پرو کر درِ حضورؐ پر صدا کی ہے اور آقائے کائناتؐ کی بارگاہ سے اپنے ہر دکھ کا مداوا، ہر درد کا چارہ، ہر غم کا علاج، ہر تکلیف کا سکون اور ہر زخم کا مرہم طلب کیا ہے۔ ان کے سینے میں ایسا درد مند دل ہے جو امتِ مسلمہ کا دکھ دیکھ کر ملول ہوجاتا ہے اور اس کی دھڑکن گریہ زاری کی صدا بن جاتی ہے۔ ریاض اپنے آقا و مولا سے اپنی نواؤں میں تاثیر بھی مانگتے ہیں اور محتاجی سے چھٹکارا بھی چاہتے ہیں۔ وہ اس اُجڑے گلستان کے ’’بلبلِ نالاں‘‘ بن کر اپنے داخلی اضطراب کا اظہار نعت کی پاکیزہ ردا اوڑھ کر کرتے ہیں۔ وہ عہد موجود کے بے تاثر اور بے صدا چہروں کو صدا کاری کا ہنر سکھاتے نظر آتے ہیں۔ ان کا نالۂ درد ملاحظہ ہو:
ہمارے بے صدا چہرے ہیں مظہر کج اداؤں کے
ادب کی حد سے بھی گزرے ہیں نالے بے نواؤں کے
دہائی دے رہی ہے پھر دکھی انسانیت مولا
ہوس کاروں نے پر بھی نوچ ڈالے فاختاؤں کے
عطا حوا کی بیٹی کو کریں اب چادرِ زینب
یزیدوں کے علم آنچل بنے ہیں داشتاؤں کے
ہر زبان کے نعتیہ ادب میں بادِصبا کو نامہ بر اور سندیسہ گر کرنے کی روایت موجود رہی ہے یعنی کہ جب شاعر اپنے ضعیف اور ناتوانی کے باعث درِ محبوب تک پہنچنے کی سکت اور ہمت نہیں رکھتا، تب وہ بادِ صبا کو پیغام بر بنا کر اس کے ہاتھ بارگاہِ ناز میں سلام عقیدت بھیجتا ہے اور اپنا حسرت نامہ بھی! یہی روایت ریاض کے ہاں بھی دیکھیے۔ وہ کیفیاتِ مہجوری اور عرضِ ارضِ وطن کو مربوط کرکے بادِ صبا کو پیغام دیتے ہیں:
لپٹ کر روضۂ اطہر سے اے باد صبا کہنا
تڑپتا ہے جدائی میں ریاضِ بے نوا کہنا
یہ کہنا دل کی ہر دھڑکن سلام شوق کہتی ہے
صبا پھر زیرِ لب آقا سے حرف التجا کہنا
یہ کہنا پھر غلاموں کا وطن مشکل میں ہے آقا
مسلط ایک مدت سے ہے دورِ ابتلا کہنا
جب مقدر نے یاوری کی، ان کی آرزوؤں کو خلعت قبولیت عطا ہوئی اور انہیں درِ خیرالوریٰ پر باریابی کا اعزاز و اکرام نصیب ہوا۔ تب بھی ان کی دعا کا پیالا اپنے وطن و قوم کی التجا و نالش کی مئے لالہ فام سے لبریز ہوتا گیا۔ وہ اپنے آقا کے در پر کھڑے یوں محوِ التجا ہیں کہ جوار گنبد خضریٰ میں ایک مستقل آشیانہ بھی چاہتے ہیں، ایسا آشیانہ جس میں جہان کے رنج و غم داخلے کی مجال نہ رکھتے ہوں:
حضور حاضر ہے ایک مجرم حضور اس کو معاف کردیں
اور اس کے کشکول آرزو کو کرم کے سکوں سے آج بھردیں
یہ ہجرتوں کے اگا کے موسم حضور لایا ہے دشتِ غم میں
یہ عافیت کی تلاش میں ہے اسے مدینے میں ایک گھر دیں
یہ اشعار دیکھیے:
خشک سالی ہے مرے جسم کی کھیتی کا غبار
حوضِ کوثر سے ملیں آبِ بقا کے سکے
نقدِ جاں لے کے کھڑا ہوں میں سخی کے در پر
خاک مردہ پہ پڑیں خاک شفا کے سکے
ریاض اپنے وطن کی خاک کے آنسو بھی لایا ہے
رسول محتشم کیجئے! کرم اپنی عطاؤں کے
کرم کی بھیک کا طالب ہے آپ کا شاعر
قدم قدم پہ ملا اس کو مشکلوں کا ہجوم
