رہِ مصطفےٰؐ میں مری ہمسفر رقص کرتی ہوئی آج بھی کہکشاں ہے- متاع قلم (2001)

رہِ مصطفیٰؐ میں مری ہمسفر رقص کرتی ہوئی آج بھی کہکشاں ہے
خراماں خراماں صبا چل رہی ہے شگفتہ شگفتہ مری داستاں ہے

کبھی ابرِ رحمت ذرا کھل کے برسے کہاں تک کوئی ان بہاروں کو ترسے
یہاں ادھ جلی ٹہنیوں میں کسی بے نوا کا بھی اجڑا ہوا آشیاں ہے

وہی اُنؐ کی چوکھٹ کا شاداب منظر، ہجومِ غلاماں، ملائک کا منظر
وہی سبز گنبد، وہی بام و در ہیں، وہی روشنی آج بھی مہرباں ہے

حضورؐ آپؐ کا نام لیتے ہی اتریں چھلکتے ہوئے موسموں کے سمندر
مجھے اپنی ہونٹوں کی تشنہ زمیں پر مچلتی ہوئی رم جھموں کا گماں ہے

حضوری کے لمحے میسر جو آئیں غلام اپنے سینے سے ان کو لگائیں
اسی آرزو میں، اسی جستجو میں زرِ معتبر ہر طرف پر فشاں ہے

مَیں لفظوں کے گجرے لکھے جا رہا ہوں مَیں نعت مسلسل کہے جا رہا ہوں
کرم ہی کرم ہے عطا ہی عطا ہے نہ زورِ قلم ہے نہ زورِ بیاں ہے

مسلسل کرم ہے غلاموں کے گھر پر بلاتے ہیں سرکارؐ ہر شب ہی در پر
ریاضؔ ایک مدت سے چشمِ تصوّر میں مہکا ہوا رتجگے کا سماں ہے