افراطِ جور کا وہی موسم- متاع قلم (2001)
افراطِ جور کا یہی موسم تھا اُن دنوں
گرد و غبارِ کرب و بلا
سائبان تھا
نیزوں پہ اپنے سر تھے چراغاں کئے ہوئے
اور آفتاب خون کی سرخی میں غرق تھا
مضروب جسم
گھوڑوں کے سم
اور شامِ غم
تشنہ لبوں میں دشت کی اُڑتی ہوئی وہ دھول
آقا! مرے رسولؐ
اُس وقت بھی حضورؐ کے اسمِ شعور سے
دیوارِ شام میں کھُلے تھے روشنی کے در
ہر زخم پر تھا آپؐ کا دستِ کرم حضورؐ!
جیسے میں کربلا میں کبھی بھی گیا نہ تھا
جیسے مرا قبیلہ ہدف ہی بنا نہ تھا
جیسے تمازتوں نے لکھا ہی نہ تھا مجھے
جیسے کسی کے سر کی بھی چادر چھنی نہ تھی
جیسے کسی کے خیموں کی ٹوٹی نہ تھی طناب
آقاؐ حضورؐ آپؐ نے مجھ پر کرم کیا
شادابیوں سے دامنِ امید بھر دیا
لیکن مرے حضورؐ آپؐ نے مجھ پر کرم کیا
شادابیوں سے دامنِ امید بھر دیا
لیکن مرے حضورؐ، مرے چارہ گر رسولؐ!
افراطِ جور کا وہی موسم ہے ان دنوں
نہرِ فرات پر ہیں عساکر یزید کے
بیعت کریں حضورؐ اندھیروں کی کس طرح
روشن چراغ آپؐ نے جن کو عطا کئے
افراطِ جور کا وہی موسم ہے ان دنوں
ننگے سروں کو چادرِ رحمت نصیب ہو
انسانیت کو سایۂ شفقت نصیب ہو