زیرِ کربِ آب گھر مانا کہ گہرائی میں ہے- متاع قلم (2001)

زیرِ کربِ آب گھر مانا کہ گہرائی میں ہے
نقشِ دیوارِ نبیؐ، پر، قصرِ بینائی میں ہے

موسموں کے جبر سے خلقِ خدا پائے نجات
ایک عالم سبز لمحوں کی پذیرائی میں ہے

میرے اعزازِ غلامی کو ملے اذنِ دوام
جس طرح نغمہ ازل سے روحِ شہنائی میں ہے

پھر مدینے کی ہواؤں کے پیام آنے لگے
عکسِ پا سرکار کا قلبِ تمنّائی میں ہے

ایک دیوانہ کہ پھر زنجیر پا ہونے کو ہے
ایک سیلِ اشک پھر چشمِ تماشائی میں ہے

آؤ میرے ساتھ دربارِ محمدؐ میں چلو
اس گھڑی میرا تصّور شہرِ دانائی میں ہے

خلدِ طیبہ کی مسافت حشر تک نَے ختم ہو
کیا بتاؤں کیسی لذّت آبلہ پائی میں ہے

تیرے حصے میں کہاں اے باغِ جنت کی ہوا
بات جو اُنؐ کی گلی کوچوں کی رعنائی میں ہے

خوف، مطلق عشق کے خیمے میں آ سکتا نہیں
ذکر جب اُنؐ کا مری ہر شامِ تنہائی میں ہے

بانجھ ہو سکتی نہیں کھیتی مرے افکار کی
گنبدِ خضرا مری آنکھوں کی پہنائی میں ہے

میرا سب کچھ آمنہؓ کے لال کے قدموں میں ہے
خاک اس بزمِ جہاں کی بزم آرائی میں ہے

یہ بہارِ شہرِ طیبہ کا تصدق ہے ریاضؔ
دلکشی الفاظ میں ہے حُسن گویائی میں ہے