ہوائے شہرِ مدینہ گلاب لائی ہے- رزق ثنا (1999)
بہت اُداس تھا منظر مرے دریچے کا
نہ موتیے کی کلی تھی نہ چاندنی کا شباب
نہ زندگی کی رمق آتی جاتی سانسوں میں
بجھی بجھی سی تھیں آنکھیں غبار آلودہ
جھکی جھکی سی تھی آنگن میں شب کی رعنائی
کفن بدوش ہوائوں کے ماتمی لشکر
چراغ، رہگذر کے بجھانے آئے تھے
کہ لوحِ جاں پہ بہت سانحے رقم کرنے
دعا کے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی طنابیں تھیں
یقیں کے سارے اثاثوں پہ راکھ خیموں کی
مری شکست کے عنواں نئے نئے لکھ کر
عجیب نقش بناتی رہی ہے پہروں تک
کتابِ دل کے ورق پر گمان ہوتا تھا
ازل سے جیسے حکومت ہے مرگِ پیہم کی
بدن کے بند گلابوں کی اَدھ کھلی آنکھیں
فشارِ ذات کے جنگل کی داستاں کہہ کر
حصارِ موسمِ دار و رسن میں بند ہوئیں
وجودِ غم کی جلی آنکھ میں نمی کب سے
حروفِ درد کی تخلیق کے عمل میں تھی
سیہ لباس میں لپٹی ہوئی عروسِ غزل
ابھی جنازے اٹھائے ہوئے تھی کندھوں پر
غبارِ خوف میں بچوں کی مسکراہٹ تھی
لہو سے سرخ تھے مقتل کے بام و در سارے
نگہ کے سامنے پھر کربلا کا منظر تھا
یہ کیا کہ قفل پگھلنے لگے ہیں مقتل کے
نفاذِ عدل کا چرچا گلی گلی میں ہے
نجوم بانٹتا پھرتا ہے لشکرِ خورشید
صداقتوں کے عَلَم، اب کھُلے کھُلے کہ کھُلے
یہ کیا کہ سارے افق روشنی میں ڈوب گئے
یہ کیا کہ تشنہ لبوں پر رواں ہوئے چشمے
گرفتِ شب سے رہائی کا شور اٹھا ہے
نئے دنوں کی بشارت طلوع ہوتی ہے
دعا کے ہاتھ میں شاخِ اثر کا پرچم ہے
چمن سے موسمِ دار و رسن ہوا رخصت
قدم قدم پہ چراغوں کا ایک میلہ ہے
ردائے شب کا تسلسل بکھرنے والا ہے
یہ آبِ خوف کا دریا اترنے والا ہے
رضا و صبر کا موسم گزرنے والا ہے
گمان و وہم کے سرکش پجاریوں کے ہجوم
ہوا کی زرد چُنریا میں منہ چھپاتے ہیں
عجیب کیفِ مسلسل کا ایک عالم ہے
یہ کون زخم سئے جارہا ہے جسموں کے
اتر رہا ہے منڈیروں پہ رتجگوں کا خمار
لپٹ رہی ہیں مرے بام و در سے خوشبوئیں
ہوائے شہرِ مدینہ گلاب لائی ہے
خزاں رسیدہ چمن میں بہار آئی ہے