سنائے نعتِ پیمبرؐ غزل مدینے میں- متاع قلم (2001)
سنائے نعتِ پیمبرؐ، غزل مدینے میں
سمائِ شعر، ستارے اُگل مدینے میں
برہنہ سر ہوں ردائے غبارِ طیبہ دے
شکستہ دل ہوں مجھے لے کے چل مدینے میں
بہت چمک لیا بے نور آسمانوں میں
مری حیات کے خورشید ڈھل مدینے میں
اب اس کے بعد تو محوِ خرام کیا ہو گی
ہوائے شوق نہ رستہ بدل مدینے میں
بھٹک نہ جائے رہِ عشق میں تری حیرت
یہ شہرِ عشق و وفا ہے سنبھل مدینے میں
اسی لئے تو ہیں لیل و نہار گردش میں
ابد نے دیکھا ہے حسنِ ازل مدینے میں
یہاں تو عجز کی شاخوں پہ پھول کھلتے ہیں
سرِ نیاز جھکا کر نکل مدینے میں
فقط یہ شرط ہے حبِّ نبیؐ کا مظہر ہو
قبول ہو گا ترا ہر عمل مدینے میں
کہا بھی تھا دلِ مضطر سے آنسوؤں نے ریاضؔ
حصارِ ضبط میں رہ کر مچل مدینے میں