متاع قلم (2001)
’’متاعِ قلم‘‘ چوتھا مجموعہ کلام یکم ربیع الاوّل ۱۴۲۲ھ (مطابق 2001ئ) : ’’دادا مرحوم حاجی عطا محمد والدِ مرحوم الحاج چودھری عبدالحمید کے نام، جن کی آغوشِ تربیت نے ہوائے مدینہ سے ہم کلامی کے شرفِ دل نواز سے نوازا۔‘‘ آسیؔ ضیائی، ریاضؔ حسین چودھری کے اُستاذِ گرامی انتہائی بلیغ انداز میں اپنے شاگردِ رشید کی خداداد صلاحیتوں کا برملا اعتراف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’پڑھنے والا خود ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ شاعر کا ہر شعر محبت و عقیدتِ رسول کی ُکھلی تصویر ہے۔ اور اس میں سے شاعر کے سچّے، مخلصانہ جذبات پھوٹے پڑ رہے ہیں اور ساتھ ہی، قاری یہ بھی محسوس کرے گا کہ نعت نگار نے اندازِ بیان میں بھی، اور فکر و خیال میں بھی، جدّت طرازی کو ملحوظ رکھا ہے، جب کہ کہیں بھی احترام میں کوئی کمی نہیں آنے دی ہے۔‘‘ ڈاکٹر سلیم اخترؔلکھتے ہیں: ’’ریاضؔ حسین چودھری نام و نمود کے سراب کے لیے سرگرداں نہیں۔ انھوں نے تو نعت گوئی داخلی کیفیات کے زیرِ اثر اختیار کی ہے، اس لیے وہ مدحتِ رسول کو مقصودِ فن اور ثنائے رسول ہی کو قبلۂ فن جانتے ہیں۔ ریاضؔ حسین چودھری دنیاداری کے تقاضوں والے دنیادار شاعر نہیں ہیں۔ اسی لیے انھوں نے خود کو صرف نعت گوئی کے لیے وقف کر رکھا ہے۔‘‘
فہرست
کچھ ’’متاعِ قلم‘‘ کے بارے میں
پشیماں ہے ازل سے اس لیے لوحِ کمال میری
دعا
نئے سال کے آغاز پر ایک اور دعائیہ نظم
غبارِ جاں میں آفتاب
حمدو نعت
ہر ایک لفظ ازل سے مجاہدے میں رہا
کسی کا نام ہونٹوں پر فروزاں ہونے والا ہے
طبیعت آج بھی میری ثنا خوانی پہ مائل ہے
سجدے میں سر ہے لب پہ مناجات اور مَیں
پسِ مژگاں حضوری کی دعائیں رقص کرتی ہیں
کلی سرِ شاخِ آرزوئے دلِ غلاماں کھلے گی کب تک
آرزو ہے مری روز و شب اے خدا، ذکرِ اطہر کی محفل سجاتا رہوں
آقاؐ، حصارِ غم میں پریشان ہے بہت
یا محمدؐ! شبِ احوالِ پریشاں پہ نظر
غبارِ وادیٔ بطحا ہی جنت ہے نگاہوں کی
کل جہاں سرکارؐ کا لگتا ہے میخانہ مجھے
اے ذوقِ نعت آج بھی اشکوں میں ڈھل ذرا
ذکرِ ختم المرسلیںؐ سے گھر کو مہکایا کرو
وہ گلیاں دریچے وہ در مانگتے ہیں
صلِّ علیٰ نبینا، صلِّ علیٰ محّمدٍ
آقاؐ کرم!
انتساب
سفرِ طیبہ سے پہلے
مشورہ
تضمین بر کلامِ قدسی
طیبہ کی جانب نظریں ہیں شام و سحر ہرجائی ہو
گدازِ مدحتِ خیر البشرؐ کا کیا کہنا
سنو اب رات بھر ہو گی سرِ محفل گل افشانی
زیرِ کربِ آب گھر مانا کہ گہرائی میں ہے
قلم ذکرِ نبیؐ میں جب گل افشاں ہونے لگتا ہے
جی چاہتا ہے مدحتِ شاہِ اممؐ کروں
خاموش، با ادب، سرِ دربار یا رسولؐ
خورشیدِ ثنا چرخِ عقیدت پہ سجا دیں
ہر صدی میرے پیمبرؐ کی صدی ہے
متاعِ عمرِ پریشاں
یا رسولؐ اللہ! مبارک باد قبول فرمائیں
آقاؐ حضورؐ! آج ضرورت ہے آپؐ کی
برہنگی
افراطِ جور کا وہی موسم
قصاصِ قتل انائے بشر
مَیں عرصۂ محشر میں ہوں
کلکِ جذباتِ وفا کی خوشدلی اچھی لگی
محشر کا دن حصارِ شمیمِ سحر میں ہے
سر نگوں ہے معبدِ عشقِ پیمبرؐ میں قلم
رہِ مصطفےٰؐ میں مری ہمسفر رقص کرتی ہوئی آج بھی کہکشاں ہے
کچھ دیر میں اٹھے گی گھٹا شہرِ نبیؐ سے
سنائے نعتِ پیمبرؐ غزل مدینے میں
بازارِ زندگی کو ہوس کا کھنڈر سمجھ
طیبہ سے آنے والے میرے قریب آنا
ترے ذکر پر نوازش کے سحاب امڈ کے برسیں
بیاضِ نعتِ پیمبرؐ کو ہم سرِ محشر
خاکِ طیبہ مرے ہر درد کا درماں ہونا
صورتِ حرفِ غم ہے نوائے قلم المدد یا رسولِ خدا المدد
یا خدا سینے کو جذبوں کا ہمالہ کر دے
بصد ادب مرے نطق و بیاں کے چاروں طرف
فلک پر چمکتے ہوئے چاند نے بھی
لوح و قلم کو ثروتِ حسن و جمال دے
مرے خدا کی خدائی کی وسعتوں میں ریاضؔ
ثنائے نبیؐ کی دعا چاہتا ہوں
جاتے ہوئے بھی سالِ گزشتہ بتا مجھے
رعنائی خیال کا پیکر بنائیں گے
اپنے اشکوں سے ہر اک حرف کو نم کرتے ہیں
جلتے ہوئے چمن کو دعائے نبیؐ ملے
لطف و کرم کی سرمدی دنیا میں لے گیا
پرچمِ نعت کھلے شام و سحر ہاتھوں میں
یا رب! مری ہر ایک دعا مستجاب ہو
سجدے میں ہر گھڑی مرے گھر کی فضا رہے
کلکِ رضا بھی پاس ہے جذبِ اویسؓ بھی
میرے احساسات کے دلکش پرندوں کو ریاضؔ