خاموش، با ادب، سرِ دربار یا رسولؐ- متاع قلم (2001)

خاموش، باادب، سرِ دربار یارسولؐ
حاضر ہے آج ایک گنہ گار یارسولؐ

الفاظ دم بخود ہیں قلم کی زبان پر
ممکن نہیں ہو شوق کا اظہار یارسولؐ

اس کو درِ جنابؐ سے نسبت اگر نہ ہو
عمرِ ہزار سال بھی بے کار یارسولؐ

دیکھی ہیں جب سے گنبد خضرا کی تابشیں
دنیائے رنگ و بو سے ہوں بیزار یارسولؐ

مجھ کو حضورؐ کحلِ جواہر عطا کریں
دیں بے بصر کو دیدۂ بیدار یارسولؐ

اس عمرِ مختصر میں یہ دیکھے پھر ایک بار
اُس شہرِ بے مثال کے بازار یارسولؐ

ہر وقت میرے دل میں منوّر یہی رہیں
طیبہ کے اردگرد کے آثار یارسولؐ

اوقات اپنی جانتا ہوں اس کے باوجود
مچلی ہے دل میں حسرتِ دیدار یارسولؐ

حجرہ کوئی تلاش رہا ہے سکون کا
خود سے بھی ہے جو برسرِ پیکار یارسولؐ

چھپتا رہا ہجومِ غلاماں میں رات دن
چشمِ کرم کا ایک طلب گار یارسولؐ

جائے فرار بھی تو نہ ڈھونڈے سے مل سکی
ہر سُو ہے ایک وادیٔ پُرخار یارسولؐ

سر پر ہیں خوف و جبرِ مسلسل کی بدلیاں
انسانیت کو سایۂ دیوار یارسولؐ

اس عہدِ بے اماں میں کہاں جائے آدمی
زخموں سے چُور چُور ہے پندار یارسولؐ

شفاف آئنوں پہ رقم کیا کروں حضورؐ
تشکیک کے کھنڈر میں ہیں افکار یارسولؐ

ہر سَمت زرپرستی کے اوہام کا نفاذ
ہر سَمت گمرہی کی ہے دیوار یارسولؐ

ترتیب پارہے ہیں اندھیروں کے طائفے
جاری ہے ظلمتوں کی بھی یلغار یارسولؐ

امّت غریقِ حرفِ ندامت بھی تو نہیں
عفو و کرم کی کب ہے سزاوار یارسولؐ

ہر پھول اپنی شاخ پر اپنے لہو میں تر
تصویرِ کرب ہے یہ چمن زار یارسولؐ

اہل ہوس نے آگ لگائی ہے ہر طرف
جھلسا رہی ہے گرمئی بازار یارسولؐ

کھلتے نہیں ہیں دامنِ جمہور میں گلاب
پابندِ حکم ہے لبِ اظہار یارسولؐ

ہم منزلوں سے دُور بہت دُور ہو چکے
روکے گا کون وقت کی رفتار یارسولؐ

اہلِ نظر کا چہرۂ شاداب بُجھ گیا
مانندِ برگِ خشک ہیں رخسار یارسولؐ

کب سے ریاضؔ ہے درِ اقدس پہ سرنگوں
آقاؐ، حضورؐ، احمدِ مختارؐ، یارسولؐ