آقاؐ، حصارِ غم میں پریشان ہے بہت- متاع قلم (2001)
آقاؐ، حصارِ غم میں پریشان ہے بہت
تنہا ہجومِ یاس میں انسان ہے بہت
کشکولِ جان و دل میں زرِ معتبر ہے کم
کانٹوں سے تار تار گریبان ہے بہت
میں کیا مری مجال بساطِ ادب پہ کیا
نعتِ نبیؐ کے باب میں قرآن ہے بہت
آقائے دو جہاںؐ کے کرم کا نہ پوچھئے
اک بے نوائے شہر پہ احسان ہے بہت
بچے حضورؐ کہتے ہیں ہونٹوں کو چُوم کر
شہرِ نبیؐ کی دید کا ارمان ہے بہت
رقصاں غبارِ راہِ مدینہ ہے ان دنوں
حکمِ سفر کا اب کے بھی امکان ہے بہت
اِک لمحہ بھی فراق میں جینا محال ہے
رختِ سفر نہ باندھئے سامان ہے بہت
سرشاریٔ ولائے نبیؐ ہمرکاب ہے
کیف و سرور و لطف میں وجدان ہے بہت
تحقیق و جستجو بھی ہے اس باب میں گناہ
میرے لئے حضورؐ کا فرمان ہے بہت
اتنا کہ دل تلاوتِ قرآں کیا کرے
دیدار مصطفیٰؐ کا تو آسان ہے بہت
اسلام، اک جمودِ مسلسل کا ہے شکار
منہاجِ اجتہاد بھی ویران ہے بہت
دامن تہی ہے حکمت و عقل و شعور سے
تفریق و انتشار کا سامان ہے بہت
ہم سب اسیر اپنے مفادات کے ہوئے
اخلاص و اتحاد کا فقدان ہے بہت
ہر عکس اعتماد سے اب بولتا ہے جھوٹ
آقاؐ، نظر کا آئینہ حیران ہے بہت
نشتر حضورؐ جسم کے پاتال میں کھلے
مکر و ریا و بغض کا سرطان ہے بہت
کہتا ہے ہر خطا مری بخشش کا ہے سبب
یہ آپؐ کا ریاضؔ بھی ناداں ہے بہت