سجدے میں سر ہے لب پہ مناجات اور مَیں- متاع قلم (2001)
سجدے میں سر ہے لب پہ مناجات اور مَیں
شہرِ حضورؐ کے ہیں مضافات اور مَیں
حیرت میں ڈوب جاتا ہے ہر حرفِ آرزو
ظلمت کدے میں نُور کی برسات اور مَیں
یہ قریۂ شعور و ہنر تھا مگر یہ کیا
شب بھر جلوسِ جشنِ خرافات اور مَیں
سردارِ دو جہاںؐ کی گزر گہ پہ آج بھی
محوِ سفر ہیں گردشِ حالات اور مَیں
فریاد کر رہے ہیں رسالت مآبؐ سے
مقتل میں خونِ عدل و مساوات اور مَیں
بھر دیں نظر اٹھا کے، خدارا، یہ جھولیاں
در پر کھڑی ہیں میری بھی حاجات اور مَیں
دامن کشا رہے ہیں درِ مصطفیٰؐ پہ ہم
بچپن سے سر پھری مری عادات اور مَیں
آقاؐ ہیں کب سے حکمِ رہائی کے منتظر
زنداں میں ایک روزنِ آفات اور مَیں
مجھ سے گناہ گار کا رکھا گیا بھرم
اتنا کرم اور اتنی عنایات اور مَیں
کب سے کھڑے ہیں گنبدِ خضرا کے سامنے
کیفِ ثنا میں جھومتے لمحات اور مَیں
اب مفلسی کا پیش کروں گا جواز کیا
بچوں کے ہیں حضورؐ سوالات اور مَیں
نوحہ کناں ہیں اُمت بے جاں کے حال پر
اشکِ روانِ ضبط کی بارات اور مَیں
لپٹا ہوا ہے دُھند میں ہر راستہ حضورؐ
اس عہدِ ناروا کی کرامات اور مَیں
دربارِ مصطفیٰؐ میں بڑے احترام سے
کاسہ بکف ہیں میرے مفادات اور مَیں
روزِ ازل سے مجھ پہ کرم ہے حضورؐ کا
ورنہ ریاضؔ کیا مری اوقات اور مَیں
پرچم گدازِ عشق کا لہرائیں گے ریاضؔ
محشر کے دن بھی نعت کے نغمات اور مَیں