کچھ ’’متاعِ قلم‘‘ کے بارے میں- متاع قلم (2001)
اﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری اور محبوب ترین نبی ؐ کو ہدایت فرمائی ہے کہ جو لوگ بھی اﷲ سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں صاف صاف بتا دیں کہ اﷲ کی محبت کا دعویٰ اُسی وقت معتبر مانا جائے گا جب وہ لوگ اﷲ کے محبوب نبیؐ کی پیروی کریںگے اور اس کا نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ ایسے لوگوں سے خود اﷲ بھی محبت فرمائے گا۔
اس مختصر اور بلیغ فرمان سے پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ نبی مکرم ؐ کے وسیلے کے بغیر اﷲ سے محبت بے معنیٰ ہے۔ محبت وہی سچی اور حقیقی ہے جو اُس کے نمائندے کی معرفت کی جائے۔ دوسری بات یہ کہ خود اﷲ تعالیٰ اپنے بھیجے ہوئے نمائندےؐ سے بے حد محبت رکھتا ہے، یہاں تک کہ اس کے متبعین سے بھی محبت کرنے لگتا ہے۔
اور تیسری اور میرے نزدیک اہم ترین بات یہ کہ اس اتباع اور اطاعت کی بنیاد بھی محبت ہی پر ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کسی جبر اور طاقت کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ آپ ﷺ نے جب سے اظہارِ نبوّت کیا اور تبلیغِ دین کے لیے کوشش فرمائی اس وقت آپ ﷺ کے پاس کوئی مادی طاقت نہ تھی اور آخر وقت تک جب آپ ﷺ ہمہ طاقت تھے اور پورا عرب آپ ﷺ کے زیرِ نگیں تھا، تب بھی اتباعِ رسول ﷺ کے لیے کوئی جبر نہیں کیا گیا، بلکہ یہ اتباع و اطاعت کا معاملہ ہر فرد کے ذاتی اختیار و تمیز کے اوپر چھوڑ دیا گیا اور قیامت تک کے لیے اصول طے کر دیا گیا کہ لا اکراہ فی الدین۔ اس دین کو اختیار کرانے کے لیے زبردستی نہیں کی جائے گی۔
اب ظاہر ہے کہ ان حالات میں اتباعِ رسول ﷺ پر وہی شخص آمادہ ہو سکتا ہے جسے ذاتِ رسالتؐ سے محبت و عقیدت ہو۔ پھریہ محبت و عقیدت جتنی بڑھتی جائے گی اتنا ہی اس کا اظہاربھی ہوتا جائے گا۔ جو شخص جس صلاحیت کا بھی مالک ہو گا وہ اپنی صلاحیتیں اسی محبت کے عملی ثبوت کے طور پر ظاہر کرتا جائے گا۔ اپنی روز مرہ کی زندگی میں، آپس کے معاملات میں، زبانی تبلیغ و اشاعت میں، یہاں تک کہ میدانِ جنگ میں بھی، یہی محبتِ رسولؐ اپنے کرشمے دکھاتی چلی جائے گی۔ پھر جن حضرات کو تخلیقِ شعر و سخن کی طاقت بخشی گئی ہے وہ بھی اپنے اشعار و منظومات کو اسی محبت کے بے ساختہ اظہار کا ذریعہ بنا لیں گے۔
چنانچہ عہدِ رسالتؐ سے لے کے آج تک جس جس خوش نصیب کو یہ سعادت حاصل ہوئی اس نے اس کا منظوم اظہار کیا اور آج تک کر رہے ہیں ان میں سے کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔ تمام مسلمان، بلکہ غیر مسلم بھی جانتے ہیں کہ حُبِّ نبیؐ نے کیسی کیسی نوع بہ نوع منظومات کی شکل میں ادب پارے پیش کیے اور اسی کا ایک ثبوت یہ ’’متاعِ قلم‘‘ بھی ہے، جس پر اظہارِ خیال کی دعوت مجھے دی گئی ہے۔
