غبارِ وادیٔ بطحا ہی جنت ہے نگاہوں کی- متاع قلم (2001)
غبارِ وادیٔ بطحا ہی جنت ہے نگاہوں کی
عبادت ہے طوافِ گنبدِ خضرا ان آنکھوں کی
ضرورت، آج کے انسان کو تیری ضرورت ہے
طنابیں کٹ گئی ہیں امنِ ہر عالم کے خیموں کی
تمہیؐ بابِ رسالت کے ہو حرفِ اوّل و آخر
عبارت ایک ہی جیسی ہے آفاقی صحیفوں کی
طلوعِ صبح کا منظر اُفق پر ہو کبھی روشن
بہت تاریک ہے راہِ عمل اُمت کے بچوں کی
جمودِ مرگ طاری ہے طلسماتِ تحیر میں
حضورؐ اب برف بھی پگھلے شبِ ماتم میں چہروں کی
جوارِ دیدہ و دل میں حرارت کی اگیں فصلیں
کبھی کائی سی اترے منجمد سے سرد لہجوں کی
کہ لاشے اپنے کندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہیں ہم
گری ہے پا برہنہ قافلوں پر راکھ صدیوں کی
سدا شاداب رہتے ہیں شجر میرے تخیل کے
نہیں رکتی شبِ آخر کبھی برسات اشکوں کی
ورق پر خیمہ زن ہیں قافلے پھر چاند تاروں کے
کھڑی ہیں دست بستہ ٹولیاں مدحت کے لفظوں کی
انہی دلکش فضاؤں سے میں ربطِ خاص رکھتا ہوں
نہیں تمثیل کوئی شہرِ پیغمبرؐ کی گلیوں کی
ریاضؔ اپنی لحد میں نعت کے روشن دیے رکھنا
چمک اُٹھے گی قسمتِ شامِ رخصت کے دریچوں کی