کچھ دیر میں اٹھے گی گھٹا شہرِ نبیؐ سے- متاع قلم (2001)
کچھ دیر میں اٹھے گی گھٹا شہرِ نبیؐ سے
بھیگا رہے دامن مرا اشکوں کی نمی سے
آ میرے قلم لوحِ دل و جاں پہ لکھیں نعت
کیا حالِ شبِ ہجر کہیں اور کسی سے
سوغات مدینے کی کھجوروں کی ملی ہے
رقصاں ہے مرے خون کی ہر بوند خوشی سے
تو حُسنِ گلستاں مرے قدموں سے لپٹ جا
نسبت ہے مجھے سیدِّ عالم کی گلی سے
باقی ہیں ابھی صبحِ سعادت میں کئی روز
ہونٹوں پہ مہک اٹھا ہے قرآن ابھی سے
مَیں اسمِ محمدؐ کی گھنی چھاؤں میں ہوں گا
تو لاکھ ڈرا لے مجھے محشر کی گھڑی سے
آقاؐ مری سوچوں کو ملے ضبط کی چادر
دریا ہو رواں عجز کا شوریدہ سری سے
بوبکرؓ و عمرؓ کے ہوں عطا نقشِ کفِ پا
انوار ملیں سیرتِ عثمانِ غنیؓ سے
ہر پھول شہادت کا کفن اوڑھے ہوئے ہو
زندہ ہوں روایاتِ چمن زارِ علیؓ سے
اب حشر تلک اُنؐ کی قیادت ہے مسلّم
لکھا ہے زمانے نے سخن حرفِ جلی سے
ہم لوگ ریاضؔ اپنے مقّدر کے دھنی ہیں
توفیقِ ثنا مانگتے ہیں ربِّ غنی سے