وہ گلیاں دریچے وہ در مانگتے ہیں- متاع قلم (2001)
وہ گلیاں دریچے وہ در مانگتے ہیں
مدینے کے شام و سحر مانگتے ہیں
نہ چاندی کے سکّے نہ سونے کی مہریں
زرِ حُبِ خیرُالبشرؐ مانگتے ہیں
سلگتا رہے جس میں عشقِ پیمبرؐ
خدا سے وہ ہم چشمِ تر مانگتے ہیں
سلیقہ ملے گفتگو کا ہمیں بھی
ہنر یا نبیؐ بے ہنر مانگتے ہیں
مقیّد ہیں جو ایک مدت سے دل میں
وہ جذبات اڑنے کو پر مانگتے ہیں
جو صدیوں سے ظلم و ستم کا ہدف ہیں
کرم کی شہا! اک نظر مانگتے ہیں
جو پچھلے پہر اُٹھ کے روتے ہیں شب بھر
وہ سرکارؐ اذنِ سفر مانگتے ہیں
تمنّا ہے خاکِ درِ مصطفیٰؐ کی
کہاں لوگ شمس و قمر مانگتے ہیں
غلاموں کے لشکر سرِ مقتلِ شب
دعاؤں میں کب سے اثر مانگتے ہیں
دیارِ ثنائے محمدؐ کے جھونکے
ریاضؔ آنسوؤں کے گہر مانگتے ہیں