غبارِ جاں میں آفتاب- متاع قلم (2001)

1

جمالِ حمد، محیطِ شعور و قلب و نظر
سرِ نیاز، قلم کا ورق ورق پہ نگوں
دُعا، قلوبِ تپیدہ کی ایک سرگوشی
ہر ایک ذرۂ ارضِ بدن ہے حرفِ سپاس
وہ لاشریک وہ اوّل بھی اور آخر بھی
ازل ابد کا بھی مالک وہی خدائے رحیم
خدا وہی مرے آقاؐ کا جو خدا ہے ریاضؔ

زمینِ زرد کو کالی گھٹائیں دیتا ہے
وہی ستاروں کو روشن قبائیں دیتا ہے

2

جوازِ ارض و سماوات میں فقط لکھو
جنابِ ختمِ رسل تاجدارِ ارض و سماؐ
حضورؐ سرورِ عالمؐ، پیمبرِ عربیؐ
جبینِ وقت پہ جس کے نقوشِ پا کی بہار
حدیثِ شوق عبارت ہے جس کے ہونے سے

بفیضِ نعت یہ احساس جاگ اٹھا ہے
محیطِ ارض و سما رحمتوں کا ہالہ ہے

3

وہی رسولؐ جو ہر عہد کی جلالت ہے
وہی رسولؐ جو ہے کائنات کا محور
وہی رسولؐ جو صدق و صفا کا پیمانہ
وہی رسولؐ جو معیارِ آدمیّت ہے
وہی رسولؐ چراغِ حرا جسے کہیے
وہی رسولؐ دلوں کا جو حکمراں ٹھہرا
وہی رسولؐ محبت کا اِستعارہ ہے
وہی رسولؐ علامت ہے ہر اُجالے کی
وہی رسولؐ صداقت کا حرفِ آخر ہے
وہی رسولؐ اجالا ہے ہر زمانے کا
وہی رسولؐ برہنہ سروں کی چادر ہے
وہی رسولؐ جبینِ سما کا اُجلا پن
وہی رسولؐ امامت کرے رسولوں کی
وہی رسولؐ جو چہرہ ہے آدمیّت کا
وہی رسولؐ جو انسانیت کا محسن ہے
وہی رسولؐ جسے پیرہن کرم کا ملا

اُسی کے نور سے روشن فصیلِ ایمانی
وہی رسولؐ ہے حرفِ دُعا کی تابانی

4

حضورؐ- آیۂ رحمت حضورؐ ابرِ کرم
حضورؐ- تشنہ زمینوں کی آخری امید
حضورؐ- عصرِ رسالت میں فقر کی چادر
حضورؐ- ننگے سروں پر سحابِ نورِ ازل
حضورؐ- آدمِ خاکی کا سرمدی چہرہ
حضورؐ- وادیٔ عشق و وفا کا حسن و جمال
حضورؐ- باعثِ تخلیقِ رنگ و بوئے چمن
حضورؐ- مفلس و نادار کی متاعِ عزیز
حضورؐ- ہادیٔ کونین، رحمتِ عالم
حضورؐ- گردشِ لیل و نہار کا باعث
حضورؐ- پیکرِ رعنائی جمال و جلال
حضورؐ- ساقی کوثر، حضورؐ نورِ مبیں
حضورؐ- شافعِ محشر، حضورؐ روحِ ابد
حضورؐ- صبحِ ازل کے جمال کا مظہر
حضورؐ- نورِ مجسم، دُعا کا سرنامہ
حضورؐ- ثروتِ اہلِ یقین و اہلِ نظر
حضورؐ- معدنِ شفقت، حضورؐ گنجِ دُعا
حضورؐ- مرسلِ آخر، پیمبرِ اوّل
حضورؐ- شوکتِ آدم کی آخری مشعل
حضورؐ- رحمت و راحت کا سرمدی جھرمٹ
حضورؐ- ملجاء و ماوائے نسلِ انسانی

