ایک آرزو- رزق ثنا (1999)
یہ آرزو ہے سرِ حشر آپؐ فرمائیں
کہیں سے ڈھونڈ کے لائو ہمارے شاعر کو
چراغِ عشق سجا کر ہتھیلیوں پہ ریاضؔ
کسی کو نعت ہماری سنا رہا ہوگا
شبیہِ گنبدِ خضرا بنا رہا ہوگا
ہجومِ تشنہ لباں میں کہیں چھپا ہوگا
وہ بزمِ شعر میں جس نے چراغ مدحت کے
بڑے خلوص سے ہر طاق میں سجائے تھے
وہ عمر بھر جو تڑپتا رہا زیارت کو
وہ ہر گھڑی جو غلامی پہ ناز کرتا تھا
سگانِ کوئے مدینہ سے پیار کرتا تھا
وہ جس کا سارا گھرانہ تھا مفتخر اس پر
وہ جس کے بچے بھی ہم پر درود پڑھتے تھے
وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر سلام کرتے تھے
اُسی ریاضؔ کو جائو پکڑ کے لے آئو
کہو یہ اُس سے تمہارے نصیب جاگے ہیں
کہو یہ اُس سے غلامی پہ ناز فرمائے
کہو یہ اُس سے اجازت ہے اب چلا آئے
کہو یہ اُس سے بیاض اپنی نعت کی لے کر
اور اپنے امّی اور ابّا کا ہاتھ تھامے ہوئے
ہمارے دامنِ عفو و کرم میں آجائے
کہو یہ اُس سے گھرانے کے سارے ببچّوں سے
کہے کہ نعت سنائیں ہماری محفل میں
وہ اپنے سارے قبیلے کو ساتھ لے آئے
ہم ان کو اشکِ ندامت کی لاج رکھیں گے
انہیں ہم اپنی شفاعت کی چادریں دیں گے
سند غلامی کی اِن کو عطا کریں گے ہم
اور اِن کے حق میں خدا سے دعا کریں گے ہم