کلی سرِ شاخِ آرزوئے دلِ غلاماں کھلے گی کب تک- متاع قلم (2001)

کلی سر شاخِ آرزوئے دلِ غلاماں کھِلے گی کب تک
صبا دریچوں میں پھول چُن کر مری گلی میں رکے گی کب تک

حضورؐ کب عام ہو گی خوشبو حروفِ ایمان و آگہی کی
فصیلِ شہرِ غبارِ حیرت، میں سوچتا ہوں، گرے گی کب تک

میں بھوک کب تک اگا کے ہونٹوں پہ خون پیتا رہوں گا اپنا
چمن میں محرومیوں کی چادر مرے بدن پر سجے گی کب تک

ہوس کے ہاتھوں میں آدمیت سسک رہی ہے حضورؐ کب سے
اُداس چہروں پہ زر پرستی عذاب نامے لکھے گی کب تک

حضورؐ سانسوں میں جل رہا ہے نحوستوں کا مہیب موسم
گھٹا کرم کی زمینِ طیبہ کو چوم کر پھر اٹھے گی کب تک

میںکب تلک دشتِ کربلا میں تلاش کرتا رہوں گا پانی
یہ شامِ عاشورِ زندگانی حضور آقاؐ، ڈھلے گی کب تک

غریقِ غم ہے مرا قبیلہ، اسے ملے آپؐ کا وسیلہ
بھنور میں کشتی ہے یا محمد، ؐ یہ ساحلوں سے لگے گی کب تک

مجھے تو اپنے ہی در سے آقاؐ نوازنے کا ہو حکم صادر
ہجومِ چارہ گراں میں میری انا سلامت رہے گی کب تک

محاذِ شب پر چراغ لے کر دُعا کے لشکر پڑے ہوئے ہیں
مگر، رسولِ امین و برحقؐ، قبائے امت جلے گی کب تک

نگار خانے میں عکسِ برہم غلط شبیہیں دکھا رہے ہیں
نقوشِ لمحاتِ جاوداں پر فنا کی مٹی پڑے گی کب تک

ریاضؔ پھر آنسوؤں کے گجرے بنا رہا ہے سحر سے پہلے
اسے اجازت درِ محبت پہ حاضری کی ملے گی کب تک