جبیں جھکا کے بصد احترام لیتے ہیں
حضورِؐ سیّدِ والاؐ کا نام لیتے ہیں

5

ظہورِ صبحِ بہاراں کی منتظر کب سے
قدم قدم پہ تفکّر کے جال بنتی ہیں
نظر نظر میں دھنک کا بکھیر کر آنچل
روش روش پہ سجاتی ہیں رتجگوں کا خمار
چراغِ راہگذر پر فریفتہ آنکھیں
غبارِ راہِ مدینہ سے اکتساب کریں
جمالِ گنبدِ خضرا سے ہمکنار بھی ہوں
درِ حضورؐ پہ پلکوں کی چادریں رکھ کر
حریمِ سیّدِ لولاک سے لپٹ جائیں

تمام حُسن زمین اور آسماں کو ملے
پرہ حضورؐ کے قدموں سے کل جہاں کو ملے

6

گلابِ اسمِ محمدؐ کہ آرزو کا شباب
گلابِ اسمِ محمدؐ کہ آبروئے چمن
گلابِ اسمِ محمدؐ چراغِ راہِ ھدیٰ
گلابِ اسمِ محمدؐ شعور کی شبنم
گلابِ اسمِ محمدؐ بنائے ارض و سما
گلابِ اسمِ محمدؐ ردائے عفو و کرم
گلابِ اسمِ محمدؐ ثباتِ ارضِ ہنر
گلابِ اسمِ محمدؐ نفاذِ عدل و یقیں
گلابِ اسمِ محمدؐ جمالِ لوح و قلم
گلابِ اسمِ محمدؐ سخن کی رعنائی
گلابِ اسمِ محمدؐ عروجِ نوعِ بشر
گلابِ اسمِ محمدؐ نصابِ شام و سحر
گلابِ اسمِ محمدؐ ازل کی دانائی
گلابِ اسمِ محمدؐ ہے حمدِ ربِّ جلیل
گلابِ اسمِ محمدؐ جوازِ صبحِ چمن
گلابِ اسمِ محمدؐ ردائے لطف و عطا

انہیؐ کا اسمِ گرامی گماں میں رہتا ہے
مرا قلم بھی کسی آسماں میں رہتا ہے

7

حضورؐ آپ کے فیضان کا نتیجہ ہے
ہے میری نسل کو ادراک روشنی کا بہت
یہ آگہی کے نگینوں کی آب ہے خود بھی
شعور و حکمت و تدبیر کے جھروکوں سے
تمام منظرِ امکاں کے پھول چنتی ہے
جلوسِ صدق کی بنتی نہیں تماشائی
صداقتوں کے علم لے کے چلنے والی ہے
علومِ نو کو پرکھتی ہے عقل و دانش پر
ہر اک سوال میں پوشیدہ مضطرب آنکھیں
ہر اک سوال میں دانائیوں کی رعنائی
ہر اک سوال تجسس کا آئنہ بردار
حضورؐ خوفزدہ ہوں میں اپنے بچوں سے
ہر ایک بات کی یہ مانگتے ہیں مجھ سے دلیل
نئے دنوں کے حقائق ہیں سامنے ان کے
حضورؐ، میں کہ جسے خود تلاش ہے اپنی
جسے خبر ہی نہیں اپنے من کی دنیا کی
یہ کیا کہ اجڑی ہوئی ہے یقیں کی پگڈنڈی
یہ کیا کہ ذہن کی دیوار میں دراڑیں ہیں
اداس شام کے چہرے پہ دھول صدیوں کی
قضا بھی راستہ روکے ہوئے ہے کرنوں کا
مہیب وادیٔ اعصاب سر بسر آنسو
مری زباں میں بھی لکنت کا عارضہ آقاؐ
مری غزل کی بھی شوخی غبارِ آوارہ
ہوائے شہرِ بلاغت کا بھول کر بھی حضورؐ!
فصیلِ علم و ہنر سے گزر نہیں ہوتا
حضورؐ بانجھ ہوئی کھیتیاں تفکر کی
ہوا میں لٹکی ہوئی ہے سخن کی ویرانی
قلم پہ لپٹا ہوا ہے جہالتوں کا کفن
حضورؐ جھلسی ہوئی دوپہر ہے اور مَیں ہوں