حضور سرورِ عالمؐ کے قدمَینِ پاک میں غلاموں کی برہنہ سر التجاؤں کو تاجِ اجابت پہنایا جاتا ہے اور ایک تسکین آور اطمینان سائل کے دل میں اتار دیا جاتا ہے۔ اسی سکون کی تسکینی طراوت ریاض حسین چودھری کے دل کے دریچے سے چھلکتی محسوس ہوتی ہے۔
رودادِ غم سنا کے چلا جا رہا ہوں میں
دل کا غبار نکلا ہے قدموں میں بیٹھ کر
پوچھے کوئی ریاض دلِ ناصبور سے
کتنا سکون ملتا ہے قدموں میں بیٹھ کر
سردار کائنات کے قدموں میں بیٹھ کر
دولت یقیں کی آگئی ہے التجاؤں میں
اب حشر تک ریاضؔ تمازت کا ڈر نہیں
بیٹھا ہوا ہوں گنبد خضریٰ کی چھاؤں میں
ریاض اپنی نسلوں میں تسلسلِ ترسیلِ عشقِ رسولؐ اور اجرائے فیضانِ حب رسول اپنے آقا سے طلب کرتے ہیں۔ اس حسنِ طلب پر متاعِ حیات قربان کرنے کو جی چاہتا ہے، دیکھیے:
میرے بچوں کو وراثت میں ملے حبِ رسول
یہ اثاثہ بعد میرے بھی تو گھر میں چاہیے
آرزوئے دیدارِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر عاشق کی دعاؤں کا مغز، زندگی کا حاصل، عبادات کا نچوڑ، خواہشات کا رَس، آرزوؤں کا مرکز اور تمناؤں کا محور ہے۔ حقیقت میں ایک مسلمان کی حیاتِ مستعار کا دارومدار اِسی آرزو کے پنپنے پر ہے۔ ریاض کے ہاں بھی اس آرزو، بلکہ جانِ آرزو کی جلوہ آرائی نظر آتی ہے جو ہر عاشقِ صادق کے دل کی آواز معلوم ہوتی ہے۔
ویران ہے ریاضؔ کی آنکھوں کی رہگزر
دیدار کی طلب مرے سلطاں قبول ہو
ہونٹوں نے تھام رکھا ہے خورشیدِ آرزو
بکھری ہوئی صدا کا گریباں قبول ہو
ان کا یقین ہے کہ ہر عہد کے تھکے ہارے انسان کی آخری امان گاہ اور پناہ گاہ گنبدخضریٰ کی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں ہی ہے۔ بالآخر ہر انسان کو اپنے آلام کا چارہ اسی در سے ملے گا۔
آدمی تھک ہار کے ان کو پکارے گا ریاضؔ
ان کے دامانِ کرم کی انتہا بھی دیکھنا
وہ ہر سائل کو درِ حضور سے وابستہ ہوجانے کی تلقین کرتے ہیں اور اسی اُمید افزا، یقین پرور، کرم گستر، والہانہ وابستگی کے متمنی ہیں۔
کلیوں سے لاکھ بار چھنے گی ردا مگر
تیرا وجود میرے گلستاں کا اعتبار
دست کرم کا سایہ رہے ہر نفس حضور
گلشن میں مختصر نہ ہو اب عرصۂ بہار
کبھی وہ نامہ بر اور صبا کے بجائے اپنا قاصد خود بننے کی اجازت چاہتے ہیں اور اپنے فن کے دوام کی تمنا کرتے یوں عرض پرداز ہوتے ہیں:
اذن ہو تو میں لکھوں برہا کہانی اپنی
اذن ہو تو میں بنوں اپنا پیامی آقا
مرے اشعار کے خوش رنگ پرندوں کو عطا
نعت کے صدقے میں ہو عمر دوامی آقا
ان کی یہ التجا یقینا خواجۂ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں درجہ ٔاجابت پر سرفراز ہوتی ہے۔ نعت نگاری کے نئے رجحانات اور جدید اسالیب میں ریاض حسین چودھری کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ حلقۂ سخنورانِ دلبراں میں انہیں ایک معتبر حوالہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ قدسی ان کی لحد پر جناں کے پھول برساتے رہیں گے۔ اللہ کریم ان کے درجاتِ عظمت بلند فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین!