پشیماں ہے ازل سے اس لیے لوحِ کمال میری- متاع قلم (2001)
پشیماں ہے ازل سے اس لئے لوحِ گماں میری
نہیں توصیف کے قابل، قلم میرا، زباں میری
سرِ گردابِ غم بیم و رجا کی کیفیت میں ہوں
کبھی ساحل پہ بھی پہنچیں الٰہی! کشتیاں میری
پسِ زنداں گرفتارِ بلا ہوں ایک مدّت سے
مسلسل کرب کی حالت میں ہے عمرِ رواں میری
در و دیوار پر بھی بھوک کے اُگنے لگے جنگل
الٰہی! ختم ہو جائیں یہ ساری سختیاں میری
غبارِ مفلسی میں ہے مرے آنگن کی رعنائی
گھٹا برسے کہ تشنہ ہے ابھی تک ارضِ جاں میری
بنامِ مصطفیٰؐ آسودگی دے میرے بچوں کو
اگر اشکوں سے بھی لکھی گئی ہے داستاں میرے
مجھے برگد کے پیڑوں کی گھنی چھاؤں کا موسم دے
تمازت کا ہدف ہیں ادھ جلی سی کھیتیاں میری
ہوائے عجز کو حکمِ سکونت دے مرے مالک
انا کی گرد میں لپٹی ہوئی ہیں بستیاں میری
مرے اوہام پر اپنی صداقت منکشف کر دے
غلط سوچوں کو دیتی ہیں جنم مجبوریاں میری
زباں پر قفل ڈالے ہیں ہوائے جبر نے جب سے
نگاہوں سے ٹپک پڑتی ہیں اکثر سسکیاں میری
کھڑا ہوں آئنہ خانے کی دیواروں کے سائے میں
سلامت اب رہے گی کب شبیہہِ ناتواں میری
گداز و سوز کی مشعل جلے گی ہر دریچے میں
ذرا عرشِ بریں سے لوٹ آنے دو فغاں میری
ریاضِؔ بے نوا کی التجا ہے بزمِ ہستی میں
نشانِ راہ بن جائے یہ ہستی بے نشاں میری