حضورؐ سیّدِ والاؐ، اِدھر نگہ کیجئے
غبارِ شہرِ تمنّا کو بھی صبا کیجئے

8

حضورؐ دامنِ صد چاک میں چھپیں کیسے
شگاف، جسم سے جو روح تک نمایاں ہیں
شعور و عقل کے سکّے بھی میں نہیں رکھتا
مرا یہ دامنِ کشکول کب سے خالی ہے
حضورؐ، سوچ کی ویران رہگذاروں میں
ہر ایک سَمت سے یلغار ہے ہواؤں کی
قدم قدم پہ بگولے اڑا رہے ہیں مذاق
روش روش پہ نمودِ سحر کی لاشیں ہیں
زباں نے اوڑھ لیا سسکیوں کا پیراہن
سراب حدِ نظر تک ہے اور تشنہ لبی
حضورؐ آپ کی اُمت کا یہ مقدّر ہے
یہ کیا کہ آج دھنک سے نہیں اُفق روشن
کسی دریچے سے سورج نظر نہیں آتا
ہجومِ کرب و بلا اشکِ غم کی طغیانی
تمام راستے مسدود ہو گئے آقاؐ
حروف کھو کے معانی کی روشنی کا جمال
حضورؐ آپ کی چوکھٹ پہ سر جھکاتے ہیں
ہر ایک شاخ کو پتوں کی شال مل جائے
کوئی لگا نہ سکے خوشبوؤں پہ پابندی
نمودِ فن کی دُعاؤں کو معتبر کیجئے

غبارِ جاں میں کوئی آفتاب دیں آقاؐ
کتابِ نور کا شب کو نصاب دیں آقاؐ

9

کسے خبر تھی کہ افغان بیٹیوں کا سہاگ
زمیں پہ دخترِ حوا کے سر کی چادر ہے
کسے خبر تھی کہ بارود کے دھماکوں سے
سماعتوں کو نئی شان ملنے والی ہے
کسے خبر تھی کہ افغانیوں کی جرأت سے
ہوا میں جبر کی زنجیر ٹوٹ جائے گی
چڑیل شامِ نحوست کی منہ چھپائے گی
حضورؐ آپ مبارک قبول فرمائیں
ہزار سجدے مچلنے لگے جبینوں میں
عَلم جہاد کے لہرا رہے ہیں سینوں میں

نظامِ ظلم و تشدّد پگھلنے والا ہے
شبِ سیاہ کا منظر بدلنے والا ہے

10

حصارِ خوف و ندامت میں سر برہنہ ہیں
یہ کب سے آپؐ کی امت کی بیٹیاں آقاؐ
غلام گردشِ قصرِ ہوس کی قیدی ہیں
حضورؐ آج بھی یہ زندہ دفن ہوتی ہیں
حیا و شرم کے پیراہنوں کی منڈی میں
جھپٹ رہی ہے ہوس کاریوں کی تاریکی
ضمیرِ آدمِ خاکی پہ خطۂ شب سے
ہوس کدوں کو ملی ہے ردا تحفظ کی

امڈ رہی ہے ہر اک سمت سے دکھوں کی ہوا
ملے حضورؐ کنیزوں کو رحمتوں کی ردا

11

قدم قدم پہ فروزاں ہیں حریت کے چراغ
افق افق پہ چناروں سے اٹھ رہا ہے دھواں
نظر نظر لگے میلے سُلگتے زخموں کے
لہو سے وادیٔ کشمیر سرخرو ہے حضورؐ
کٹے پھٹے سے سرِ شام بے کفن لاشے
جوان بہنوں کے سر پر ردا نہیں آقاؐ
کسی کی موت پہ پُرسہ کوئی نہیں دیتا
تمام منظرِ شب آنسوؤں کی مالا ہے
صلیب و دار پہ لٹکی ہوئی ہیں زنجیریں
لبوں پہ حرفِ دعا بھی جمے سے جاتے ہیں
چنار خون اُگلتے ہیں ماہ پاروں کا
حضورؐ موسمِ دار و رسن مسلّط ہے
فصیلِ شہرِ تمنّا کے ہر دریچے میں
حصارِ جبرِ مسلسل میں ڈل کا پانی ہے
سوال کرتے ہیں بچے یہ اپنے بوڑھوں سے
ہمارا کیسا مقدّر ہے روزِ اول سے
ردائے ظلم ہواؤں کی اوڑھنی ٹھہری

مجھے یقین ہے، گرچہ ابھی اندھیرا ہے
افق کے پار مچلتا ہوا سویرا ہے

12

طویل شب کے گزرنے کے بعد بھی آقاؐ
دلوں میں تیریؐ محبت کا نور زندہ ہے
وہی شعور، وہی آگہی، وہی آنکھیں
ترےؐ حروف کی ہر تازگی سلامت ہے
لٹی نہیں ہے مہذب دنوں کی دانائی
فضائے بدر تو پیدا کبھی نہیں ہو گی
مگر حضورؐ یہ قفقاز کے پہاڑوں میں
یہ کون تازہ لہو کے جلا رہے ہیں چراغ
نمازِ عشق ادا ہو رہی ہے شعلوں میں
حضورؐ جبرِ مسلسل کے باوجود اب تک
گرا نہیں ہے غلاموں کے ہاتھ سے پرچم

کتابِ عشق کی تفسیر لکھ رہے ہیں حضورؐ
ہمارے کل کی یہ تعبیر لکھ رہے ہیں حضورؐ

13

یہ ریگِ کرب و بلا کی تمازتوں کا حصار
یہ خون و خاک کی بارش میں روشنی کے گلاب
یہ ظلم و جبر کی کالی سیاہ شب کے چراغ
ہوا کے دوش پہ خیمے لگا رہے ہیں حضورؐ
یہ جن کے گھر ہیں کھلے آسماں کے آنگن میں
یہ کب سے آتش و آہن کی سرخ بارش میں
نئے دنوں کے سہانے سے خواب بنتے ہیں
یہ زخم زخم ہواؤں میں مخلمیں چہرے
یہ تار تار قباؤں میں دلہنوں کا سہاگ
حضورؐ ارضِ فلسطیں کے رہنے والوں پر
کرم کی سبز سی کرنوں کا جال بن جائے
لہو کی سرخ قباؤں سے ڈھال بن جائے
حضورؐ اہلِ ہوس کی ہوس کے پنجے میں
نحیف دخترِ حوا کی اَدھ کھلی آنکھیں
کسی نجات دہندہ کی منتظر کب سے
یہ تشنہ لب یہ سسکتی سی ایک سرگوشی
ضمیرِ آدمِ خاکی پہ تازیانہ ہے
برہنہ سر، جلے خیمے اداس قتل گہیں
فراتِ عشق، لہو کے چراغ، آہ و فغاں
حضورؐ شامِ غریباں میں بیبیوں کی پکار
پڑے ہیں پرچمِ جمہور پر سیہ دھبے
ازل سے خون کے سوداگروں سے کون کہے
اٹھا کے ہاتھ میں پتھر وطن کی گلیوں میں
یہ ننھے منّے سے بچے بھی احتجاج کریں
یہ اپنے خون کے پرچم اٹھا اٹھا کے حضورؐ
کفن سروں پہ لپیٹے ہوئے قدم بہ قدم
رواں یہ کب سے شہادت گہوں کی جانب ہیں
دھواں دھواں سی فضاؤں میں بے کفن لاشے
بجھے بجھے سے مناظر، اجاڑ ویرانے

یقیں ہے قفل تشدّد کے ٹوٹ جائیں گے
گلاب سر کے سرِ کربلا سجائیں گے

14

کہ قصرِ عشق کے آنگن میں خونِ مسلم سے
چراغِ صبر فروزاں ہیں یارسول اﷲ
قدم قدم پہ حکومت ہے خوف و دہشت کی
فضا میں آتش و آہن کی کب سے بارش ہے
ردائے عصمت و عفت کی قتل گاہوں میں
برہنہ سر پھریں اُمت کی بیٹیاں کب سے
بدن پہ ظلم و تشدد کی اَن گنت مہریں
حصارِ خوفِ مسلسل میں روح قیدی ہے
خلا میں اپنے تقدّس کی اوڑھنی ڈھونڈیں
یہ برف برف سے چہرے یہ غم کی تصویریں
غبارِ مقتلِ شب میں بجھی بجھی آنکھیں
کسی نجات دہندہ کی راہ میں نکلیں
حضورؐ بھوک کے جنگل اُگے ہیں چہروں پر
نڈھال جسم پہ پنجروں میں پھڑپھڑاتے ہیں
ہتھیلیوں پہ کرے رقص موت کی دیوی
حضورؐ عالمی غنڈوں کے ہاتھ میں ہے قلم
نفاذِ عدل کی اُمّید کیا کرے کوئی
بلادِ عشق سے آقاؐ یہ آپؐ کی اُمت
کٹے پھٹے ہوئے جسموں کو لے کے آئی ہے
حضورؐ روح کے اندر بھی تیر اترے ہیں
درندگی کے تصور سے بند ہے دھڑکن
حضورؐ پھول سے بچے اُداس ہیں کب سے

حضورؐ چادرِ زینبؓ نظر نہیں آتی
مہیب شب میں کہیں سے سحر نہیں آتی

15

حضورؐ آپؐ کے نعلین کے وسیلے سے
چراغِ عشق جلانے کی آرزو لے کر
یقیں کی دولتِ بیدار کا تمنائی
نوائے اُمّتِ مرحوم ہے علَم جس کا
دل و نگہ کی برہنہ سی زرد شاخوں پر
یقین و عزم کی خوشبو کا لے کے سندیسہ
حصارِ ظلم و جہالت کے گھپ اندھیروں میں
غبارِ عظمتِ رفتہ سے چُن رہا ہے گلاب
وہ جس کے اشک مسلسل چراغ بنتے ہیں
حضورؐ اس پہ نگاہِ کرم کی بارش ہو
حضورؐ نقشِ کفِ پا کی روشنی سے اسے
نہال کر کے علم اس کے ہاتھ میں دے دیں
حضورؐ خلدِ مدینہ کے برگِ رحمت سے
فصیلِ کشورِ دل پر گلاب بانٹے گا

وہی جو کشورِ جاں میں جلا رہا ہے چراغ
ہوا کے مدِ مقابل بھی لا رہا ہے چراغ

16

یہ ارضِ پاک، غلاموں کی سرزمیں آقاؐ
ہدف بنی ہے غبارِ شبِ ندامت کا
روش روش سے جنازے اٹھے ہیں پھولوں کے
محیط شامِ غریباں ہے ہر دریچے میں
خرید رکھی ہے اہلِ ہوس نے برسوں سے
حضورؐ مسندِ شاہی کی عصمت و عفت
حضورؐ شہرِ غزل میں لہو کی بارش ہے
نفاذِ عدل کا ہر خواب بھی ادھورا ہے

عطا ہو ابرِ کرم کی ردا چمن کے لئے
تمام حرفِ دعا میرے اس وطن کے لئے

*

مرے خدا کی خدائی کی وسعتوں میں ریاضؔ
مرے نبیؐ کی کوئی ایک بھی مثال نہیں
دیے جلانے کا کوئی جواز ہو تو کہو
یہ آفتابِ ازل ہے اسے زوال نہیں