رحمتِ سرورِ کونینؐ کی برسات میں ہوں- رزق ثنا (1999)
رحمتِ سرورِ کونینؐ کی برسات میں ہوں
روزِ اوّل سے مَیں دامانِ عنایات میں ہوں
چند سجدے مری آنکھوں میں ابھی باقی ہیں
اس لیے شہرِ نبیؐ! تیرے مضافات میں ہوں
مجھ گنہ گار پہ بھی ابرِ کرم کا سایہ
ذہن میں الجھے ہوئے کتنے سوالات میں ہوں
مصلحت پائوں کی زنجیر بنی رہتی ہے
کیا کروں عرض ابھی جبرِ مفادات میں ہوں
اِس طرف اذنِ سفر کالی گھٹائوں کو ملے
ایک مدت سے مَیں جلتے ہوئے حالات میں ہوں
داستاں تشنہ لبی کی ہوں سرِ نہرِ فرات
حرفِ بے ربط ہوں، مبہم سی روایات میں ہوں
اَن گنت چہروں کے جنگل میں بھی تنہا ہوں حضورؐ
کب سے صحرائے شبِ کرب کے ذرات میں ہوں
شور ہے ضربتِ ابلیس کا لمحوں پہ محیط
تیریؐ رحمت سے مگر قصرِ مناجات میں ہوں
گم ہوں میں نعتِ پیمبرؐ کے گھنے پیڑوں میں
کچھ خبر اپنی نہیں ایسے مقامات میں ہوں
مسلکِ عشق مری جاں ہے، مگر میرے رسولؐ
مَیں ہوس کاروں کے پھر نظمِ خرافات میں ہوں
تیریؐ رحمت کے سمندر میں کمی کوئی نہیں
مَیں کمینہ ہی سرِ شام حسابات میں ہوں
اپنی آواز پہ ہی سنگ نہ بن جائوں حضورؐ
وہم کیسا ہے کہ مَیں شہرِ طلسمات میں ہوں
کانپ اٹھتا ہے مری روح کا پیکر بھی ریاضؔ
قریۂ نورِ محمدؐ کے حجابات میں ہوں