جناب ریاض حسین چودھری کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ جب سے مرے کالج سیالکوٹ میں
طالب علم بن کر آئے (جہاں میں بھی اُردو کے استاد کی خدمت انجام دے رہا تھا) تب سے
انہیں مجھ سے تعلقِ خاطر پیدا ہو گیا اور جو آج تک قائم ہے۔ موصوف نے اس سلسلے میں
مجھ سے مشورۂ سخن بھی کیا، حالانکہ میں خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا۔ اور اب کہ
اکیسویں صدی میں ان کی نعتوں کا یہ پہلا مجموعہ (بیسویں صدی میں تین مجموعے شائع
کرنے کے بعد) سامنے آیا ہے، ان کی فرمائش ہے کہ اس پر میں بھی اظہارِ خیال کروں، جو
میرے نزدیک غیر ضروری ہے۔ ریاضؔ صاحب کی نعت گوئی پر جہاں احمد ندیم قاسمی، حفیظ
تائب، ڈاکٹر خورشید رضوی، پروفیسر اقبال جاوید وغیرہ جیسے اعلیٰ پائے کے صاحبانِ
علم و ادب اپنی اپنی گردیدگی و پسندیدگی ظاہر کر چکے ہیں وہاں میرا کچھ کہنا چھوٹا
منہ بڑی بات ہی ہو گا اور پھر یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ جس مجموعے کا ہر شعر دامن
کشِ دل ہو وہاں کس کس بات کو نمایاں کیا جائے اور کس کس نمودِ حُسن و عقیدت کی
تعریف کی جائے۔ بلکہ مَیں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اس موضوع کو طول دینا میرے نزدیک
قاری اور تحریر کے درمیان بلاوجہ حائل ہونے کے مترادف ہو گا۔ پڑھنے والا خود ہی
اندازہ لگا سکتا ہے کہ شاعر کا ہر شعر محبت و عقیدتِ رسول ؐ کی کھلی تصویر ہے۔ اور
اس میںسے شاعر کے سچے، مخلصانہ جذبات پھوٹے پڑ رہے ہیں اور ساتھ ہی، قاری یہ بھی
محسوس کرے گا کہ نعت نگار نے اندازِ بیان میں بھی، اور فکر و خیال میں بھی، جدت
طرازی کو ملحوظ رکھا ہے، جبکہ کہیں بھی احترام میں کوئی کمی نہیں آنے دی ہے۔
یوں تو اس مجموعے کا ہر شعر انوکھا اور انمول ہے، تاہم مجھے جو شعر بطور خاص جدت
اور ندرت لیے ہوئے نظر آئے، اُن میں سے چند شعر بطورِ نمونہ یہ ہیں۔
جی چاہتا ہے مدحتِ شاہِ اُمم کروں
احوالِ زندگی کو سپردِ قلم کروں
نظر جاتی ہے جب سرکارؐ کے دامانِ رحمت پر
رفو، پھر خودبخود چاکِ گریباں ہونے لگتا ہے
اب کے برس بھی قریۂ جاں میں کھلیں گلاب
اب کے برس بھی سر پہ ’’غلامی کا تاج‘‘ ہو
بُجھا ڈالیں گے سُورج علم کے اہلِ ہوس، آقاؐ
شریکِ جرمِ دانائی قلمداں ہونے والا ہے
آخری شعر میں جس خوبی سے دورِ حاضر کی علم دشمنی (بظاہر علم دوستی!) کی تباہ
کاری کا نقشہ کھینچا گیا ہے وہ تعریف سے ماورا ہے۔
میرے خیال میں ’’متاعِ قلم‘‘ پر اس سے زیادہ کچھ کہنا لاحاصل ہو گا کہ اطاعتِ رسولؐ
کے نتیجے میں رونما ہونے والی حبِ رسولؐ کا یہ بھی ایک شاہکار مجموعہ ہے اور قیاس
کیا جاسکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں خود شاعر سے اﷲ تعالیٰ کی محبت کا ظہور دُنیا میں
بھی ہو رہا ہے اور انشاء اﷲ آخرت میں بھی ہو گا۔
لاہور: 23 مارچ 2001
آسی ضیائی