محشر کا دن حصارِ شمیمِ سحر میں ہے- متاع قلم (2001)
مَحشر کا دن حصارِ شمیمِ سحر میں ہے
جیسے زوالِ کرب شبِ مختصر میں ہے
رعنائی خیال قلم کا کرے طواف
ماہِ عرب کا حسنِ سراپا نظر میں ہے
دیدارِ مصطفیٰؐ کی تمنّا لئے ہوئے
روزِ ازل سے ایک پرندہ سفر میں ہے
کشکولِ آرزو میں بھی عجز و دعا کے پھول
احساسِ کج کلاہی زرِ معتبر میں ہے
زنجیرِ حرفِ جبر بھی ہے نافذ العمل
اک اضطراب آج بھی نوعِ بشر میں ہے
میرا ضمیر میرے قلم کا ہے محتسب
اب تک اسی لئے یہ انا کے گہر میں ہے
بچوں کے لب پہ نعتِ نبیؐ ہے سجی ہوئی
صد شکر روشنی یہ ہمارے بھی گھر میں ہے
محنت کے حکم نے مجھے رکھا ہے سر بلند
کیا اعتماد نکہتِ خلدِ ہنر میں ہے
خود بادباں پہ تیر چلاتے رہے ہیں ہم
کس منہ سے اب کہیں کہ سفینہ بھنور میں ہے
منظر سمیٹتی ہے شبِ تشنہ کام کے
آقا حضورؐ! چشمِ تماشا نظر میں ہے
آتے ہیں جس میں صبر و رضا کے کئی مقام
میرا بھی گھر حضورؐ اسی رہگذر میں ہے
جب سے ملا ہے منصبِ نعت نبیؐ مجھے
لطفِ عمیم گردشِ شام و سحر میں ہے
جس پر ہے ناز کلکِ مصوّر کو بھی ریاضؔ
حسنِ کمال وہ بھی کتابِ بشر میں ہے