سنو اب رات بھر ہو گی سرِ محفل گل افشانی- متاع قلم (2001)
سنو اب رات بھر ہو گی سرِ محفل گل افشانی
ملا ہے پھر بیان و نطق کو اذنِ ثنا خوانی
دل و جاں سیرتِ اطہر کی خوشبو سے معطر ہیں
نظر میں جگمگا اٹھی ہیں تلمیحاتِ قرآنی
مسلسل اک عذابِ نارسائی میں رہے زندہ
بہت کچھ کہہ رہی ہے یانبیؐ اشکوں کی طغیانی
مرے کشکول میں سکّے بھلا چاندی کے کیا ہوں گے
مرے گھر میں زرِ حُبِّ نبیؐ کی ہے فراوانی
مَیں اپنا عکس ڈھونڈوں یامحمدؐ، کس طرف جاؤں
ہوئی ہے آئنہ خانے میں پھر تجسیم حیرانی
چلی ہے پا برہنہ بادِ گلشن جانبِ طیبہ
سجا کر اپنے ہاتھوں میں سمن زاروں کی ویرانی
ذرا اُمّت کے احوالِ پریشاں پر نظر کیجئے
جھکی ہے کتنی دہلیزوں پہ کب سے اس کی پیشانی
وہ آدابِ شہنشاہی کو کیا خاطر میں لائے گا
مقدّر ہو گئی جس کا درِ اقدس کی تابانی
کہاں نعتِ مسلسل صورتِ مصحف ہوئی نازل
کہاں میرا جہانِ فن، کہاں میری سخن دانی
سکوتِ مرگ کے موسم میں یہ اُنؐ کا کرم دیکھو
ریاضِؔ بے نوا کی خوش نوائی کی ہے ارزانی