خورشیدِ ثنا چرخِ عقیدت پہ سجا دیں- متاع قلم (2001)
خورشیدِ ثنا چرخِ عقیدت پہ سجا دیں
مدحت کے نئے پھول سرِ شاخ کھلا دیں
اوصافِ نبیؐ دل پہ رقم کرنے سے پہلے
اندر کے بھی ہم سارے تضادات مٹا دیں
سرکارؐ کی آمد ہَے سرِ بزمِ رسالت
ہر نقشِ کفِ پا پہ جبیں اپنی جھکا دیں
اٹھیں گی بھلا کیسے درِ شاہؐ کی جانب
اک سیلِ ندامت میں نگاہوں کو چھپا دیں
طوفانِ مصائب کے مقابل ہوں مَیں کب سے
آقاؐ مری کشتی کو کنارے سے لگا دیں
پھر اذنِ حضوری کا شرف مجھ کو عطا ہو
رستے میں جو حائل ہیں حجابات اٹھا دیں
فالج زدہ چہرے پہ پشیمان سی آنکھیں
سرکارؐ کبھی خواب میں مجھ کو بھی ردا دیں
آقاؐ، شبِ مجہول کی ظلمات میں گم ہے
انسان کو فاران کی چوٹی سے صدا دیں
گردش میں ہے اُمت کے مقدّر کا ستارا
لمحاتِ شکستہ کو پر و بالِ ہُما دیں
ہم غیرتِ ملّی کا جنازہ ہیں اٹھائے
دامانِ لحد میں ہیں زرِ قرضِ انا دیں
ٹھٹھرے ہوئے ماحول میں جذبوں کی تپش ہو
ہونٹوں کو سُلگتا ہوا وہ حرفِ دُعا دیں
بن جائیں گے پھر رزقِ زمیں اس کے اثاثے
انسان کو انسان کی عظمت سے ملا دیں
زخموں کی نمائش کا بھرم بھی رہے آقاؐ
ہر شاخِ برہنہ کو بُوئے گل کی قبا دیں
ہے چاند ریاضؔ اسمِ محمدؐ کا فروزاں
ہم اپنے چراغوں کو سرِ شام بجھا دیں